الادب المفرد
كِتَابُ الأقوال
كتاب الأقوال
322. بَابُ مَنْ لَمْ يَرَ بِحِكَايَةِ الْخَبَرِ بَأْسًا
کسی شخص کے پرانے واقعہ کو بیان کرنا
حدیث نمبر: 757
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ بَهْدَلَةَ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: لَمَّا قَسَّمَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَنَائِمَ حُنَيْنٍ بِالْجِعْرَانَةِ ازْدَحَمُوا عَلَيْهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ”إِنَّ عَبْدًا مِنْ عِبَادِ اللهِ بَعَثَهُ اللَّهُ إِلَى قَوْمٍ، فَكَذَّبُوهُ وَشَجُّوهُ“، فَكَانَ يَمْسَحُ الدَّمَ عَنْ جَبْهَتِهِ وَيَقُولُ: ”اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِقَوْمِي، فَإِنَّهُمْ لاَ يَعْلَمُونَ.“ قَالَ عَبْدُ اللهِ بْنُ مَسْعُودٍ: فَكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَحْكِي الرَّجُلَ يَمْسَحُ عَنْ جَبْهَتِهِ.
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقامِ جعرانہ پر حنین کی غنیمتیں تقسیم کیں تو لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رش ڈال دیا۔ تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں میں سے ایک بندے کو ایک قوم کی طرف مبعوث فرمایا تو انہوں نے اس کو جھٹلا دیا اور زخمی کر دیا۔“ وہ اپنی پیشانی سے خون صاف کرتے ہوئے فرمارہے تھے: ”اے اللہ میری قوم کو بخش دے کیونکہ وہ لا علم ہے۔“ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: گویا ابھی بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ رہا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حکایت بیان کرتے ہوئے پیشانی مبارک پر ہاتھ پھیر رہے ہیں۔
تخریج الحدیث: «حسن: أخرجه أحمد: 4057 و أبويعلي: 4971 و رواه البخاري: 3477 و مسلم: 1792، مختصرًا - انظر الصحيحة: 3175»
قال الشيخ الألباني: حسن
الادب المفرد کی حدیث نمبر 757 کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 757
فوائد ومسائل:
(۱)اس سے معلوم ہوا کہ کسی بات کو سمجھانے کے لیے حکایت بیان کرنا اور ساتھ عملاً کرکے دکھانے میں کوئی خرچ نہیں۔ یہ اس نقالی میں نہیں آتا جو ممنوع ہے۔
(۲) آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور سابقہ انبیاء پر بہت زیادہ آزمائشیں آئیں حتی کہ ان کی قوم نے توحید کی پاداش میں انہیں مارا پیٹا لیکن انہوں نے پھر بھی ان کی ہدایت کے لیے دعا ہی فرمائی۔
(۳) یہ نبی کون تھے؟ اس کی وضاحت نہیں ہے۔ بعض نے کہا ہے کہ اس سے مراد خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی ذات مراد ہے کہ جب طائف والوں کو دعوت دینے کے موقع پر آپ کو زخمی کیا گیا تو آپ نے یہ دعا فرمائی۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 757