الادب المفرد
كِتَابُ
كتاب
153. بَابُ مَا جَاءَ فِي التَّمَادُحِ
ایک دوسرے کی بے جا تعریف کی ممانعت
حدیث نمبر: 333
حَدَّثَنَا مُحَمَّدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا آدَمُ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ خَالِدٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ رَجُلاً ذُكِرَ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَثْنَى عَلَيْهِ رَجُلٌ خَيْرًا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ”وَيْحَكَ قَطَعْتَ عُنُقَ صَاحِبِكَ“، يَقُولُهُ مِرَارًا، ”إِنْ كَانَ أَحَدُكُمْ مَادِحًا لاَ مَحَالَةَ فَلْيَقُلْ: أَحْسَبُ كَذَا وَكَذَا، إِنْ كَانَ يَرَى أَنَّهُ كَذَلِكَ، وَحَسِيبُهُ اللَّهُ، وَلاَ يُزَكِّي عَلَى اللهِ أَحَدًا.“
سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی کا ذکر ہوا تو ایک دوسرے آدمی نے اس کی (مبالغہ آمیز) تعریف کی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”افسوس ہے تجھے! تو نے اپنے ساتھی کی گردن کاٹ دی۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بار بار یہ بات دہراتے رہے، (پھر فرمایا:) ”اگر کوئی ضرور کسی کی تعریف کرنا چاہتا ہے تو وہ یوں کہے: میرے خیال میں وہ ایسا ایسا ہے، اگر واقعی وہ اسے ایسا سمجھتا ہے تو (ان الفاظ میں تعریف کر دے) ساتھ یوں بھی کہے: صحیح علم اللہ تعالیٰ کو ہے۔ وہی حساب لینے والا ہے اور وہ اللہ کے مقابلے میں کسی کا تزکیہ نہ کرے۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب الشهادات، باب إذا ذكي رجل رجلا كفاه: 2662 و مسلم: 3000 و أبوداؤد: 4805 و ابن ماجه: 3744»
قال الشيخ الألباني: صحيح
الادب المفرد کی حدیث نمبر 333 کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 333
فوائد ومسائل:
(۱)تمادح ایک دوسرے کی ایسی تعریف کو کہتے ہیں جس میں مبالغہ آرائی ہو مبالغہ آرائی پر مبنی اور جھوٹی تعریف کرنی ناجائز اور حرام ہے۔
(۲) کسی کی مبنی پر حقیقت تعریف کرنی جائز ہے لیکن بہتر ہے کہ اس کے منہ پر نہ کی جائے۔
(۳) کسی شخص کے بارے میں اگر خدشہ ہوکہ تعریف کرنے سے اس میں تکبر آجائے گا یا وہ بے عمل ہو جائے گا تو اس کی موجودگی یا عدم موجودگی میں تعریف نہیں کرنی چاہیے کیونکہ ایسا کرنا اسے قتل کرنے کے مترادف ہے۔
(۴) کسی شخص کے بارے میں خود پسندی یا تکبر کا ڈر نہ ہو تو اس کی تعریف کرنی جائز ہے جیسا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی کئی مواقع پر تعریف فرمائی۔
(۵) تعریف کرنے میں زمین آسمان کے قلابے ملانے کی بجائے یہ کہنا چاہیے کہ میرے نزدیک وہ اچھا ہے، باطن کا معاملہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 333