Note: Copy Text and Paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي
کتاب: غزوات کے بیان میں
75. بَابُ قُدُومُ الأَشْعَرِيِّينَ وَأَهْلِ الْيَمَنِ:
باب: قبیلہ اشعر اور اہل یمن کی آمد کا بیان۔
حدیث نمبر: 4388
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ، عَنْ ذَكْوَانَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَتَاكُمْ أَهْلُ الْيَمَنِ هُمْ أَرَقُّ أَفْئِدَةً وَأَلْيَنُ قُلُوبًا، الْإِيمَانُ يَمَانٍ، وَالْحِكْمَةُ يَمَانِيَةٌ، وَالْفَخْرُ وَالْخُيَلَاءُ فِي أَصْحَابِ الْإِبِلِ، وَالسَّكِينَةُ وَالْوَقَارُ فِي أَهْلِ الْغَنَمِ"، وَقَالَ غُنْدَرٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ: سَمِعْتُ ذَكْوَانَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن ابی عدی نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے، ان سے سلیمان نے، ان سے ذکوان نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے یہاں اہل یمن آ گئے ہیں، ان کے دل کے پردے باریک، دل نرم ہوتے ہیں، ایمان یمن والوں کا ہے اور حکمت بھی یمن کی اچھی ہے اور فخر و تکبر اونٹ والوں میں ہوتا ہے اور اطمینان اور سہولت بکری والوں میں۔ اور غندر نے بیان کیا اس حدیث کو شعبہ سے، ان سے سلیمان نے، انہوں نے ذکوان سے سنا، انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے۔
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4388 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4388  
حدیث حاشیہ:
غندر کی روایت کو امام احمد نے وصل کیا ہے، اس سند کے بیان کرنے سے غرض یہ ہے کہ اعمش کا سماع ذکوان سے بصراحت معلوم ہوجائے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4388   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3935  
´یمن کی فضیلت کا بیان`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے پاس اہل یمن آئے وہ نرم دل اور رقیق القلب ہیں، ایمان یمنی ہے اور حکمت بھی یمنی ہے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب/حدیث: 3935]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
بقول بعض آپ ﷺ نے ایمان و حکمت کو جو یمنی فرمایا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ایمان و حکمت دونوں مکہ سے نکلے ہیں اور مکہ تہامہ سے ہے اور تہامہ سر زمین یمن میں داخل ہے،
اور بقول بعض یہاں ظاہری معنی ہی مراد لینے میں کوئی حرج نہیں،
یعنی یہاں خاص یمن جو معروف ہے کہ وہ لوگ مراد ہیں جو اس وقت یمن سے آئے تھے،
نہ کہ ہر زمانہ کے اہل یمن مراد ہیں،
نیز یہ معنی بھی بیان کیا گیا ہے کہ یمن والوں سے بہت آسانی سے ایمان قبول کر لیا،
جبکہ دیگرعلاقوں کے لوگوں پر بہت زیادہ محنت کرنی پڑتی تھی،
اس لیے اہل یمن (اس وقت کے اہل یمن) کی تعریف کی،
واللہ اعلم۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3935   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1080  
1080- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: اہل یمن تمہارے پاس آئے ہیں یہ نرم دل اور رفیق ذہین کے مالک ہیں ایمان ایمانی ہے۔ حکمت یمانی ہے، جبکہ جفا کاری، سختی اور دلوں کا سخت ہونا بیعہ اور مضر قبیلے سے تعلق رکھنے والے اونٹوں کے مالکان میں پایا جاتا ہے۔‏‏‏‏ سفیان کہتے ہیں: روایت کے یہ الفاظ اہل یمن تمہارے پاس آئے ہیں اس سے مراد اہل تہامیہ ہیں، کیونکہ مکہ یمن ہے اور یہی تہامیہ ہیں۔ حدیث کے الفاظ سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ ایمان یمانی ہے اور حکمت یمانی ہے۔ (یعنی یمنی لوگوں کا ایمان مضبوط ہے) [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1080]
فائدہ:
اس حدیث سے اہل یمن کی فضیلت ثابت ہوتی ہے، اس سے یمن کے تمام لوگ، جو قیامت تک آنے والے ہیں، مراد نہیں ہیں، بلکہ بعض خاص لوگ مراد ہیں، کیونکہ یمن کی موجودہ صورتحال انتہائی خطرناک ہے، وہاں رافضیوں کا قبضہ ہے، اور وہ قرآن و حدیث کے دشمن ہیں، نہ ان میں ایمان ہے اور نہ دانائی، یہ لوگ اس حدیث کے مصداق نہیں ہیں، نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ جفاکش اور سخت دل ہونا اچھے انسان کی علامت نہیں، بلکہ اچھا انسان نرم دل، اور مہربان دل والا ہوتا ہے۔ «اللهم اجعلنا منهم»
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1078   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 182  
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اہلِ یمن آئے ہیں یہ لوگ نرم دل ہیں ایمان یمنی ہے، فقہ یمنی ہے اور حکمت بھی یمانی ہے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:182]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
:
(1)
فِقْه:
لغوی طور پر کسی چیز کے فہم اور علم کو کہتے ہیں،
بعض نے معنی باریک بینی،
دقیقہ رسی اور متکلم کی غرض و مقصد کو جان لینا بتایا ہے۔
(2)
اَلْحِكْمَةُ:
حکمت کے مختلف معانی کیے گئے،
آسان معنی یہ ہے کسی چیز کی اصل اور حقیقت کو جاننا اور اس کے مطابق عمل کرنا۔
(3)
أَرَقُّ أَفْئِدَةً:
رقت،
باریکی اور نرمی کو کہتے ہیں،
مقصد ہے اثر پذیری یا جلد متاثر ہونے والے۔
(4)
أَفْئِدَةً:
فوادٌ کی جمع ہے،
بعض قلب اور فواد دونوں کو ہم معنی قرار دیتے ہیں اور ظاہر یہی ہے۔
بعض دل کے اندرونی،
یا دل کی آنکھ کو فواد کہتے ہیں۔
فوائد ومسائل:
اللہ تعالیٰ نے مختلف علاقوں کےلوگ کے اندر مختلف صفات رکھی ہیں،
یمنی لوگوں کے اندر حدیث میں بیان کردہ صفات پائی جاتی ہیں،
جیسا کہ اہل مشرق کے اندر دلوں کی سختی اور درشتی پائی جاتی ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 182   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 184  
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تمھارے پاس یمنی لوگ آئےہیں دل کے ضعیف اور فواد کے نرم، فقہ یمنی ہے اور حکمت بھی یمانی ہے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:184]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
قلب کے ضعیف اور فواد کے رقیق ہونے کا مقصد یہ ہے کہ ان کے دلوں کے اندر خوف وخشیت اور تواضع ہے اور وعظ نصیحت سے جلد متاثر ہونے اور صحیح بات کو قبول کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔
دلوں کی قسوت اور غلظت سے پاک اور صحیح وسالم ہیں۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 184   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 190  
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تمھارے پاس اہلِ یمن آئے ہیں، ان کے قلوب نرم اور فواد رقیق (پتلے) ہیں۔ ایمان یمنی ہے اور حکمت بھی یمانی ہے، اور کفر کی چوٹی مشرق کی طرف ہے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:190]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
:
رَأْسُ الْكُفْرِ:
رأسٌ،
سر یا کسی چیز کی چوٹی کو کہتے ہیں،
اور "رأسُ الشَّهرٍ" سے مراد مہینہ کا پہلا دن ہوتا ہے،
اس لیے مراد،
منبع و سرچشمہ ہو گا،
جس طرح محاورہ ہے "رأسُ الْحِكْمَةِ مَخَافَةُ اللهِ" حکمت کا سرچشمہ اللہ کا خوف ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 190   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3499  
3499. حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ م میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: فخر اورتکبر آواز بلند کرنے والوں (چلانے والوں) میں ہے جو اونی خیموں میں رہتے ہیں اور نرم دلی بکریاں چرانے والوں میں ہوتی ہے۔ ایمان بھی یمنی لوگوں کا قابل رشک ہے اور سوجھ بوجھ بھی اہل یمن کی معتبر ہے۔ ابوعبداللہ (امام بخاری ؒ) فرماتے ہیں کہ یمن کا نام اس لیے یمن رکھاگیا ہے کہ وہ بیت اللہ کےدائیں جانب ہے۔ اور شام کو شام اس لیے کہتے ہیں کہ وہ کعبہ کے بائیں طرف ہے۔ المشامة بائیں جانب کو، دائیں ہاتھ کا أشومى اوربائیں جانب کو أشأم کہاجاتا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3499]
حدیث حاشیہ:
جیسے سورۃ بلد میں ہے ﴿وَالَّذِينَ كَفَرُ‌وا بِآيَاتِنَا هُمْ أَصْحَابُ الْمَشْأَمَةِ ﴿١٩﴾ یعنی جن لوگوں نے کفر کیا یہ بائیں جانب والے ہیں، جن کو بائیں ہاتھ میں نامہ اعمال ملے گا، دورآخر میں یمن میں استاد الاساتذہ حضرت علامہ امام شوکانی ؒ پیدا ہوئے جن کے ذریعہ سے فن حدیث کی وہ خدمات اللہ پاک نے انجام دلائیں جو رہتی دنیا تک یاد گار زمانہ رہیں گی، نیل الاوطار آپ کی مشہور ترین کتاب ہے جو شرح حدیث میں ایک عظیم درجہ رکھتی ہے۔
غفراللہ له۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3499   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4390  
4390. حضرت ابوہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: تمہارے ہاں اہل یمن آئے ہیں جو نرم دل اور رقیق القلب ہیں۔ دین کی سمجھ یمن والوں میں ہے اور حکمت بھی یمن کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4390]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں یمن والوں کی بڑی فضیلت نکلتی ہے۔
علم حدیث کا جیسے یمن میں رواج ہے ویسا دوسرے ملکوں میں نہیں ہے اور یمن میں تقلید شخصی کا تعصب نہیں ہے، دل کا پر دہ نرم اور باریک ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ حق بات کو جلدقبول کر لیتے ہیں جو ایمان کی علامت ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4390   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3499  
3499. حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ م میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: فخر اورتکبر آواز بلند کرنے والوں (چلانے والوں) میں ہے جو اونی خیموں میں رہتے ہیں اور نرم دلی بکریاں چرانے والوں میں ہوتی ہے۔ ایمان بھی یمنی لوگوں کا قابل رشک ہے اور سوجھ بوجھ بھی اہل یمن کی معتبر ہے۔ ابوعبداللہ (امام بخاری ؒ) فرماتے ہیں کہ یمن کا نام اس لیے یمن رکھاگیا ہے کہ وہ بیت اللہ کےدائیں جانب ہے۔ اور شام کو شام اس لیے کہتے ہیں کہ وہ کعبہ کے بائیں طرف ہے۔ المشامة بائیں جانب کو، دائیں ہاتھ کا أشومى اوربائیں جانب کو أشأم کہاجاتا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3499]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث میں یمن والوں اور بکریوں والوں کی تعریف بیان کی گئی ہے۔
بکریوں میں عجز و انکسار زیادہ ہوتا ہے، ان کے چرانے والوں میں بھی یہ صفات سرایت کرجاتی ہیں۔

اہل یمن لڑائی کے بغیر مسلمان ہوئے تھے۔
انھی راہ راست پر لانے کے لیے کوئی مشقت نہیں اٹھانا پڑی جبکہ اہل مشرق کے خلاف جنگیں لڑی گئیں نقصان اٹھانے کے بعدیہ لوگ مسلمان ہوئے۔
ایک حدیث میں ہے:
تمہارے پاس اہل یمن آئیں گے جن کے دل نرم اور گداز ہوں گے۔
اسی لیے ایمان اہل یمن اور حکمت ودانائی بھی اہل یمن کی قابل اعتبار ہے اورکفر کا مرکز مشرق کی جانب ہوگا۔
(صحیح مسلم، الإیمان، حدیث: 190(52)
یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےدور کی بات ہے۔
ہر زمانے میں ہر یمنی کے لیے یہ فضیلت نہیں ہے۔
حدیث کے الفاظ کا بھی یہ تقاضا نہیں ہے، اس کے باوجود یمن میں بڑے بڑے محدث پیدا ہوئے ہیں جنھوں نے کتاب وسنت کی اشاعت میں بڑی خدمات سرانجام دی ہیں۔

کعبے کا چہرہ مشرق کی جانب ہے کیونکہ اس طرف دروازہ ہے، لہذا یمن اس کے یمین میں اور شام اس کے شمال میں ہے۔

امام بخاری ؒ نے حدیث کے آخر میں یمن اور شام کی وجہ تسمیہ لکھی ہے۔
حافظ ابن حجر ؒنے اس کی وجہ تسمیہ کے دیگر اقوال بھی ذکر کیے ہیں۔
ان میں ایک قول یہ بھی ہے کہ یمن، یمن بن قحطان کی وجہ سے یمن اور شامل، سام بن نوح کی وجہ سے شام کہلایا۔
سام اصل میں شام تھا، جب اسے عربی میں منتقل کیا گیا تو شام بن گیا۔
(فتح الباري: 651/6)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3499   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4390  
4390. حضرت ابوہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: تمہارے ہاں اہل یمن آئے ہیں جو نرم دل اور رقیق القلب ہیں۔ دین کی سمجھ یمن والوں میں ہے اور حکمت بھی یمن کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4390]
حدیث حاشیہ:

فؤاد دل کے پردے کو کہتے ہیں، اگر پردہ باریک اور نرم ہوگا تو باہر کی نصیحت دل کے اندر جلدی اثر کرے گی۔
اور جب دل کی جھلی سخت ہو گی تو باہر کی نصیحت کا دل میں پہنچنا مشکل ہو گا۔
اس سے معلوم ہوا کہ امر حق اہل یمن کے دلوں میں جلدی اثر کرتا ہے اور وہ حق بات کو جلدی قبول کر لیتے ہیں۔

امام بخاری ؒ نے قطعی طور پر اہل یمن کے اشعری لوگوں کے متعلق مذکورہ احادیث بیان کی ہیں۔
حضرت ابن عباس ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مدینہ طیبہ میں تھے کہ آپ نے اللہ اکبر کہا اور ﴿إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ﴾ کی تلاوت کی، پھر فرمایا:
"تمھارے پاس یمن والے آئے ہیں جن کے دل شفاف اور صاف ستھرے ہیں اطاعت گزاری کا جذبہ ان میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔
ایمان تو اہل یمن کا ہے سمجھ داری بھی اہل یمن کی لاجواب ہے اور ان کی دانائی اور حکمت کے کیا کہنے۔
" ایک دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"عنقریب تمھارے پاس اہل یمن آنے والے ہیں گویا وہ فائدہ پہنچانے کے اعتبار سے ابر رحمت (رحمت کا بادل)
ہیں روئے زمین پر وہ سب سے بہتر ہیں۔
'' (مسند أحمد: 84/4 والسلسلة الصحیحة للألباني، حدیث: 3437)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4390