Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

الادب المفرد
كِتَابُ الرِّفْقِ
كتاب الرفق
217. بَابُ الرِّفْقِ
نرمی کرنے کا بیان
حدیث نمبر: 462
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللهِ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ‏:‏ دَخَلَ رَهْطٌ مِنَ الْيَهُودِ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالُوا‏:‏ السَّامُ عَلَيْكُمْ، قَالَتْ عَائِشَةُ فَفَهِمْتُهَا فَقُلْتُ‏:‏ عَلَيْكُمُ السَّامُ وَاللَّعْنَةُ، قَالَتْ‏:‏ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏ ”مَهْلاً يَا عَائِشَةُ، إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الرِّفْقَ فِي الأَمْرِ كُلِّهِ“، فَقُلْتُ‏:‏ يَا رَسُولَ اللهِ، أَوَ لَمْ تَسْمَعْ مَا قَالُوا‏؟‏ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏ ”قَدْ قُلْتُ‏:‏ وَعَلَيْكُمْ‏.‏“
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، انہوں نے کہا: یہود کا ایک گروہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو انہوں نے کہا: تم پر موت آئے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: میں ان کا سلام سمجھ گئی۔ میں نے کہا: تمہیں موت آئے اور تم پرلعنت ہو۔ وہ فرماتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عائشہ رک جاؤ! اللہ تعالیٰ ہر معاملے میں نرمی کو پسند کرتا ہے۔ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ نے سنا نہیں انہوں نے کیا کہا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے کہہ تو دیا ہے اور تم پر۔

تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب الأدب، باب الرفق فى الأمر كله: 6024 و مسلم: 2165 و الترمذي: 2701 و ابن ماجه: 3689 - انظر الصحيحة: 537»

قال الشيخ الألباني: صحيح

الادب المفرد کی حدیث نمبر 462 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 462  
فوائد ومسائل:
نرمی ہر چیز کا حسن ہے، اس لیے ہر معاملے میں نرمی اختیار کرنی چاہیے۔ خصوصاً اہل علم و فضل کو لوگوں کی طعن زنی سے صرف نظر کرنا چاہیے اس طرح کہ اسے علم ہی نہیں۔ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
دانا اور عقل مند وہ انسان ہے جو تجاہل عارفانہ کا مظاہرہ کرے، بات سمجھ لے اور یوں ظاہر کرے جیسے اس نے سمجھی ہی نہیں۔ ہر بات کا جواب دینا ضروری نہیں ہوتا۔ (مزید تفصیل کے لیے دیکھیے، حدیث:۳۱۱ کے فوائد)۔
   فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 462