Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

الادب المفرد
كِتَابُ
كتاب
182. بَابُ الصَّبْرِ عَلَى الأَذَى
تکلیف دہی پر صبر کرنا
حدیث نمبر: 389
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ سُفْيَانَ قَالَ‏:‏ حَدَّثَنِي الأَعْمَشُ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ، عَنْ أَبِي مُوسَى، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ‏:‏ ”لَيْسَ أَحَدٌ، أَوْ لَيْسَ شَيْءٌ، أَصْبَرَ عَلَى أَذًى يَسْمَعُهُ مِنَ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ، وَإِنَّهُمْ لَيَدَّعُونَ لَهُ وَلَدًا، وَإِنَّهُ لَيُعَافِيهِمْ وَيَرْزُقُهُمْ‏.‏“
سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی شخص تکلیف دہ بات سن کر اللہ عزوجل سے زیادہ صبر کرنے والا نہیں ہے۔ بلاشبہ وہ (لوگ) اس کے لیے اولاد ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور وہ اس کے باوجود انہیں عافیت دیتا ہے اور رزق عطا کرتا ہے۔

تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب الأدب، باب الصبر فى الأذىٰ............: 6099، 7378 و مسلم: 2804 و النسائي فى الكبرىٰ: 145/7 - انظر الصحيحة: 2249»

قال الشيخ الألباني: صحيح

الادب المفرد کی حدیث نمبر 389 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 389  
فوائد ومسائل:
(۱)ایک روایت میں ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:ابن آدم مجھے گالیاں دیتا ہے اور جھٹلاتا ہے اور اسے یہ زیب نہیں دیتا اور اس کا گالی دینا یہ ہے کہ وہ میرے لیے اولاد کا دعویٰ کرتا ہے۔ (صحیح البخاري، بدء الخلق، حدیث:۳۱۹۳)
(۲) حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نہایت حلیم اور بردبار ہے حتی کہ وہ کافروں پر بھی نرمی کرتا ہے کہ ان کے اتنے بڑے جرم کے باوجود ان سے جلدی انتقام نہیں لیتا بلکہ درگزر فرماتا ہے اور پھر ان کی روزی روٹی بھی جاری رکھتا ہے۔
(۳) اس میں اشارہ ہے کہ ایذاء رسانی کو برداشت کرکے اس پر صبر کرنا نہایت قابل تعریف کام ہے اور انتقام نہ لینا نہایت اعلیٰ صفت ہے۔
(۴) اللہ تعالیٰ کا یہ معاملہ اپنے دشمنوں کے ساتھ ہے اور اپنے پیارے بندوں کے ساتھ اس کا معاملہ کس قدر رحیمانہ ہوگا۔
(۵) اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کو بندے کے جس عمل سے سب سے زیادہ تکلیف ہوتی ہے وہ شرک ہے اس لیے اس سے ہر صورت بچنا ضروری ہے۔
   فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 389