الادب المفرد
كِتَابُ
كتاب
288. بَابُ دَعَوَاتِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں کا بیان
حدیث نمبر: 672
حَدَّثَنَا الْمَكِّيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِنْدَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي عَمْرٍو، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: ”اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْهَمِّ وَالْحَزَنِ، وَالْعَجْزِ وَالْكَسَلِ، وَالْجُبْنِ وَالْبُخْلِ، وَضَلَعِ الدَّيْنِ، وَغَلَبَةِ الرِّجَالِ.“
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ دعا کرتے ہوئے سنا: ” «اللَّهُمَّ إِنِّي ......» اے اللہ! میں فکر مندی اور رنج سے، بے بسی اور کاہلی سے، بزدلی اور بخل سے پناہ چاہتا ہوں، نیز قرض کے چڑھ جانے اور لوگوں کے غالب ہونے سے تیری پناہ کا طالب ہوں۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب الدعوات: 6369 و أبوداؤد: 1541 و الترمذي: 3484 و النسائي: 5449»
قال الشيخ الألباني: صحيح
الادب المفرد کی حدیث نمبر 672 کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 672
فوائد ومسائل:
(۱)متوقع پریشانی کو ”ہم“ سے تعبیر کرتے ہیں اور کسی گزشتہ واقعہ یا نقصان پر پریشانی کو ”حزن“ کہتے ہیں۔ اکثر لوگوں کی پریشانیاں یا تو گزشتہ واقعات سے متعلق ہوتی ہیں جن پر پچھتانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا یا ممکنہ خطرات ان کی زندگی کا روگ ہوتے ہیں۔ اس لیے ان سے پناہ طلب کی گئی ہے۔
(۲) انسان جب قرض میں دب جاتا ہے تو پھر وعدہ کرتا ہے اور جھوٹ بولتا ہے اور اس پریشانی میں اس کا دین بھی متاثر ہوتا ہے۔
(۳) آدمیوں کے غالب آنے کا مطلب یہ ہے کہ ہر کس و ناکس انسان پر چڑھائی کرتا رہے یا یہ کہ انسان لوگوں کے ظلم کا شکار رہے۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 672