الادب المفرد
كِتَابُ
كتاب
138. بَابُ حُسْنِ الْخُلُقِ إِذَا فَقِهُوا
دین کی سوجھ بوجھ رکھنے والے کے لیے حسن اخلاق
حدیث نمبر: 291
حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ زِيَادِ بْنِ عِلاَقَةَ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ شَرِيكٍ قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَاءَتِ الأَعْرَابُ، نَاسٌ كَثِيرٌ مِنْ هَاهُنَا وَهَاهُنَا، فَسَكَتَ النَّاسُ لاَ يَتَكَلَّمُونَ غَيْرَهُمْ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ، أَعَلَيْنَا حَرَجٌ فِي كَذَا وَكَذَا؟ فِي أَشْيَاءَ مِنْ أُمُورِ النَّاسِ، لاَ بَأْسَ بِهَا، فَقَالَ: ”يَا عِبَادَ اللهِ، وَضَعَ اللَّهُ الْحَرَجَ، إِلاَّ امْرَءًا اقْتَرَضَ امْرَءًا ظُلْمًا فَذَاكَ الَّذِي حَرِجَ وَهَلَكَ“، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ، أَنَتَدَاوَى؟ قَالَ: ”نَعَمْ يَا عِبَادَ اللهِ تَدَاوَوْا، فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَمْ يَضَعْ دَاءً إِلاَّ وَضَعَ لَهُ شِفَاءً، غَيْرَ دَاءٍ وَاحِدٍ“، قَالُوا: وَمَا هِيَ يَا رَسُولَ اللهِ؟ قَالَ: ”الْهَرَمُ“، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ، مَا خَيْرُ مَا أُعْطِيَ الإِنْسَانُ؟ قَالَ: ”خُلُقٌ حَسَنٌ.“
سیدنا اسامہ بن شریک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس (حج کے موقعہ پر) موجود تھا اور دیہاتی آئے۔ بہت سارے لوگ اس طرف سے اور بہت سے اس طرف سے۔ لوگ خاموش ہو گئے اور ان کے علاوہ کوئی بات نہیں کر رہا تھا۔ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا فلاں فلاں کام کرنے میں کوئی گناہ ہے؟ انہوں نے لوگوں کے بہت سے ایسے امور کا ذکر کیا جن کے کرنے میں کوئی حرج نہیں تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے حرج اور تنگی دور کر دی ہے۔ البتہ جس نے ظلماً کسی کا گوشت کھایا تو وہ حرج میں رہا اور ہلاک ہوا۔“ انہوں نے دریافت کیا: اے اللہ کے رسول! کیا ہم دوا استعمال کر سکتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے اللہ کے بندو! علاج معالجہ کراؤ، بلاشبہ اللہ عزوجل نے جو بیماری نازل کی ہے اس کی دوا بھی اتاری ہے، سوائے ایک بیماری کے۔“ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! وہ کون سی بیماری ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بڑھاپا۔“ انہوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! انسان کو سب سے بہتر اور اچھی چیز کون سی عطا کی گئی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اچھا اخلاق۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه أبوداؤد، كتاب الطب، باب الرجل يتداوي: 3855، 2015 و الترمذي: 2038 و ابن ماجة: 3436 - انظر التعليقات الحسان: 470/1»
قال الشيخ الألباني: صحيح
الادب المفرد کی حدیث نمبر 291 کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 291
فوائد ومسائل:
(۱)لوگوں کی خاموشی کی وجہ شاید یہ تھی کہ انہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرنے سے روکا گیا تھا جیسا کہ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہمیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرنے سے منع کر دیا گیا تو ہم یہ خواہش کرتے کہ کوئی سمجھ دار دیہاتی آئے اور آپ سے سوال کرے تاکہ ہمیں دین کے مسائل معلوم ہوں۔ (صحیح مسلم، الایمان، حدیث:۱۲)
(۲) یہ حجۃ الوداع کا موقع تھا اور مختلف اطراف سے لوگ آرہے تھے۔ انہوں نے معاشرتی مسائل دریافت فرمائے تو آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تنگی ختم کر دی ہے اور دین اسلام نہایت آسان ہے تاہم حرج اور ہلاکت والا کام یہ ہے کہ دوسرے کی غیبت کرکے اس کا گوشت کھایا جائے۔ اس نوعیت کا ظلم انسان کو تباہ کر دیتا ہے۔ اتنے سارے دیگر گناہوں کو چھوڑ کر غیبت کا ذکر کرنے میں شاید یہ حکمت ہے کہ غیبت تمام معاشرتی برائیوں کی جڑ ہے۔ اسی کی وجہ سے قطع رحمی ہوتی ہے حتی کہ غیبت قتل و غارت کا سبب بھی بن جاتی ہے۔ یہ چیز دیہاتوں میں اور خصوصاً اس معاشرے میں بکثرت تھی جس کی آپ نے نشان دہی فرمائی۔
(۳) دوائی استعمال کرنا بظاہر توکل کے منافي معلوم ہوتا ہے اس لیے انہوں نے اس کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے نہ صرف اجازت دی بلکہ ترغیب دی کہ علاج معالجہ ضرور کرنا چاہیے اور بلاوجہ اذیت نہیں اٹھانی چاہیے اور آپ نے خود علاج کروایا بھی ہے جیسا کہ احد کے موقعہ پر مرہم پٹی کروائی۔ دوائی کا استعمال توکل کے منافي نہیں کیونکہ اسباب کو بروئے کار لانا عین توکل ہے۔ البتہ حرام سے علاج کروانے سے ہر صورت گریز کرنا چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حرام چیز میں شفا نہیں رکھی۔ آپ نے بتایا کہ ہر مرض کا علاج اللہ تعالیٰ نے نازل کیا ہے۔ انسان اس تک رسائی حاصل نہ کرسکے تو یہ اس کی کم فہمی ہے۔ تاہم کسی بیماری کا علاج دم میں ہوتا ہے اور کسی کا صدقہ و خیرات میں اور کسی کا دعا میں، لیکن ہم ان ذرائع کی طرف توجہ نہیں دیتے۔
(۴) آخری جملے کا تعلق ترجمۃ الباب سے ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا کہ انسان کو اللہ تعالیٰ سے جو کچھ بھی ملتا ہے ان سے سب سے بہتر حسن اخلاق ہے کیونکہ اس کی وجہ سے لوگوں کی اکثریت جنت میں جائے گی اس لیے اپنے اخلاق و کردار کو عمدہ کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 291