الادب المفرد
كِتَابُ
كتاب
142. بَابُ طِيْبِ النَّفْسِ
طيب نفس کا بیان
حدیث نمبر: 301
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ قَالَ: حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ بِلاَلٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ سُلَيْمَانَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ الأَسْلَمِيِّ، أَنَّهُ سَمِعَ مُعَاذَ بْنَ عَبْدِ اللهِ بْنِ خُبَيْبٍ الْجُهَنِيَّ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَمِّهِ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ عَلَيْهِمْ وَعَلَيْهِ أَثَرُ غُسْلٍ، وَهُوَ طَيِّبُ النَّفْسِ، فَظَنَنَّا أَنَّهُ أَلَمَّ بِأَهْلِهِ، فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللهِ، نَرَاكَ طَيِّبَ النَّفْسِ؟ قَالَ: ”أَجَلْ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ“، ثُمَّ ذُكِرَ الْغِنَى، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ”إِنَّهُ لاَ بَأْسَ بِالْغِنَى لِمَنِ اتَّقَى، وَالصِّحَّةُ لِمَنِ اتَّقَى خَيْرٌ مِنَ الْغِنَى، وَطِيبُ النَّفْسِ مِنَ النِّعَمِ.“
سیدنا عبیدہ بن عبدالحی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر غسل کے اثرات تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بڑے خوش تھے۔ ہم نے سمجھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اہلیہ سے تعلقات قائم کر کے آئے ہیں، تو ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آج آپ بڑے خوش و خرم دکھائی دے رہے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”الحمد للہ ایسے ہی ہے۔“ پھر غنا اور خوشحالی کا ذکر ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تقویٰ کے ساتھ مالداری میں کوئی حرج نہیں، اور متقی آدمی کے لیے صحت مالداری سے زیادہ بہتر ہے، اور طیب نفس اللہ کی نعمتوں میں سے ہے۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه ابن ماجه، كتاب التجارات، باب الحض على المكاسب: 2141 - الصحيحة: 174»
قال الشيخ الألباني: صحيح
الادب المفرد کی حدیث نمبر 301 کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 301
فوائد ومسائل:
(۱)دلی مسرت اور شادمانی اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ کیونکہ انسان زندگی میں دنیا کے لیے جتنی کوشش کرتا ہے وہ دلی تسکین کے لیے کرتا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دعا فرمایا کرتے تھے۔
((اَللّٰهُمَّ اِنِّی اَعُوْذُبِكَ مِنَ الْهَمّ وَالْحُزْنِ))
”اے اللہ! میں حزن و ملال اور غم سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔“
شادی بھی اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں میں سے ہے جس سے طیب نفس اور دلی سکون حاصل ہوتا ہے، نیز اس سے نگاہ جھک جاتی ہے اور یہ نصف ایمان ہے اس لیے نوجوانوں کو شادی میں دیر نہیں کرنی چاہیے۔
(۲) تقوے کے بغیر مال ہلاکت اور تباہی ہے لیکن مال کے ساتھ ساتھ پرہیزگاری ہو تو یہ فقیری سے افضل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مال آزمائش ہے اور متقی اس پر پورا اترتا ہے اور جو آزمائش میں کامیاب ہو وہ اس سے بہتر ہے جسے آزمایا ہی نہ گیا ہو۔ سفیان ثوری رحمہ اللہ فرماتے تھے کہ سلف کے دور میں مال ناپسندیدہ چیز تھی اب تو وہ مومن کے لیے ڈھال ہے اور فرماتے کہ اگر آج ہمارے پاس مال نہ ہو تو یہ بادشاہ ہمیں ٹشو پیپر بنا لیں۔ حقیقت یہی ہے کہ آج اہل دین خصوصاً علماء جن کو اللہ تعالیٰ نے مالی وسائل دیے ہیں وہ زیادہ احسن طریقے سے فریضہ تبلیغ سر انجام دیتے ہیں اور لوگ بھی ان کی بات توجہ سے سنتے ہیں۔ جو لوگ مالداروں کے رحم وکرم پر زندگی گزارتے ہیں وہ حق بات بھی نہیں بتا سکتے۔
(۳) صحت اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ مال نہ ہو لیکن صحت ہو تو اللہ تعالیٰ کی عبادت کی جاسکتی ہے لیکن صحت نہ ہو اور مال ہو بھی تو انسان عاجز رہتا ہے۔ اس لیے صحت کا خیال رکھنا ضروری ہے اور مضر صحت اشیاء سے اجتناب ضروری ہے۔ تاہم اللہ تعالیٰ جسے ایمان، صحت اورمال سب کچھ دے اور وہ اس کے تقاضوں کو پورا کرے تو اس سے زیادہ خوش نصیب کون ہے؟
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 301