صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي
کتاب: غزوات کے بیان میں
66. بَابُ غَزْوَةُ سِيفِ الْبَحْرِ:
باب: غزوہ سیف البحر کا بیان۔
حدیث نمبر: 4362
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَمْرٌو، أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرًا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: غَزَوْنَا جَيْشَ الْخَبَطِ وَأُمِّرَ أَبُو عُبَيْدَةَ فَجُعْنَا جُوعًا شَدِيدًا، فَأَلْقَى الْبَحْرُ حُوتًا مَيِّتًا لَمْ نَرَ مِثْلَهُ، يُقَالُ لَهُ: الْعَنْبَرُ، فَأَكَلْنَا مِنْهُ نِصْفَ شَهْرٍ، فَأَخَذَ أَبُو عُبَيْدَةَ عَظْمًا مِنْ عِظَامِهِ فَمَرَّ الرَّاكِبُ تَحْتَهُ، فَأَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ، أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرًا، يَقُولُ: قَالَ أَبُو عُبَيْدَةَ: كُلُوا، فَلَمَّا قَدِمْنَا الْمَدِينَةَ ذَكَرْنَا ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:" كُلُوا رِزْقًا أَخْرَجَهُ اللَّهُ أَطْعِمُونَا إِنْ كَانَ مَعَكُمْ، فَأَتَاهُ بَعْضُهُمْ، فَأَكَلَهُ".
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، ان سے ابن جریر نے بیان کیا، انہیں عمرو بن دینار نے خبر دی اور انہوں نے جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہما سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ ہم پتوں کی فوج میں شریک تھے۔ ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ ہمارے امیر تھے۔ پھر ہمیں شدت سے بھوک لگی، آخر سمندر نے ایک ایسی مردہ مچھلی باہر پھینکی کہ ہم نے ویسی مچھلی پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ اسے عنبر کہتے تھے۔ وہ مچھلی ہم نے پندرہ دن تک کھائی۔ پھر ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے اس کی ہڈی کھڑی کروا دی تو اونٹ کا سوار اس کے نیچے سے گزر گیا۔ (ابن جریر نے بیان کیا کہ) پھر مجھے ابو الزبیر نے خبر دی اور انہوں نے جابر رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے کہا اس مچھلی کو کھاؤ پھر جب ہم مدینہ لوٹ کر آئے تو ہم نے اس کا ذکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ روزی کھاؤ جو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے بھیجی ہے۔ اگر تمہارے پاس اس میں سے کچھ بچی ہو تو مجھے بھی کھلاؤ۔ چنانچہ ایک آدمی نے اس کا گوشت لا کر آپ کی خدمت میں پیش کیا اور آپ نے بھی اسے تناول فرمایا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4362 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4362
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے یہ نکلا کہ سمندر کی مردہ مچھلی کا کھا نا درست ہے اور حنفیہ نے جو تاویل کی ہے کہ لشکر والے مضطر تھے ان کے لیے درست تھی وہ تاویل اس روایت سے غلط ٹھہرتی ہے کیونکہ یہاں اس مچھلی کا گوشت آنحضرت ﷺ کا بھی کھانا مذکور ہے جو یقینا مضطر نہیں تھے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4362
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4362
حدیث حاشیہ:
1۔
اس عنبر نامی مچھلی کی جسامت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک موٹے اونٹ پر ایک لمبے قد والا آدمی بٹھا دیا گیا، پھر اسے مچھلی کی دوپسلیوں کے درمیان سے گزارا گیا تو وہ آسانی سے گزرگیا۔
گمان غالب ہے کہ جس اونٹ سوار کو نیچے سے گزاراگیا تھا وہ حضرت قیس بن سعد بن عبادہ ؓ تھے کیونکہ وہ بہت لمبے قد والے تھے۔
صحیح مسلم میں ہے کہ حضرت ابوعبیدہ ؓ نےتیرہ آدمیوں کو اس کی آنکھ کے خول میں بٹھایا تو آسانی سے بیٹھ گئے اور وہ کسی کو نظر نہ آتے تھے۔
(صحیح مسلم، الصید والذبائح، حدیث: 4998(1935)
وفتح الباري: 101/8)
2۔
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سمندر کی مردہ مچھلی کھانا درست ہے اگرچہ بعض علماء نے حرام کہاہے۔
ان کے نزدیک اس واقعے میں مردہ مچھلی کا کھانا مجبوری کی حالت میں تھا لیکن یہ محض عذرلنگ ہے کیونکہ خود رسول اللہ ﷺ نے بھی سے تناول فرمایا تھا، حالانکہ آپ مجبور نہیں تھے۔
واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4362
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4357
´مردہ سمندری جانوروں کی حلت کا بیان۔`
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین سو سواروں کے ساتھ بھیجا۔ ہمارے امیر ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ تھے، ہم قریش کی گھات میں تھے، چنانچہ ہم سمندر کے کنارے ٹھہرے، ہمیں سخت بھوک لگی یہاں تک کہ ہم نے درخت کے پتے کھائے، اتنے میں سمندر نے ایک جانور نکال پھینکا جسے عنبر کہا جاتا ہے، ہم نے اسے آدھے مہینہ تک کھایا اور اس کی چربی کو تیل کے طور پر استعمال کیا، تو ہمارے بدن صحیح ثابت ہو گئے، ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے اس کی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الصيد والذبائح/حدیث: 4357]
اردو حاشہ:
(1) ”ميتةُ البحرِ“ (دریائی اور سمندری مردار) کے متعلق شریعت کا حکم یہ ہے کہ وہ حلال ہے۔ سابقہ اور اس حدیث میں اس بات کی تصریح موجود ہے کہ وہ مچھلی سمندری لہروں نے باہر پھینکی تھی، یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی نے اسے شکار نہیں کیا تھا۔ مزید برآں یہ بھی کہ اسے ذبح بھی نہیں کیا گیا تھا بلکہ ویسے ہی استعمال کیا تھا۔ تین سو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اٹھارہ دن تک مسلسل اسے کھاتے رہے، بعد ازاں رسول اللہ ﷺ نے بھی اس میں سے کھایا۔
(2) حدیث مبارکہ اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ ہر چھوٹے بڑے لشکر پر امیر مقرر کرنا چاہیے جو اس لشکر کے لیے درست انتظام کرے، ان کی ضروریات وغیرہ کا خیال رکھے اور انھیں پورا کرنے کی بھر پور کوشش کرے۔ امیر کے لیے یہ بھی مستحب ہے کہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ نرمی برتے۔
(3) امیر لشکر، ان میں سے افضل اور بہتر شخص کو بنانا چاہیے۔ اگر ایسا کرنا ممکن نہ ہو تو پھر ان کے بہترین اور اچھے لوگوں میں سے کسی کو امیر بنایا جائے۔ لوگوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے امیر کے احکام کی تعمیل کریں۔ ہاں، اگر وہ انھیں غیر شرعی حکم دے تو پھر اس کی اطاعت قطعاً جائز نہیں جیسا کہ معروف حدیث ہے: [لا طاعةَ لأحدٍ في مَعصيةِ اللهِ تباركَ وتعالى ] ”اللہ تبارک و تعالیٰ کی نافرمانی کر کے کسی کی اطاعت جائز نہیں۔“ (سلسلة الأحادیث الصحیحة، حدیث: 179۔ 181)
(4) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے نزدیک دنیاوی مال و متاع اور اس کی آسائشوں کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔ انھوں نے یہ اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی اور حصول جنت کے لیے ہر قسم کے مصائب کو برداشت کیا… رضي اللہ عنهم …
(5) بھوک، غربت، افلاس اور تنگ دستی کے وقت ہمدردی اور ایثار سے بہت سی مشکلات آسان ہو جاتی ہیں۔ اس حدیث سے اس کی مشروعیت معلوم ہوتی ہے۔
(6) انسان اپنے قریبی احباب اور دوستوں سے ان کا مال ومتاع مانگ سکتا ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا تھا: ”اگر تمھارے پاس عنبر مچھلی میں سے کچھ باقی ہو تو مجھے بھی دو۔“
(7) یہ حدیث مبارکہ دلیل ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاکیزہ دور میں بھی اجتہاد جائز تھا جیسا کہ آج کے دور میں جائز ہے۔ اگلی حدیث: 4359 میں حضرت ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کے یہ الفاظ: [لا تأكلوهُ ! ثم قال: جيشُ رسولِ اللهِ صلّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ، وفي سبيلِ اللهِ عز وجل، ونحن مضطرونَ، كُلوا باسمِ اللهِ ] احکام میں اجتہاد کی بہت واضح اور کھلی دلیل ہیں۔
(8) ”اپنی گردنوں پر اٹھایا ہوا تھا“ اس میں اشارہ ہے کہ ہمارے پاس زاد راہ بہت کم مقدار میں تھا۔ اسے اٹھانے کے لیے جانور کی ضرورت نہیں تھی۔
(9) اس روایت میں واقعات کی ترتیب آگے پیچھے ہے، مثلاً: لشکر کے ساحل پر پہنچنے سے پہلے وہ آبی جانور موجود تھا۔ اس طرح اونٹوں کو نحر کرنے کا واقعہ آبی جانور کے ملنے سے پہلے کا ہے۔ کھجوریں بانٹنے کا واقعہ بھی آبی جانور ملنے سے پہلے کا ہے اگرچہ ذکر آخر میں ہے۔ آبی جانور سے چربی وغیرہ نکالنے کے واقعات بھی ساحل سمندر سے تعلق رکھتے ہیں نہ کہ مدینہ منورہ سے جیسا کہ ظاہراً معلوم ہوتا ہے۔
(10) اونٹ نحر کرنے والے شخص بنو خزرج کے سردار حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے بیٹے حضرت قیس بن سعد رضی اللہ عنہ تھے۔ جو بہت سخی تھے اور سخی باپ کے بیٹے تھے۔ مذکور ہے جب حضرت سعد رضی اللہ عنہ کو اس واقعہ کا پتا چلا تو بیٹے سے کہا: تم نے اور جانور کیوں نہ ذبح کیے؟ انھوں نے بتایا کہ امیر صاحب نے روک دیا تھا، مبادا تیرے والد محترم ناراض ہوں۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ یہ سن کر غصے میں آگئے اور فوراً ایک بہت بڑا باغ بیٹے کے نام منتقل کر دیا تاکہ کل کو کوئی شخص سخاوت سے نہ روک سکے۔ رضي اللہ عنھما و أرضاھم۔
(11) ”نحر کیے“ نحر کرنا اس طرح ہوتا ہے کہ اونٹ کا بایاں گھٹنا رسی وغیرہ کے ساتھ باندھ دیا جاتا ہے اور پھر چھری کی نوک اس کے لیے (گردن کی نچلی طرف انتہائی نرم گڑھے) میں چبھو دی جاتی ہے۔ اونٹ کو، دوسرے جانوروں کی طرح ذبح نہیں کیا جاتا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4357
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4359
´مردہ سمندری جانوروں کی حلت کا بیان۔`
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ (ایک فوجی مہم میں) بھیجا، ہم تقریباً تین سو دس لوگ تھے، ہمیں توشہ کے بطور کھجور کا ایک تھیلا دیا گیا، وہ ہمیں ایک ایک مٹھی دیتے، پھر جب ہم اکثر کھجوریں کھا چکے تو ہمیں ایک ایک کھجور دینے لگے، یہاں تک کہ ہم اسے اس طرح چوستے جیسے بچہ چوستا ہے اور اس پر پانی پی لیتے، جب وہ بھی ختم ہو گئی تو ہمیں ختم ہونے پر اس کی قدر معلوم ہوئی، نوبت یہاں تک پہنچی کہ ہم۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الصيد والذبائح/حدیث: 4359]
اردو حاشہ:
(1) تین سو دس سے زائد یعنی تین سو بیس سے کم۔ معلوم ہوا سابقہ روایات میں کسر گرا کر تین سو کہا گیا ہے۔
(2) ”تیرہ آدمی“ پچھلی روایت میں ”چار“ کا ذکر ہے لیکن چار میں تیرہ کی نفی نہیں۔ چار چلتے پھرتے ہوں گے اور تیرہ جڑ کر بیٹھے ہوں گے۔ واللہ أعلم۔
(3) ”عنبر“ یہ عظیم الشان مچھلی ہوتی ہے جو جہاز کو ٹکر مار دے تو اسے بھی توڑ دیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے کہ سمندر میں کیسی کیسی عظیم الشان مخلوقات پوشیدہ ہیں۔ سبحان الله
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4359
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3840
´سمندری جانوروں کے کھانے کا بیان۔`
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کو ہم پر امیر بنا کر قریش کا ایک قافلہ پکڑنے کے لیے روانہ کیا اور زاد سفر کے لیے ہمارے ساتھ کھجور کا ایک تھیلہ تھا، اس کے علاوہ ہمارے پاس کچھ نہیں تھا، ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ ہمیں ہر روز ایک ایک کھجور دیا کرتے تھے، ہم لوگ اسے اس طرح چوستے تھے جیسے بچہ چوستا ہے، پھر پانی پی لیتے، اس طرح وہ کھجور ہمارے لیے ایک دن اور ایک رات کے لیے کافی ہو جاتی، نیز ہم اپنی لاٹھیوں سے درخت کے پتے جھاڑتے پھر اسے پانی میں تر کر کے کھاتے، پھر ہم ساحل سمندر پر چلے توریت کے ٹیلہ جیسی ای۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الأطعمة /حدیث: 3840]
فوائد ومسائل:
1۔
عنبر بہت بری وہیل مچھلیوں کی ایک قسم ہے۔
اس کے ابھرے ہوئے سرسے تیل نکلتا ہے۔
جو مشینری کو چکناتا ہے۔
اور اس کی انتڑیوں سے معروف خوشبو عنبرحاصل ہوتی ہے۔
بہت بڑی مچھلی جب پانی کی شہ زور موجوں کے ذریعے سے ساحل کے کم گہرے حصوں پر آکر پھنس جاتی ہے۔
اور موجوں کی واپسی کے وقت واپس نہیں جا سکتی۔
تو کنارے پر ہی اس کی موت واقع ہوجاتی ہے۔
مرنے والے جانداروں کے جسم سے گلنے سڑنے کا عمل انتڑیوں وغیرہ سے شروع ہوتا ہے۔
کہ اس میں فضلات ہوتے ہیں۔
اس بڑی وہیل کی انتڑیوں میں انتہائی خوشبو دار چکنا مادہ عنبر موجود ہوتا ہے۔
جو انتڑیوں سے گلنے سڑنے کے عمل کو شروع نہیں ہونے دیتا۔
اس لئے اس کا گوشت نسبتا زیادہ عرصے کےلئے محفوظ رہتا ہے۔
بحیرہ قلزم کے دونوں طرف عرب اور افریقہ میں گوشت کی دوسری اقسام کے علاوہ مچھلی کو دھوپ میں خشک کرنے کا طریقہ قدیم سے موجود تھا۔
اوراب تک موجود ہے۔
ان علاقوں کی منڈیوں میں آج بھی بڑی مقدار میں خشک مچھلی بکتی ہے۔
جو بالکل خشک لکڑی کی طرح محسوس ہوتی ہے۔
اب آسٹریلیا وغیرہ میں جدید طریقوں کے مطابق بڑی مقدار میں مچھلی کو خشک کرکے ان علاقوں سمیت دنیا بھر میں فروخت کیا جاتا ہے۔
2۔
تین سو صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین نے ایک مہینے تک اس محفوظ شدہ مقوی غذا کو استعمال کیا۔
اور ساتھ لے آئے جو بارگاہ رسالت مآب ﷺ میں پیش کی گئی۔
رسول اللہ ﷺنے فرمایا تنگ دستی کے عالم میں جہاد کے اس موقع پر ایسی غذا کی فراہمی اللہ کی طرف سے خصوصی انعام ہے۔
صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین نے اشاعت اسلام میں جس عزیمت کی مثالیں قائم کی ہیں۔
دنیا کی کوئی تحریک اس کی نظیر پیش کرنے سے قاصرہے۔
اللہ اور اس کے رسولﷺکی محبت ااطاعت امیر اور صبر جانفشانی کے بغیر دین ودنیا کا کوئی کام کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکتا۔
3۔
اس واقعہ سے ثابت ہوا کہ سمندری جانور مچھلی کے حکم میں ہیں۔
یعنی وہ از خود مرجایئں تب بھی حلال ہیں۔
جیسا کہ گزشتہ حدیث 3815 میں گزرا ہے۔
4۔
نیز مبارک چیز سے حصہ لینے کی خواہش کرنا معیوب نہیں ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3840
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4159
´نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی معیشت کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم تین سو آدمیوں کو روانہ کیا، ہم نے اپنے توشے اپنی گردنوں پر لاد رکھے تھے، ہمارا توشہ ختم ہو گیا، یہاں تک کہ ہم میں سے ہر شخص کو ایک کھجور ملتی، کسی نے پوچھا: ابوعبداللہ! ایک کھجور سے آدمی کا کیا ہوتا ہو گا؟ جواب دیا: جب وہ بھی ختم ہو گئی تو ہمیں اس کی قدر معلوم ہوئی، ہم سمندر تک آئے، آخر ہمیں ایک مچھلی ملی جسے سمندر نے باہر پھینک دیا تھا، ہم اس میں سے اٹھارہ دن تک کھاتے رہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4159]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے ہر قسم کے حالات سے جہاد کیا خواہ ان کے پاس سواریاں اور راشن وغیرہ بھی نہ ہوتا۔
(2)
مچھلی مری ہوئی بھی حلال ہے۔
(3)
جہاد میں اللہ کی طرف سے غیر متوقع طور پر مدد حاصل ہوتی ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4159
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2475
´باب:۔۔۔`
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں تین سو کی تعداد میں بھیجا، ہم اپنا اپنا زاد سفر اٹھائے ہوئے تھے، ہمارا زاد سفر ختم ہو گیا نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ ہر آدمی کے حصہ میں صرف ایک ایک کھجور آتی تھی، ان سے کہا گیا: ابوعبداللہ! ایک کھجور سے آدمی کا کیا ہوتا ہو گا؟ جب وہ بھی ختم ہو گئی تو ہمیں اس کی قدر معلوم ہوئی، انہوں نے فرمایا: ہم سمندر کے کنارے پہنچے آخر ہمیں ایک مچھلی ملی، جسے سمندر نے باہر پھینک دیا تھا، چنانچہ ہم اس میں سے اٹھارہ دن تک جس طرح چاہا سیر ہو کر کھاتے رہے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب صفة القيامة والرقائق والورع/حدیث: 2475]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
معلوم ہواکہ صحابہ کرام دنیا سے کس قدر بے رغبت تھے،
فقر وتنگدستی کی وجہ سے ان کی زندگی کس طرح پریشانی کے عالم میں گزرتی تھی،
اس کے باوجود بھوک کی حالت میں بھی ان کا جذبہ جہاد بلند ہوتا تھا،
کیوں کہ وہ صبر وضبط سے کام لیتے تھے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2475
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1278
1278- سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم تین سو سواروں کو ایک مہم پر بھیجا، ہمارے امیر سیدنا ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ تھے، ہم قریش کے ایک قافلے کی گھات میں تھے، ہمیں شدید بھوک لاحق ہو گئی، یہاں تک کہ ہم پتے کھانے پر مجبور ہو گئے ا س لیے اس لشکر کا نام ”پتوں والا لشکر“ رکھا گیا۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: سمندر سے ہمارے سامنے ایک سمندری مخلوق آئی ہم اس وقت ساحل پر موجود تھے اسے ”عنبر“ کہا جاتا تھا ہم پندرہ دن تک اس کا گوشت کھاتے رہے، ہم نے اس کے تیل کے ساتھ روٹی کھائی اس کی چربی کو جسم پر ملا یہاں تک کہ ہم موٹے تازے ہو گئے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1278]
فائدہ:
اس حدیث سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی فضیلت ثابت ہوتی ہے، اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے لیے مچھلیوں کو بھی مسخر کر دیتے ہیں، اللہ تعالیٰ کی عجیب وغریب تخلیقات ہیں، اور وہ ان کو روزی دیتا ہے، سمندر کے کنارے پر پڑی مچھلی حلال ہے، نیز یہ ایک بہت بڑا معجزہ ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1276
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1279
1279-یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ بھی منقول ہے، تاہم اس میں یہ الفاظ زائد ہیں۔ ”ہمارے درمیان ایک شخص تھا جس کے پاس بوری تھی جس میں کھجوریں موجود تھیں وہ اس میں سے ایک، ایک مٹھی کھجوریں ہمیں دیا کرتا تھا، پھر نو بت ایک کھجور تک آگئی، جب وہ بھی ختم ہوگئی، تو ہمیں اس کی غیر موجود گی کا شدت سے احساس ہوا۔“ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1279]
فائدہ:
اس حدیث میں کھجور کی اہمیت بیان کی گئی ہے، یعنی یہ زاد راہ کے طور پر اکثر استعمال ہوتی تھی، جیہا کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اپنی بیوی اور بیٹے کو دی تھیں، اور مد بیند کھجوروں کا شہر ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1278
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4998
0 [صحيح مسلم، حديث نمبر:4998]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
عير:
اونٹوں کاغلہ لانےوالا قافلہ۔
(2)
جراب:
چمڑے کا تھیلا۔
(3)
نمصها:
ہم اسےچوستےتھے۔
(4)
الخبط:
لنگ،
کیکرکے پتے۔
(5)
كثيب:
ریت کا تودہ یا پہاڑی،
عنبر مچھلی جس کو آج کل وھیل(whale)
یا یال کہتے ہیں،
چونکہ اس کی انتڑیوں سے عنبر خوشبو نکلتی ہے،
اس کو عنبر کا نام دے دیا جاتا ہے اور یہ بڑی مچھلیوں میں سے ہے اور اس کا وزن 54 کلو گرام سے لےکر136000 کلو گرام تک ہوتا ہے۔
(6)
وقب:
آنکھ کا گڑھا،
جہاں اس کی آنکھ کا ڈھیلا ہوتا ہے۔
(7)
قلال:
قلة کی جمع ہے،
بڑامٹکا۔
(8)
فدر:
فدرة کی جمع ہے،
قطعہ،
ٹکڑا۔
(9)
قدر:
مقدار،
برابر۔
(10)
شائق،
وشيقة کی جمع ہے،
ا بلا ہوا گوشت۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4998
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4999
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں، ہم تین سواروں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کے ایک قافلہ کی گھات لگانے کے لیے بھیجا اور ہمارے امیر ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ تعالی عنہ تھے، ہم ساحل سمندر پر پندرہ دن ٹھہرے، ہمیں شدید بھوک سے واسطہ پڑا حتیٰ کہ ہم نے پتے جھاڑ کر کھائے، اس لیے اس کو جیش الخبط کا نام دیا گیا، ہمارے لیے ایک جانور پھینکا گیا، جس کو عنبر کہا جاتا تھا، ہم نے اس سے پندرہ دن (آدھا ماہ) کھایا اور بدن پر اس... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:4999]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
ثابت اجسامنا:
ہمارے جسم پہلی حالت پر لوٹ آئے،
ہماری قوت بحال ہوگئی۔
(2)
حجاج:
آنکھ کا خول،
آنکھ کے اردگرد کی ہڈی۔
(3)
وجدنا فقده:
نہ ملنے پر اس کا فائدہ محسوس ہوا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4999
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4360
4360. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک لشکر ساحلِ سمندر کی طرف بھیجا اور ان کا امیر حضرت ابو عبیدہ بن جراح ؓ کو بنایا۔ اس میں تین سو آدمی شریک تھے۔ بہرحال ہم (مدینہ طیبہ سے) نکلے، ابھی راستے ہی میں تھے کہ زادِ راہ ختم ہو گیا۔ حضرت ابو عبیدہ ؓ نے حکم دیا کہ سب لوگ اپنا اپنا زاد سفر ایک جگہ جمع کر دیں۔ زاد سفر کھجور کے دو تھیلوں کے برابر جمع ہوا۔ اس میں سے وہ ہمیں ہر روز تھوڑا تھوڑا دیتے رہے حتی کہ وہ بھی ختم ہو گیا۔ پھر تو ہمیں ہر روز ایک ایک کھجور ملتی تھی۔ راوی حدیث نے کہا: بھلا تمہارا ایک کھجور سے کیا کام چلتا ہو گا؟انہوں نے کہا کہ (ایک کھجور بھی غنیمت تھی) جب وہ بھی نہ رہی تو ہمیں اس کی قدروقیمت معلوم ہوئی۔ پھر ہم سمندر کی طرف گئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ بڑے ٹیلے کی طرح ایک مچھلی موجود ہے۔ ہمارا لشکر اس میں سے اٹھارہ (19) دن تک کھاتا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4360]
حدیث حاشیہ:
اللہ نے اس طرح اپنے پیارے مجاہدین بندوں کے رزق کا سامان مہیا فرمایا۔
سچ ہے ویرزقه من حیث لایحتسب
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4360
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2483
2483. حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک دستہ ساحل کی طرف روانہ فرمایا: جس پر حضرت ابو عبیدہ بن جراح ؓ کو امیر بنایا۔ وہ دستہ تین سو افراد پر مشتمل تھا۔ اور میں بھی ان میں شامل تھا، چنانچہ ہم روانہ ہوئے، ابھی راستے ہی میں تھے کہ ہماری خوراک ختم ہوگئی۔ حضرت ابو عبیدہ نے حکم دیا کہ جوزادراہ بچا ہے اسے جمع کیا جائے۔ جب اسے جمع کیا گیا تو کھجوروں کے دو تھیلے بن گئے۔ وہ ہمیں اس میں سے روزانہ تھوڑی تھوڑی خوراک دینے لگے۔ جب وہ بھی ختم ہونے لگا تو ہمیں ہر روز ایک ایک کھجور ملنا شروع ہوگئی۔ میں (وہب بن کیسان)نے(حضرت جابر ؓ سے)دریافت کیا: ایک کھجور سے کیا بنتا ہوگا؟ انھوں نے کہا: جب وہ (ایک کھجور)بھی نہ رہی تو ہمیں احساس ہوا کہ یہ بھی غنیمت تھی۔ پھر ایسا ہوا کہ ہم ساحل سمندر پرپہنچے تو ایک بہت بڑی، پہاڑ جیسی مچھلی ملی جسے لشکر اٹھارہ دن تک کھاتا رہا۔ پھر حضرت عبیدہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2483]
حدیث حاشیہ:
ترجمہ باب اس سے نکلا کہ حضرت ابوعبیدہ ؓ نے ساری فوج کا توشہ ایک جگہ جمع کرا لیا۔
پھر اندازے سے تھوڑا تھوڑا سب کو دیا جانے لگا۔
سو سفر خرچ کی شرکت اور اندازے سے اسی کی تقسیم ثابت ہوئی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2483
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5494
5494. سیدنا جابر ؓ ہی سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے ہمیں روانہ کیا اس لشکر میں تین سو سوار تھے۔ ہمارے امیر ابو عبیدہ بن جراح تھے ہمارا کام قریش کے تجارتی قافلے کی نقل و حرکت پر نظر رکھنا تھا اس دوران میں ہمیں سخت بھوک لگی نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ ہم نے درختوں کے پتے کھائے۔ اس بنا پر اس مہم کا نام ''جیش الخبط'' پڑ گیا تاہم سمندر نے ایک مچھلی باہر پھینکی جس کا نام عنبر تھا۔ ہم نے وہ مچھلی نصف ماہ تک کھائی اور اس کی چربی بطور مالش استعمال کرتے رہے جس سے ہمارے جسم طاقتور ہو گئے۔ پھر یمارے امیر ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے اس کی پسلی کی ہڈی لی، اسے کھڑا کیا اور ایک سوار اس کے نیچے سے گزرا۔ ہمارے ساتھ ایک صاحب تھے جب ہمیں بھوک نے زیادہ تنگ کيا تو انہوں نے تین اونٹ ذبح کر دیے پھر (بھوک نے تنگ کیا تو اور) تین اونٹ (ذبح کر دیے) اس كے بعد ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے انہیں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5494]
حدیث حاشیہ:
کیونکہ سواریوں کے کم ہونے کا خطرہ تھا اور سفر میں سواریوں کا ہونا بھی ضروری ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5494
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2483
2483. حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک دستہ ساحل کی طرف روانہ فرمایا: جس پر حضرت ابو عبیدہ بن جراح ؓ کو امیر بنایا۔ وہ دستہ تین سو افراد پر مشتمل تھا۔ اور میں بھی ان میں شامل تھا، چنانچہ ہم روانہ ہوئے، ابھی راستے ہی میں تھے کہ ہماری خوراک ختم ہوگئی۔ حضرت ابو عبیدہ نے حکم دیا کہ جوزادراہ بچا ہے اسے جمع کیا جائے۔ جب اسے جمع کیا گیا تو کھجوروں کے دو تھیلے بن گئے۔ وہ ہمیں اس میں سے روزانہ تھوڑی تھوڑی خوراک دینے لگے۔ جب وہ بھی ختم ہونے لگا تو ہمیں ہر روز ایک ایک کھجور ملنا شروع ہوگئی۔ میں (وہب بن کیسان)نے(حضرت جابر ؓ سے)دریافت کیا: ایک کھجور سے کیا بنتا ہوگا؟ انھوں نے کہا: جب وہ (ایک کھجور)بھی نہ رہی تو ہمیں احساس ہوا کہ یہ بھی غنیمت تھی۔ پھر ایسا ہوا کہ ہم ساحل سمندر پرپہنچے تو ایک بہت بڑی، پہاڑ جیسی مچھلی ملی جسے لشکر اٹھارہ دن تک کھاتا رہا۔ پھر حضرت عبیدہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2483]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث میں ہے کہ حضرت ابو عبیدہ ؓ نے فوجی دستے کا سفر خرچ ایک جگہ جمع کر لیا پھر اندازے سے تھوڑا تھوڑا تمام فوجیوں کو تقسیم کرتے رہے، اس طرح زاد سفر کی شراکت اور اس کی اندازے سے تقسیم ثابت ہوئی۔
اس میں تھوڑے بہت، یعنی معمولی فرق کا اعتبار نہیں کیا گیا جو اذن عرفی (جس کی عرف عام میں اجازت سمجھی جاتی ہو)
کی وجہ سے جائز ہے۔
(2)
امام بخاری ؒ کے استدلال کی بنیاد یہ ہے کہ جب تمام فوجیوں کا راشن جمع کر دیا گیا تو کوئی اپنے حصے سے کم کھائے گا اور کوئی زیادہ استعمال کرے گا۔
یہ کمی بیشی ممنوع نہیں بلکہ ایک دوسرے کی مدد کرنے کی ایک عمدہ شکل ہے اور ایسے مواقع پر اسلامی طریقے کے مطابق ایسا کرنا ایک پسندیدہ عمل ہے۔
اس جذبۂ ایثار کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے ایک پہاڑ جیسی مچھلی سمندر کے کنارے پھینک دی جسے تین سو افراد کئی دنوں تک کھاتے رہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2483
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4360
4360. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک لشکر ساحلِ سمندر کی طرف بھیجا اور ان کا امیر حضرت ابو عبیدہ بن جراح ؓ کو بنایا۔ اس میں تین سو آدمی شریک تھے۔ بہرحال ہم (مدینہ طیبہ سے) نکلے، ابھی راستے ہی میں تھے کہ زادِ راہ ختم ہو گیا۔ حضرت ابو عبیدہ ؓ نے حکم دیا کہ سب لوگ اپنا اپنا زاد سفر ایک جگہ جمع کر دیں۔ زاد سفر کھجور کے دو تھیلوں کے برابر جمع ہوا۔ اس میں سے وہ ہمیں ہر روز تھوڑا تھوڑا دیتے رہے حتی کہ وہ بھی ختم ہو گیا۔ پھر تو ہمیں ہر روز ایک ایک کھجور ملتی تھی۔ راوی حدیث نے کہا: بھلا تمہارا ایک کھجور سے کیا کام چلتا ہو گا؟انہوں نے کہا کہ (ایک کھجور بھی غنیمت تھی) جب وہ بھی نہ رہی تو ہمیں اس کی قدروقیمت معلوم ہوئی۔ پھر ہم سمندر کی طرف گئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ بڑے ٹیلے کی طرح ایک مچھلی موجود ہے۔ ہمارا لشکر اس میں سے اٹھارہ (19) دن تک کھاتا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4360]
حدیث حاشیہ:
1۔
ایک روایت میں ہے کہ اس دستے کے امیر حضرت قیس بن سعد ؓ تھے لیکن صحیح یہی ہے کہ اس لشکر کے امیر حضرت ابوعبیدہ بن جراح ؓ تھے کیونکہ صحیحین کی روایات کا اسی پر اتفاق ہے۔
چونکہ اس واقعےمیں حضرت قیس ؓ کی بے مثال سخاوت کاذکر ہے، اس لیے ممکن ہے کہ کسی راوی نے ان کی سخاوت کے پیش نظر یہ اندازہ لگا لیا ہوکہ شاید وہی امیر لشکر تھے، حالانکہ دیگرروایات اس کے خلاف ہیں۔
(فتح الباري: 99/8)
2۔
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس لشکر کے لیے عمومی زادِسفر تھا۔
جب وہ ختم ہوگیا تو امیر لشکر نے خصوصی زادِسفر کا اہتمام کیا، جبکہ صحیح مسلم میں ہے کہ امیر سفر نے انھیں کھجوروں کا ایک تھیلادیا، اس کے علاوہ اور کوئی زادسفر نہ تھا۔
(فتح الباري: 99/8)
ان روایات میں کوئی تضاد نہیں کیونکہ زادِعام بھی ایک تھیلا تھا، جب وہ ختم ہوگیا تو زاد خاص جمع کیا گیا تھا وہ بھی ایک تھیلا ہوا۔
واضح رہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بھی اس لشکر کو ایک تھیلا کھجوروں کا دیا تھا۔
راوی نے مزید وضاحت کی ہے کہ جب ہمیں ایک کھجور ملنے لگی تو ہم اسے اس طرح چوستے تھے جس طرح بچہ پستان چوستا ہے، پھر اس پر پانی پی لیتے تو صبح سے رات تک کام چل جاتا تھا۔
ایسے حالات میں اللہ تعالیٰ نے ان کی مدد فرمائی اور اپنے پیارے مجاہدین کو رزق مہیا فرمایا۔
(صحیح مسلم، الصید والذبائح، حدیث: 4998(1935)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4360
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5494
5494. سیدنا جابر ؓ ہی سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے ہمیں روانہ کیا اس لشکر میں تین سو سوار تھے۔ ہمارے امیر ابو عبیدہ بن جراح تھے ہمارا کام قریش کے تجارتی قافلے کی نقل و حرکت پر نظر رکھنا تھا اس دوران میں ہمیں سخت بھوک لگی نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ ہم نے درختوں کے پتے کھائے۔ اس بنا پر اس مہم کا نام ''جیش الخبط'' پڑ گیا تاہم سمندر نے ایک مچھلی باہر پھینکی جس کا نام عنبر تھا۔ ہم نے وہ مچھلی نصف ماہ تک کھائی اور اس کی چربی بطور مالش استعمال کرتے رہے جس سے ہمارے جسم طاقتور ہو گئے۔ پھر یمارے امیر ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے اس کی پسلی کی ہڈی لی، اسے کھڑا کیا اور ایک سوار اس کے نیچے سے گزرا۔ ہمارے ساتھ ایک صاحب تھے جب ہمیں بھوک نے زیادہ تنگ کيا تو انہوں نے تین اونٹ ذبح کر دیے پھر (بھوک نے تنگ کیا تو اور) تین اونٹ (ذبح کر دیے) اس كے بعد ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے انہیں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5494]
حدیث حاشیہ:
(1)
جن صاحب نے اونٹ ذبح کیے وہ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے صاجزادے حضرت قیس رضی اللہ عنہ تھے۔
حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے انہیں اونٹ ذبح کرنے سے اس لیے منع کر دیا کہ سواریوں کے کم ہو جانے کا اندیشہ تھا۔
سفر میں سواریوں کا ہونا بھی ضروری ہے۔
(2)
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ سمندر کا مردار مطلق طور پر حلال ہے، خواہ شکار کرنے کے بعد مرا ہو یا خود بخود مر کر اوپر آ گیا ہو، کیونکہ یہ مچھلی جو صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے پندرہ دن تک استعمال کی وہ سمندر نے پھینکی تھی جو زندہ نہیں تھی، لیکن ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”سمندر جو باہر پھینک دے یا پانی پیچھے ہٹ جانے کی صورت میں جو زمین پر رہ جائے اسے کھا لو اور جو اس میں مر کر اوپر تیر آئے تو اسے مت کھاؤ۔
“ (سنن أبي داود، الأطعمة، حدیث: 3815)
لیکن یہ روایت سند کے اعتبار سے ضعیف ہے جیسا کہ امام ابو داود رحمہ اللہ نے خود ہی اس کی وضاحت کر دی ہے، لہذا از خود مرنے والی مچھلی بھی حلال ہے جیسا کہ عنوان میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا موقف گزر چکا ہے۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5494