الادب المفرد
كِتَابُ السَّرَفِ فِي الْبِنَاءِ
كتاب السرف فى البناء
207. بَابُ السَّرَفِ فِي الْمَالِ
مال میں اسراف (کرنے کی ممانعت)
حدیث نمبر: 442
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ”إِنَّ اللَّهَ يَرْضَى لَكُمْ ثَلاَثًا، وَيَسْخَطُ لَكُمْ ثَلاَثًا، يَرْضَى لَكُمْ: أَنْ تَعْبُدُوهُ وَلاَ تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا، وَأَنْ تَعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعًا، وَأَنْ تَنَاصَحُوا مَنْ وَلاَّهُ اللَّهُ أَمْرَكُمْ، وَيَكْرَهُ لَكُمْ: قِيلَ وَقَالَ، وَكَثْرَةَ السُّؤَالِ، وَإِضَاعَةَ الْمَالِ.“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ تمہاری تین باتوں سے راضی ہوتا ہے اور تین باتوں سے ناراض ہوتا ہے۔ تمہاری جن تین باتوں سے راضی ہوتا ہے وہ یہ ہیں کہ تم اسی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہراؤ، اور اللہ کی رسی کو مل کر مضبوطی سے تھام لو، اور جسے اللہ تعالیٰ نے تمہارے معاملے کا حاکم بنایا ہے اس کی خیر خواہی کرو۔ اور تمہارے لیے «قيل و قال» (یہ سنا، وہ کہا گیا، کسی نے کہا وغیرہ)، کثرت سے سوال کرنا اور مال ضائع کرنا ناپسند کیا ہے۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه مسلم، الاقضية، باب النهي عن كثرة المسائل من غير حاجة...........: 1715 - انظر الصحيحة: 685»
قال الشيخ الألباني: صحيح
الادب المفرد کی حدیث نمبر 442 کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 442
فوائد ومسائل:
(۱)اللہ تعالیٰ کو شرک کسی صورت بھی گوارا نہیں ہے۔ اس لیے اس کے لیے خالص ہوکر صرف اسی کی بندگی کرنی چاہیے۔ اس طرح کہ جس کام کے کرنے کا اس نے حکم دیا ہے اور مشروع ٹھہرایا اور جو اسے پسند ہے اسے بجا لایا جائے اور جسے اس نے ناپسند کیا ہے یا اس سے منع کیا ہے اس سے باز رہا جائے۔ پھر ان امور میں کسی اور کو شریک نہ ٹھہرایا جائے کہ کسی اور کے حکم کو وہی مقام دیا جائے اور اس کے سوا کسی سے استعانت اور مدد طلب نہ کی جائے۔
(۴۴۲)
(۲) اللہ کی رسی دین اسلام ہے اور دین اسلام کی اصل قرآن ہے اس لیے اس کو اللہ کی مضبوط رسی کہا گیا ہے جس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کا ایک سرا تمہارے پاس ہے اور دوسرا اللہ کے پاس۔ اس کو مضبوطی سے تھامنے کی ضرورت ہے۔ اتفاق و اتحاد کا یہی مرکزی نقطہ ہے۔ امت اسی پر اکٹھی ہوسکتی ہے۔ اس کے علاوہ کسی چیز پر اتحاد ممکن نہیں۔ پھر اس کا اظہار اجتماعی زندگی میں ہونا مطلوب ہے۔ یہ نہیں کہ ہر فرد اپنے طور پر تو عمل کرے لیکن اجتماعی زندگی اس کے اثرات سے خالی ہو۔
(۳) حکمران جب تک واضح کفر کا ارتکاب نہ کریں ان کے خلاف بغاوت ناجائز ہے۔ ان کی زیادتیوں کو برداشت کرنا اور ان کی خیر خواہی کرنا فرض ہے۔ جمہوری دور میں اپوزیشن کا تنقید برائے تنقید کا تصور اسلام میں نہیں ملتا۔ آج اگر حکمران عوام کے خیر خواہ نہیں ہیں تو عوام بھی اطاعت اور خیر خواہی کے جذبے سے عاری ہیں۔ وہ حکومتی اداروں سے تنخواہیں لیتے ہیں لیکن کام نہیں کرتے۔
(۴) ہر سنی سنائی بات کو ہوا دینا اور بغیر تحقیق کے بات آگے نقل کیے جانا نہایت ناپسندیدہ عمل ہے۔ اسی طرح کثرت سوال جبکہ عمل نہ ہو اور مال ضائع کرنا بھی اللہ تعالیٰ کو سخت ناپسند ہے۔ مزید تفصیل گزشتہ اوراق میں گزر چکی ہے۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 442