الادب المفرد
كِتَابُ الكُنْيَةِ
كتاب الكنية
373. بَابُ اسْمِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكُنْيَتِهِ
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نام اور کنیت رکھنے کا حکم
حدیث نمبر: 845
حَدَّثَنَا أَبُو عُمَرَ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي السُّوقِ، فَقَالَ رَجُلٌ: يَا أَبَا الْقَاسِمِ، فَالْتَفَتَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: دَعَوْتُ هَذَا، فَقَالَ: ”سَمُّوا بِاسْمِي، وَلاَ تُكَنُّوا بِكُنْيَتِي.“
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بازار میں تھے کہ ایک آدمی نے کہا: اے ابوالقاسم! نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کی طرف متوجہ ہوئے تو اس نے کہا: میں نے اس یعنی کسی اور شخص کو بلایا تھا۔ تب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے نام پر نام رکھ لیا کرو، مگر میری کنیت پرکنیت نہ رکھو۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: انظر الحديث: 837»
قال الشيخ الألباني: صحيح
الادب المفرد کی حدیث نمبر 845 کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 845
فوائد ومسائل:
(۱)ابن الحنفیہ کی روایت میں جو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خصوصیت ذکر ہوئی ہے، وہ ان کے فہم کے مطابق ہے۔ جمہور کے نزدیک راجح بات دیگر دلائل کی روشنی میں یہ ہے کہ آپ کے نام پر نام رکھنا، یا آپ کی کنیت پر کنیت رکھنا یا دونوں کو جمع کرنا کہ نام محمد ہو اور کنیت ابوالقاسم، اب جائز ہے۔ یہ ممانعت آپ کی زندگی کے ساتھ خاص تھی۔ شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ دلائل کے مناقشے سے میری رائے یہ ہے کہ آپ کی کنیت پر کنیت رکھنا کسی صورت جائز نہیں ہے جیسا کہ امام شافعی اور امام بیہقی رحمہ اللہ نے بھی اسی کو راجح قرار دیا ہے۔ (شرح صحیح الأدب المفرد حدیث:۸۴۲)
(۲) نبی صلی اللہ علیہ وسلم ابوالقاسم صرف قاسم رضی اللہ عنہ کا باپ ہونے کی بنا پر نہیں تھے بلکہ آپ اللہ کا دیا ہوا دین اور دنیا تقسیم کرنے کی وجہ سے بھی ابوالقاسم تھے۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 845