الادب المفرد
كِتَابُ الكُنْيَةِ
كتاب الكنية
375. بَابُ الْكُنْيَةِ لِلصَّبِيِّ
بچے کی کنیت رکھنے کا بیان
حدیث نمبر: 847
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدْخُلُ عَلَيْنَا، وَلِي أَخٌ صَغِيرٌ يُكَنَّى: أَبَا عُمَيْرٍ، وَكَانَ لَهُ نُغَرٌ يَلْعَبُ بِهِ فَمَاتَ، فَدَخَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَآهُ حَزِينًا، فَقَالَ: ”مَا شَأْنُهُ؟“ قِيلَ لَهُ: مَاتَ نُغَرُهُ، فَقَالَ: ”يَا أَبَا عُمَيْرٍ، مَا فَعَلَ النُّغَيْرُ؟“.
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ہاں تشریف لاتے اور میرا ایک چھوٹا بھائی تھا جس کی کنیت ابوعمیر تھی۔ اس نے ایک بلبل پال رکھی تھی، جس کے ساتھ وہ کھیلتا تھا، تو وہ مرگئی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو اسے پریشان دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”اسے کیا مسئلہ ہے؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا: اس کی بلبل مرگئی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے ابوعمیر! تیری بلبل کو کیا ہوا تجھے جدائی دے گئی۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب الأدب: 6203، 6129 و مسلم،كتاب الأدب: 2150»
قال الشيخ الألباني: صحيح
الادب المفرد کی حدیث نمبر 847 کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 847
فوائد ومسائل:
اس سے معلوم ہوا کہ بچے کی کنیت بھی رکھی جاسکتی ہے، نیز اس سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفقت اور تواضع کا بھی علم ہوا کہ آپ بچوں کے ساتھ بھی اس طرح دل لگی فرماتے تھے۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 847