صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي
کتاب: غزوات کے بیان میں
78. بَابُ حَجَّةُ الْوَدَاعِ:
باب: حجۃ الوداع کا بیان۔
حدیث نمبر: 4400
حَدَّثَنِي مُحَمَّدٌ، حَدَّثَنَا سُرَيْجُ بْنُ النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا فُلَيْحٌ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:" أَقْبَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ الْفَتْحِ وَهُوَ مُرْدِفٌ أُسَامَةَ عَلَى الْقَصْوَاءِ وَمَعَهُ بِلَالٌ وَعُثْمَانُ بْنُ طَلْحَةَ حَتَّى أَنَاخَ عِنْدَ الْبَيْتِ، ثُمَّ قَالَ لِعُثْمَانَ:" ائْتِنَا بِالْمِفْتَاحِ"، فَجَاءَهُ بِالْمِفْتَاحِ، فَفَتَحَ لَهُ الْبَابَ، فَدَخَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأُسَامَةُ، وَبِلَالٌ، وَعُثْمَانُ، ثُمَّ أَغْلَقُوا عَلَيْهِمُ الْبَابَ، فَمَكَثَ نَهَارًا طَوِيلًا، ثُمَّ خَرَجَ وَابْتَدَرَ النَّاسُ الدُّخُولَ، فَسَبَقْتُهُمْ فَوَجَدْتُ بِلَالًا قَائِمًا مِنْ وَرَاءِ الْبَابِ، فَقُلْتُ لَهُ: أَيْنَ صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ: صَلَّى بَيْنَ ذَيْنِكَ الْعَمُودَيْنِ الْمُقَدَّمَيْنِ، وَكَانَ الْبَيْتُ عَلَى سِتَّةِ أَعْمِدَةٍ سَطْرَيْنِ صَلَّى بَيْنَ الْعَمُودَيْنِ مِنَ السَّطْرِ الْمُقَدَّمِ، وَجَعَلَ بَابَ الْبَيْتِ خَلْفَ ظَهْرِهِ، وَاسْتَقْبَلَ بِوَجْهِهِ الَّذِي يَسْتَقْبِلُكَ حِينَ تَلِجُ الْبَيْتَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِدَارِ، قَالَ: وَنَسِيتُ أَنْ أَسْأَلَهُ كَمْ صَلَّى وَعِنْدَ الْمَكَانِ الَّذِي صَلَّى فِيهِ مَرْمَرَةٌ حَمْرَاءُ".
مجھ سے محمد بن رافع نے بیان کیا، کہا ہم سے سریج بن نعمان نے بیان کیا، ان سے فلیح بن سلیمان نے بیان کیا ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ فتح مکہ کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قصواء اونٹنی پر پیچھے اسامہ رضی اللہ عنہ بیٹھے ہوئے تھے اور آپ کے ساتھ بلال اور عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہما بھی تھے آپ نے کعبہ کے پاس اپنی اونٹنی بٹھا دی اور عثمان رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ کعبہ کی کنجی لاؤ، وہ کنجی لائے اور دروازہ کھولا۔ آپ اندر داخل ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اسامہ، بلال اور عثمان رضی اللہ عنہم بھی اندر گئے، پھر دروازہ اندر سے بند کر لیا اور دیر تک اندر (نماز اور دعاؤں میں مشغول) رہے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے تو لوگ اندر جانے کے لیے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے لگے اور میں سب سے آگے بڑھ گیا۔ میں نے دیکھا کہ بلال رضی اللہ عنہ دروازے کے پیچھے کھڑے ہوئے ہیں۔ میں نے ان سے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کہاں پڑھی تھی؟ انہوں نے بتایا کہ خانہ کعبہ میں چھ ستون تھے۔ دو قطاروں میں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آگے کی قطار کے دو ستونوں کے درمیان نماز پڑھی تھی۔ کعبہ کا دروازہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیٹھ کی طرف تھا اور چہرہ مبارک اس طرف تھا، جدھر دروازے سے اندر جاتے ہوئے چہرہ کرنا پڑتا ہے۔ آپ کے اور دیوار کے درمیان (تین ہاتھ کا فاصلہ تھا)۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ یہ پوچھنا میں بھول گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنی رکعت نماز پڑھی تھی۔ جس جگہ آپ نے نماز پڑھی تھی وہاں سرخ سنگ مرمر بچھا ہوا تھا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4400 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4400
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کی مناسبت باب سے معلوم نہیں ہوتی۔
فتح مکہ8ھ میں ہوا اور حجۃ الوداع 10ھ میں وقوع میں آیا۔
شاید یہی فرق بتلانا مقصود ہوکہ حجۃ الوداع فتح مکہ کے بعد وقوع میں آیا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4400
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 4400
باب اور حدیث میں مناسبت
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 4400 کا باب: «بَابُ حَجَّةُ الْوَدَاعِ:»
ترجمہ الباب اور حدیث میں مناسبت انتہائی مشکل ہے، اس کا اعتراف کرتے ہوئے،
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اور علامہ قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«قد اشتكل دخول هذا الحديث فى باب حجة الوداع، لأن فيه التصريح بأن القصة كانت عام الفتح وعام الفتح كان سنة ثمان و حجة الوداع كانت سنة عشر»
”باب حجۃ الوداع میں اس حدیث کا داخل ہونا مناسبت کے اعتبار سے انتہائی مشکل ہے، کیونکہ فتح مکہ کا واقعہ سنہ ۸ ہجری کا ہے اور حجۃ الوداع کا واقعہ سنہ ۱۰ ہجری کا ہے۔ (لہٰذا ان کی آپس میں مناسبت نہیں ہے)۔“
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ رحمہ اللہ نے واضح طور پر اقرار کر لیا کہ ترجمتہ الباب اور حدیث میں مناسبت بہت مشکل ہے۔
محمد داؤد راز رحمہ اللہ ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
”اس حدیث کی مناسبت باب سے معلوم نہیں ہوتی، فتح مکہ ۸ ہجری میں ہوا اور حجۃ الوداع 10 ہجری میں وقوع میں آیا، شاید یہی فرق بتلانا مقصود ہو کہ حجۃ الوداع مکہ کے بعد وقوع میں آیا ہے۔“
محمد داود راز رحمہ اللہ نے مناسبت کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ یہ ثابت فرما رہے ہیں کہ حجۃ الوداع فتح مکہ کے بعد وقوع پذیر ہوا۔
جہاں تک مناسبت کا تعلق ہے، یہ حقیر اور ناکارہ بندہ کہتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ ترجمہ طالب اور حدیث کے ذریعے کسی اور مخفی چیز کی طرف بھی اشارہ فرما رہے ہیں جس پر غور و فکر کرنا انتہائی ضروری ہے۔
پہلی مناسبت یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ اس طرف توجہ دلانا چاہتے ہیں کہ فتح مکہ کے روز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب بیت اللہ میں داخل ہوئے تھے تو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سفر خاص بیت اللہ کے قصد کے لیے نہ تھا، بلکہ اس موقع پر آپ کا جو سفر تھا وہ جہاد اور غزوہ کے ارادے کا تھا، لیکن جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حج کے لئے بیت اللہ میں داخل ہوئے تو اس دن آپ کا سفر اور مقصد صرف بیت اللہ ہی کا تھا۔
دوسری مناسبت جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس ضعیف اور ناکارہ بندے کو سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ اسلامی فتوحات اور لوگوں کا جوق در جوق اسلام میں داخل ہونا فتح مکہ کے بعد ہی تھا جس کی طرف اللہ تعالیٰ نے واضح اشارہ فرمایا کہ:
«إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّـهِ وَالْفَتْحُ * وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّـهِ أَفْوَاجًا ٭ فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا.» [110-النصر:3 - 1]
یہ سورۃ مبارکہ فتح مکہ کے بعد نازل ہوئی جس میں جوق در جوق لوگوں کے اسلام میں داخل ہونے کی پیشن گوئی ہے اور یہ بھی یاد رکھا جائے کہ نزول کے اعتبار سے یہ آخری سورۃ ہے، جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا بھی اشارہ ہے، اس سورۃ کا تعلق فتح مکہ کے واقعہ کے ساتھ ہے اور جو حجۃ الوداع کے خطبہ کا واقعہ ہے اس خطبہ کے آغاز میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بھی موجود ہے کہ:
«ايها الناس اسمعوا قولي، فاني لا أدري لا ألقاكم بعد عامي هذا .» [تاريخ ابن هشام: 603/2]
”اے لوگو! میری بات غور سے سنو، پس مجھے نہیں معلوم کہ میں اس سال کے بعد آپ سے ملوں گا کہ نہیں۔“
یعنی خطبہ حجۃ الوداع میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات کی خبر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو سنا دی، اب ترجمۃ الباب سے حدیث کی مناسبت پر غور کیجئے کہ تحت الباب جو حدیث پیش فرمائی ہے جس میں فتح مکہ کا ذکر ہے، اس دوران نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پہ قرآن نازل کر کے صرف آپ علیہ السلام کی وفات کا اشارہ فرمایا گیا مگر حجۃ الوداع جو کہ باب ہے اس میں مکمل طور پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات کی خبر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو دے دی، لہٰذا یہ بھی دقیق مناسبت کا پہلو موجود ہے، اب اگر غور کیا جائے تو ایک اور بھی ترجمۃ الباب سے حدیث کی مناسبت بنتی ہے وہ یہ کہ فتح مکہ کے روز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر سورۃ النصر نازل ہوئی جو کہ نزول کے اعتبار سے آخری سورت ہے اور جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ حجۃ الوداع سے فارغ ہوئے تو آپ پر سورہ مائدہ کی آیت نازل ہوئی:
«الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا.» [5-المائدة:3]
اس آیت میں دین کو مکمل کرنے کی بشارت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سنائی گئی۔ لہٰذا سورۃ النصر جو فتح مکہ کے روز نازل ہوئی اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا اشارہ تھا اور سورہ المائدہ میں دین مکمل کرنے کا حکم موجود ہے، لہٰذا یہاں پر یہ مناسبت بھی موجود ہے کہ دین کا تعلق اور اس کی تکمیل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کے ساتھ وابستہ ہے، آپ کے بعد نہ ہی دین میں کسی امر پر زیادتی ہو گی اور نہ ہی کمی۔۔۔۔۔
فتح مکہ کی حدیث کے الفاظ پر غور کریں کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللہ میں داخل ہوئے تو بیت اللہ کا دروازہ بند کر دیا، جو کہ اس بات کی طرف دقیق اشارہ ہے کہ اب دین کے احکامات کے نزول اور نزول وحی کا سلسلہ عنقریب بند ہونے والا ہے، لہٰذا ایسا ہی ہوا کہ صرف دو سال بعد یہ سلسلہ ہمیشہ کے لئے بند ہو گیا۔
عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 56
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4400
حدیث حاشیہ:
1۔
یہ واقعہ فتح مکہ کا ہے جوآٹھ ہجری میں ہوا یہ عنوان حجۃ الوداع ہے جو دس ہجری میں کیا گیا۔
حافظ ابن حجر ؒ نے اشکال وارد کیا ہے کہ نہ معلوم امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو حجۃ الوداع میں کیوں بیان کیا ہے؟ (فتح الباري: 132/8)
2۔
دراصل یہاں کوئی اشکال نہیں بلکہ امام بخاری ؒ ایک اختلافی مسئلے پرتنبیہ کرناچاہتے ہیں۔
اس امر میں اختلاف ہے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہ ﷺ بیت اللہ میں داخل ہوئے تھے یا نہیں؟ امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے ثابت کیا ہےکہ رسول اللہ ﷺ حجۃ الوداع کے موقع پر بیت اللہ میں داخل ہوئے تھے کیونکہ جب فتح مکہ کے موقع پر بیت اللہ میں داخل ہونا یقینی ہے۔
حالانکہ اس سفر کامقصد صرف جہاد کرنا ار کفر کو دبانا تھا، بیت اللہ کی زیارت مقصود نہ تھی تو حجۃ الوداع کےموقع پر بطریق اولیٰ دخول ثابت ہوگا۔
کیونکہ یہ سفر تو محض بیت اللہ کی زیارت کے لیے تھا بلکہ ایک صریح حدیث سے بھی ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ حجۃ الوداع کے موقع پر بیت اللہ میں داخل ہوئے تھے۔
حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک دفعہ میرے پاس تشریف لائے تو چہرہ مبارک پر حزن وملال تھا، حالانکہ جب آپ میرے پاس سے گئے تھے تو اس وقت آپ کے چہرے پر خوشی ومسرت کے آثار نمایاں تھے۔
حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں:
میں نے وجہ پوچھی تو بتایا کہ میں بیت اللہ میں داخل ہوا ہوں اور میں نے بیت اللہ میں داخل ہوکر اپنی اُمت کو مشقت میں ڈال دیا ہے۔
اگرمجھے اس امر کااحساس پہلے ہوجاتا جواب ہوا ہے تو کبھی بیت اللہ میں داخل نہ ہوتا۔
(سنن أبي داود، المناسك، حدیث: 2029)
3۔
اگرچہ اس حدیث میں حجۃ الوداع کی تصریح نہیں ہے۔
تاہم یہ بات ثابت ہے کہ حضرت عائشہ ؓ فتح مکہ کے وقت ہمرا ہ نہیں تھیں، البتہ حجۃ الوداع پرآپ کے ساتھ تھیں اور اس امر پر اتفاق ہے کہ فتح مکہ سے پہلے آپ بیت اللہ میں داخل نہیں ہوئے۔
ممکن ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر اندر داخل ہوکر مورتیوں کو توڑا ہو اور حجۃ الوداع کے موقع پر داخل ہوکر نماز پڑھی ہو۔
اس صورت میں (عَامَ فَتحِ مَكَّةَ)
کے الفاظ کسی راوی کے وہم پر مبنی ہوں گے۔
یہ بھی ممکن ہے کہ وہم راوی نہ ہو بلکہ روایت کا پہلا حصہ عام فتح مکہ پر محمول ہواور دوسرا حصہ جہاں بیت اللہ کادرواہ بند کرنے کا ذکر ہے وہ حجۃ الوداع پرمحمول ہو۔
واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4400