الادب المفرد
كِتَابُ
كتاب
228. بَابُ يُكْتَبُ لِلْمَرِيضِ مَا كَانَ يَعْمَلُ وَهُوَ صَحِيحٌ
مریض کا ہر وہ اچھا عمل لکھا جاتا ہے جو وہ حالتِ صحت میں کرتا تھا
حدیث نمبر: 505
عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے مجھ سے فرمایا: کیا میں تمہیں ایک جنتی عورت دکھاؤں؟ میں نے عرض کیا: کیوں نہیں۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: یہ سیاہ فام عورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا: مجھے بے ہوشی کا دورہ پڑتا ہے اور میں بے لباس ہو جاتی ہوں، لہٰذا میرے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم چاہو تو صبر کرو، اس کے بدلے میں تیرے لیے جنت ہے، اور اگر چاہو تو الله تعالیٰ سے تمہارے لیے عافیت کی دعا کرتا ہوں۔“ اس نے عرض کیا: میں صبر کرتی ہوں، پھر کہا: میرے کپڑے اتر جاتے ہیں، لہٰذا اللہ سے دعا فرمائیں کہ کپڑے نہ اترا کریں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے یہ دعا فرمائی۔
عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے مجھ سے فرمایا: کیا میں تمہیں ایک جنتی عورت دکھاؤں؟ میں نے عرض کیا: کیوں نہیں۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: یہ سیاہ فام عورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا: مجھے بےہوشی کا دورہ پڑتا ہے اور میں بےلباس ہو جاتی ہوں، لہٰذا میرے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم چاہو تو صبر کرو، اس کے بدلے میں تیرے لیے جنت ہے، اور اگر چاہو تو اللہ تعالیٰ سے تمہارے لیے عافیت کی دعا کرتا ہوں۔“ اس نے عرض کیا: میں صبر کرتی ہوں، پھر کہا: میرے کپڑے اتر جاتے ہیں، لہٰذا اللہ سے دعا فرمائیں کہ کپڑے نہ اترا کریں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے یہ دعا فرمائی۔
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب المرضى، باب فضل من يصرع من الريح: 5652 و مسلم: 2576 - انظر الصحيحة: 2502»
قال الشيخ الألباني: صحيح
الادب المفرد کی حدیث نمبر 505 کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 505
فوائد ومسائل:
(۱)اس عورت کا نام سعیرۃ اسدیہ یا ام زفر تھا۔ یہ حبشیہ تھیں اور یہ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی کنگھی کرتی تھیں۔
(۲) اس سے معلوم ہوا کہ تقدیر پر راضی رہتے ہوئے صبر کرنا اور علاج معالجہ نہ کرنا جائز ہے، تاہم دوا لینا جائز ہے تو کل کے منافي نہیں ہے۔ اسباب کو اختیار کرکے اللہ تعالیٰ پر بھروسا کرنا ہی توکل ہے۔
(۳) بیماری کے علاج کے حوالے سے چار امور جائز ہیں۔
٭ بیمار آدمی کا از خود بیماری کے دور ہونے کی دعا کرنا، یہ شرعاً مشروع ہے۔
٭ مطالبے کے بغیر کسی دوسرے آدمی کا دعا کرنا، یہ بھی جائز ہے۔
٭ دنیا میں موجود کسی شخص سے دعا کی درخواست کرنا۔
٭ دوا استعمال کرنا۔
(۴) یہ سارے ذرائع استعمال کرنے کے بعد بھی بیماری ختم نہ ہو تو انسان کو صبر کرتے ہوئے ثواب کی امید رکھنی چاہیے اور یہ یقین رکھنا چاہیے کہ بیماری اس کے حق میں بہتر ہے۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 505