الادب المفرد
كِتَابُ
كتاب
277. بَابُ سَيِّدِ الْإِسْتِغْفَارِ
سید الاستغفار کا بیان
حدیث نمبر: 617
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُرَيْدَةَ، عَنْ بُشَيْرِ بْنِ كَعْبٍ، عَنْ شَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ”سَيِّدُ الاسْتِغْفَارِ: اللَّهُمَّ أَنْتَ رَبِّي لا إِلَهَ إِلا أَنْتَ، خَلَقْتَنِي وَأَنَا عَبْدُكَ، وَأَنَا عَلَى عَهْدِكَ وَوَعْدِكَ مَا اسْتَطَعْتُ، أَبُوءُ لَكَ بِنِعْمَتِكَ، وَأَبُوءُ لَكَ بِذَنْبِي، فَاغْفِرْ لِي، فَإِنَّهُ لا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلا أَنْتَ، أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعْتُ، إِذَا قَالَ حِينَ يُمْسِي فَمَاتَ دَخَلَ الْجَنَّةَ، أَوْ: كَانَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ، وَإِذَا قَالَ حِينَ يُصْبِحُ فَمَاتَ مِنْ يَوْمِهِ...“ مِثْلَهُ.
سیدنا شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سید الاستغفار یہ ہے: ” «اللَّهُمَّ أَنْتَ رَبِّي ......» اے اللہ تو ہی میرا رب ہے، تیرے سوا میرا کوئی معبود نہیں۔ تو نے مجھے پیدا کیا اور میں تیرا بندہ ہوں۔ اور تیرے عہد اور وعدے پر اپنی استطاعت کے مطابق قائم ہوں، تیری نعمتوں کا اقرار کرتا ہوں، اور اپنے گناہوں کا بھی معترف ہوں، لہٰذا مجھے بخش دے کیونکہ تیرے سوا کوئی گناہوں کو نہیں بخش سکتا۔ میں نے جو گناہ کیے ہیں ان کے شر سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔ جب شام کے وقت یہ کلمات صدق دل سے کہے اور فوت ہو جائے تو جنت میں داخل ہو گا۔“ یا فرمایا: ”وہ اہل جنت میں سے ہو گا۔ اور جب صبح کہے اور اسی دن فوت ہو جائے تو بھی یہی اجر ہے۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب الدعوات: 6323 و الترمذي: 3393 و النسائي: 5522 - انظر الصحيحة: 1747»
قال الشيخ الألباني: صحيح
الادب المفرد کی حدیث نمبر 617 کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 617
فوائد ومسائل:
(۱)اللہ تعالیٰ کی توحید اور احکام کا معترف شخص صدق دل سے جب ان کلمات کے ذریعے سے استغفار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس بندے کو معاف فرما دیتا ہے کیونکہ ان کلمات میں بندہ اپنی عبدیت، عاجزی اور خطا کار ہونے کا ذکر کرتا ہے اور اقرار بھی اور اللہ تعالیٰ کی عظمت و بڑائی کے ساتھ ساتھ اپنی التجاؤں کا محور اسی ایک ذات کو باور کراتا ہے اور یہی چیز اللہ تعالیٰ کو مطلوب ہے۔
(۲) اللہ تعالیٰ نے مغفرت کے لیے چار شرطیں رکھیں ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَاِنِّي لَغَفَّارٌ لِمَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اهْتَدَی﴾
”میں بہت زیادہ بخشنے والا ہوں اس شخص کو جس نے توبہ کی اور ایمان لایا اور عمل صالح کیا، پھر ہدایت والا راستہ اختیار کیا۔“
گویا ایمان، توبہ، مستقبل میں اچھے عمل اور پھر نیکی والی زندگی چار بنیادی شرطیں ہیں اور سید الاستغفار میں بندہ ان چاروں باتوں کا اقرار کرتا ہے۔
(۳) بعض علماء نے توبہ اور استغفار میں یہ فرق کیا ہے کہ توبہ پہلے کیے پر معافي طلب کرنا اور آئندہ نہ کرنے کا عزم کرنا ہے جبکہ استغفار میں سابقہ گناہ کی بخشش کا سوال ہوتا ہے مستقبل میں نہ کرنے کا عزم اس میں داخل نہیں۔ (فضل الله الصمد، حدیث مذکورہ)
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 617