الادب المفرد
كِتَابُ الأسْمَاءِ
كتاب الأسماء
371. بَابُ أَسْمَاءِ الأَنْبِيَاءِ
انبیاء علیہم السلام کے ناموں پر نام رکھنا
حدیث نمبر: 836
حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ قَيْسٍ قَالَ: حَدَّثَنِي مُوسَى بْنُ يَسَارٍ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ”تَسَمُّوا بِاسْمِي، وَلاَ تُكَنُّوا بِكُنْيَتِي، فَإِنِّي أَنَا أَبُو الْقَاسِمِ.“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے نام پر نام رکھ لیا کرو، لیکن میری کنیت پر کنیت نہ رکھو، بلا شبہ میں ہی ابوالقاسم ہوں۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب الأدب: 6188 و مسلم: 2134 و أبوداؤد: 4965 و الترمذي: 2841 و ابن ماجه: 3735»
قال الشيخ الألباني: صحيح
الادب المفرد کی حدیث نمبر 836 کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 836
فوائد ومسائل:
اس مسئلے میں اختلاف ہے راجح بات یہ ہے کہ یہ ممانعت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے ساتھ خاص تھی تاکہ آپ کے ساتھ اشتباہ پیدا نہ ہو جیسا کہ آئندہ حدیث میں مذکور ہے کہ ایک صحابی نے کسی شخص کو بلایا جس کی کنیت ابوالقاسم تھی تو آپ نے سمجھا کہ مجھے بلایا ہے۔ اب جب یہ وجہ ختم ہوچکی ہے تو نام اور کنیت دونوں یا الگ الگ رکھنا جائز ہے۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 836