حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ الْقَعْقَاعِ بْنِ شُبْرُمَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي نُعْمٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ، يَقُولُ: بَعَثَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْيَمَنِ بِذُهَيْبَةٍ فِي أَدِيمٍ مَقْرُوظٍ لَمْ تُحَصَّلْ مِنْ تُرَابِهَا، قَالَ: فَقَسَمَهَا بَيْنَ أَرْبَعَةِ نَفَرٍ بَيْنَ عُيَيْنَةَ بْنِ بَدْرٍ، وَأَقْرَعَ بْنِ حابِسٍ، وَزَيْدِ الْخَيْلِ، وَالرَّابِعُ إِمَّا عَلْقَمَةُ وَإِمَّا عَامِرُ بْنُ الطُّفَيْلِ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِهِ: كُنَّا نَحْنُ أَحَقَّ بِهَذَا مِنْ هَؤُلَاءِ، قَالَ: فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" أَلَا تَأْمَنُونِي وَأَنَا أَمِينُ مَنْ فِي السَّمَاءِ، يَأْتِينِي خَبَرُ السَّمَاءِ صَبَاحًا وَمَسَاءً؟" قَالَ: فَقَامَ رَجُلٌ غَائِرُ الْعَيْنَيْنِ، مُشْرِفُ الْوَجْنَتَيْنِ، نَاشِزُ الْجَبْهَةِ، كَثُّ اللِّحْيَةِ، مَحْلُوقُ الرَّأْسِ، مُشَمَّرُ الْإِزَارِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، اتَّقِ اللَّهَ، قَالَ:" وَيْلَكَ، أَوَلَسْتُ أَحَقَّ أَهْلِ الْأَرْضِ أَنْ يَتَّقِيَ اللَّهَ"، قَالَ: ثُمَّ وَلَّى الرَّجُلُ، قَالَ خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلَا أَضْرِبُ عُنُقَهُ؟ قَالَ:" لَا، لَعَلَّهُ أَنْ يَكُونَ يُصَلِّي"، فَقَالَ خَالِدٌ: وَكَمْ مِنْ مُصَلٍّ يَقُولُ بِلِسَانِهِ مَا لَيْسَ فِي قَلْبِهِ؟ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنِّي لَمْ أُومَرْ أَنْ أَنْقُبَ عَنْ قُلُوبِ النَّاسِ، وَلَا أَشُقَّ بُطُونَهُمْ"، قَالَ: ثُمَّ نَظَرَ إِلَيْهِ وَهُوَ مُقَفٍّ، فَقَالَ:" إِنَّهُ يَخْرُجُ مِنْ ضِئْضِئِ هَذَا قَوْمٌ يَتْلُونَ كِتَابَ اللَّهِ رَطْبًا لَا يُجَاوِزُ حَنَاجِرَهُمْ يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّينِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ"، وَأَظُنُّهُ قَالَ:" لَئِنْ أَدْرَكْتُهُمْ لَأَقْتُلَنَّهُمْ قَتْلَ ثَمُودَ".
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 7432
´اللہ تعالیٰ کا (سورۃ المعارج میں) فرمان ”فرشتے اور روح القدس اس کی طرف چڑھتے ہیں“`
«. . . عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ:" بَعَثَ عَلِيٌّ وَهُوَ بِالْيَمَنِ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِذُهَيْبَةٍ فِي تُرْبَتِهَا، فَقَسَمَهَا بَيْنَ الْأَقْرَعِ بْنِ حَابِسٍ الْحَنْظَلِيِّ، ثُمَّ أَحَدِ بَنِي مُجَاشِعٍ وَبَيْنَ عُيَيْنَةَ بْنِ بَدْرٍ الْفَزَارِيِّ وَبَيْنَ عَلْقَمَةَ بْنِ عُلَاثَةَ الْعَامِرِيِّ، ثُمَّ أَحَدِ بَنِي كِلَابٍ وَبَيْنَ زَيْدِ الْخَيْلِ الطَّائِيِّ ثُمَّ أَحَدِ بَنِي نَبْهَانَ، فَتَغَضَّبَتْ قُرَيْشٌ، وَالْأَنْصَارُ، فَقَالُوا: يُعْطِيهِ صَنَادِيدَ أَهْلِ نَجْدٍ وَيَدَعُنَا، قَالَ: إِنَّمَا أَتَأَلَّفُهُمْ، فَأَقْبَلَ رَجُلٌ غَائِرُ الْعَيْنَيْنِ، نَاتِئُ الْجَبِينِ، كَثُّ اللِّحْيَةِ، مُشْرِفُ الْوَجْنَتَيْنِ، مَحْلُوقُ الرَّأْسِ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، اتَّقِ اللَّهَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَمَنْ يُطِيعُ اللَّهَ إِذَا عَصَيْتُهُ، فَيَأْمَنُنِي عَلَى أَهْلِ الْأَرْضِ وَلَا تَأْمَنُونِي، فَسَأَلَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ؟ قَتْلَهُ أُرَاهُ خَالِدَ بْنَ الْوَلِيدِ، فَمَنَعَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا وَلَّى، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ مِنْ ضِئْضِئِ هَذَا قَوْمًا يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ، لَا يُجَاوِزُ حَنَاجِرَهُمْ يَمْرُقُونَ مِنَ الْإِسْلَامِ مُرُوقَ السَّهْمِ مِنَ الرَّمِيَّةِ، يَقْتُلُونَ أَهْلَ الْإِسْلَامِ وَيَدَعُونَ أَهْلَ الْأَوْثَانِ لَئِنْ أَدْرَكْتُهُمْ لَأَقْتُلَنَّهُمْ قَتْلَ عَادٍ . . .»
”. . . ابوسعید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ سونا بھیجا گیا تو آپ نے اسے چار آدمیوں میں تقسیم کر دیا۔ اور مجھ سے اسحاق بن نصر نے بیان کیا، ان سے عبدالرزاق نے بیان کیا، انہیں سفیان نے خبر دی، انہیں ان کے والد نے، انہیں ابن ابی نعم نے اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ علی رضی اللہ عنہ نے یمن سے کچھ سونا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اقرع بن حابس حنظلی، عیینہ بن بدری فزاری، علقمہ بن علاثہ العامری اور زید الخیل الطائی میں تقسیم کر دیا۔ اس پر قریش اور انصار کو غصہ آ گیا اور انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نجد کے رئیسوں کو تو دیتے ہیں اور ہمیں چھوڑ دیتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں ایک مصلحت کے لیے ان کا دل بہلاتا ہوں۔ پھر ایک شخص جس کی آنکھیں دھنسی ہوئی تھیں، پیشانی ابھری ہوئی تھی، داڑھی گھنی تھی، دونوں کلے پھولے ہوئے تھے اور سر گٹھا ہوا تھا۔ اس مردود نے کہا: اے محمد! اللہ سے ڈر۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر میں بھی اس (اللہ) کی نافرمانی کروں گا تو پھر کون اس کی اطاعت کرے گا؟ اس نے مجھے زمین پر امین بنایا ہے اور تم مجھے امین نہیں سمجھتے۔ پھر حاضرین میں سے ایک صحابی خالد رضی اللہ عنہ یا عمر رضی اللہ عنہ نے اس کے قتل کی اجازت چاہی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا۔ پھر جب وہ جانے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس شخص کی نسل سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو قرآن کے صرف لفظ پڑھیں گے لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، وہ اسلام سے اس طرح نکال کر پھینک دئیے جائیں گے جس طرح تیر شکاری جانور میں سے پار نکل جاتا ہے، وہ اہل اسلام کو (کافر کہہ کر) قتل کریں اور بت پرستوں کو چھوڑ دیں گے اگر میں نے ان کا دور پایا تو انہیں قوم عاد کی طرح نیست و نابود کر دوں گا۔“ [صحيح البخاري/كِتَاب التَّوْحِيدِ: 7432]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 7432 کا باب: «بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {تَعْرُجُ الْمَلاَئِكَةُ وَالرُّوحُ إِلَيْهِ}:»
باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے تحت الباب جو حدیث پیش فرمائی ہے اس کا بظاہر باب سے مناسبت دکھائی نہیں دیتا کیونکہ تحت الباب نہ تو فرشتوں کا ذکر ہے اور نہ ہی اعمال صالحہ کا اوپر چڑھنے کا ذکر ہے۔ لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی عادت کے مطابق اسی روایت کے دوسرے طریق کی طرف اشارہ فرمایا ہے جس میں باب سے مناسبت ظاہر ہوتی ہے۔
علامہ عبدالحق الہاشمی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«حديث أبى سعيد الخدري رضي الله عنه، و مناسبة للترجمة من جهة أنه ورد فى بعض روايات هذا الحديث: ألا تأمنوني و أنا أمين من فى السماء فجرى البخاري على عادته المعروفة من الإشارة إلى الرواية التى لم يوردها لإرادة تشحيذ أذهان الطلبة.» [لب اللباب فی تراجم والابواب: 271/5]
”حدیث سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ کی باب سے مناسبت اس جہت سے ہے کہ بعض روایات میں اس حدیث کے یہ الفاظ وارد ہیں: ”میں اس اللہ کا امین ہوں جو آسمانوں میں ہے“، پس امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی عادت کے مطابق اس روایت کی طرف اشارہ فرمایا تاکہ تشحیذ کا سامان پیدا ہو جائے۔“
علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”بعض لوگوں نے مناسبت دینے کے لیے تکلف کیا ہے کہ کتاب المغازی میں یہ روایت ہے کہ «و أنا أمين من فى السماء» ۔“ [عمدة القاري للعيني: 181/25]
لہٰذا ان تصریحات سے مناسبت کا پہلو اس طرح سے اجاگر ہوتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے دوسرے طرق کی طرف اشارہ فرمایا ہے جس میں «و أنا أمين» کے الفاظ وارد ہوئے ہیں، پس انہی الفاظوں کے ساتھ باب اور حدیث میں مناسبت ہو گی۔
عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 320
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2579
´مولفۃ القلوب (جنہیں تالیف قلب کے لیے دیا گیا ہو) کا بیان۔`
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ نے یمن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مٹی ملا ہوا غیر صاف شدہ سونے کا ایک ڈلا بھیجا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے چار افراد: اقرع بن حابس حنظلی، عیینہ بن بدر فرازی، اور علقمہ بن علاثہ جو عامری تھے پھر وہ بنی کلاب کے ایک فرد بن گئے، اور زید جو طائی تھے پھر بنی نبہان میں سے ہو گئے، کے درمیان تقسیم کر دیا۔ (یہ دیکھ کر) قریش کے لوگ غصہ ہو گئے۔ راوی نے دوسری بار کہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2579]
اردو حاشہ:
(1) مؤلفۃ القلوب کئی قسم کے ہوتے ہیں: وہ لوگ جو اپنی قوم میں با اثر سردار ہوں اور ان کے اسلام لانے کی امید ہو۔ انھیں عطیات دیے جائیں تاکہ ان کے دل سے بُعد ختم ہو اور وہ مسلمان ہو جائیں۔ بعد میں اسلام خود بخود ان کے دلوں میں گھر کر جائے گا۔ ان کی وجہ سے ان کی قوم بھی مسلمان ہو جائے گی۔ وہ نومسلم لوگ جن کے دلوں تک اسلام نہیں پہنچا مگر وہ اپنی قوم کے بااثر سردار ہیں۔ اگر انھیں نہ دیا گیا تو وہ کوئی فتنہ کھڑا کر سکتے ہیں، اس لیے انھیں عطیات دیے جائیں تاکہ وہ اسلام پر پکے ہو جائیں۔ وہ با اثر لوگ جن کے ساتھ مسلمانوں کے علاقے ملتے ہیں اور وہ مشکل وقت میں مسلمانوں کے محافظ بن سکتے ہیں۔
(2) رسول اللہﷺ نے مؤلفۃ القلوب کو مال دیا ہے۔ قرآن مجید میں بھی زکاۃ کے مصارف میں ان کا ذکر ہے۔ مگر احناف کا خیال ہے کہ اب اسلام مضبوط ہو چکا ہے۔ ہم ایسے لوگوں کے محتاج نہیں رہے، لہٰذا اب ان کا حصہ ساقط ہو چکا ہے، جبکہ دیگر اہل علم ضرورت پڑنے پر انھیں اب بھی مصرف سمجھتے ہیں اور یہی بات درست ہے۔ کیونکہ یہ ضروری نہیں کہ ہر جگہ اسلام غالب ہی آ چکا ہو۔ بعض علاقوں میں نبیﷺ کے دور والی صورت حال بھی ہو سکتی ہے۔
(3) جن چار سرداروں کے مابین آپ نے وہ سونا تقسیم کیا تھا، وہ مؤلفۃ القلوب کی دوسری قسم میں داخل تھے۔
(4) ”قریش کے نو مسلم سردار“ جو فتح مکہ کے بعد مسلمان ہوئے۔ یہ اطمینان قلب میں مہاجرین وانصار کے درجے میں نہ تھے۔
(5) ”ایک شخص“ گویا اس کی ظاہری شکل وصورت بھی قبیح تھی اور بات اس سے بھی قبیح کی۔ ظاہر یہی ہے کہ یہ کوئی منافق شخص تھا جو صرف مال کے لالچ میں مسلمان ہوا تھا۔ نہ ملنے پر بکواس کرنے لگا۔
(6) ”اجازت نہ دی۔“ کیونکہ وہ ظاہراً مسلمان تھا۔ اور منافقوں کے قتل کی اجازت نہ تھی۔ اس نے صراحتاً کوئی الزام بھی نہ لگایا تھا۔
(7) ”اس کی نسل سے۔“ واقعتا یہ پیش گوئی پوری ہوئی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور میں یہ ظاہر ہوئے۔ قرآن بہت پڑھتے تھے مگر پڑھنا اور بات ہے، سمجھنا اور بات۔ ان کی بے وقوفی یہ تھی کہ قرآن مجید صحابہ رضی اللہ عنہم سے پڑھتے تھے مگر مطلب انھیں بتاتے تھے۔
(8) ”حلق سے تجاوز۔“ یعنی قرآن مجید کو سمجھ نہ سکیں گے، لہٰذا ثواب کے بھی حق دار نہ ہوں گے۔
(9) ”مسلمانوں کو قتل۔“ واقعتا انھوں نے بہت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو شہید کیا۔ خلیفہ برحق حضرت علی اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو صراحتاً کافر کہا۔ نعوذ باللہ من ذلك۔ خلیفہ وقت سے لڑائی کی اور اپنی تمام توانائیاں اہل اسلام کے خلاف صرف کیں۔ یہ لوگ اپنے خیال میں مخلص مسلمان تھے۔ مگر حقیقتاً مسلمانوں کے لیے کافروں سے زیادہ نقصان دہ ثابت ہوئے۔ ظاہراً بہت نیک تھے۔ نماز روزے کے سختی سے پابند تھے مگر دین کے صحیح فہم سے نابلد تھے۔ ایسے لوگ کفار اور شیطان کے ہاتھوں آسانی سے کھلونا بن جاتے ہیں۔ انھیں دنیا ”خوارج“ کے نام سے یاد رکھتی ہے۔
(10) ”وہ اسلام سے نکل جائیں گے۔“ ظاہراً تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ کافر تھے، کچھ اور نصوص سے بھی ان کے کفر کا اثبات ہوتا ہے۔ اسی لیے محدثین کا ایک گروہ ان کے کافر ہونے کا قائل ہے۔ لیکن فقہاء نے انھیں گمراہ فرقوں میں داخل کیا ہے۔ گویا ان کے نزدیک رسول اللہﷺ کے مندرجہ بالا الفاظ زجر و تغلیظ پر محمول ہیں۔ واللہ أعلم
(11) ”قتل کروں گا۔“ یہ فریضہ حصرت علی رضی اللہ عنہ نے سر انجام دیا اور ان کا خاتمہ فرمایا۔ اگرچہ وہ بعد میں بھی عرصہ دراز تک امت مسلمہ کے لیے کسی نہ کسی علاقے میں آفت بنے رہے۔ آہستہ آہستہ وہ سیاسی اور مذہبی طور پر ختم ہوگئے۔ والحمد للہ
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2579
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4106
´جو تلوار نکال کر لوگوں پر چلانا شروع کر دے۔`
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جس وقت علی رضی اللہ عنہ یمن میں تھے انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مٹی لگا ہوا سونے کا ایک ٹکڑا بھیجا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اقرع بن حابس حنظلی (جو بنی مجاشع کے ایک شخص تھے)، عیینہ بن بدر فزاری، علقمہ بن علاثہ عامری (جو بنی کلاب کے ایک شخص تھے)، زید الخیل طائی (جو بنی نبہان کے ایک شخص تھے) کے درمیان تقسیم کیا، ابو سعید خدری کہتے ہیں: اس پر قریش اور انصار غصہ ہوئے اور بولے:۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب تحريم الدم/حدیث: 4106]
اردو حاشہ:
(1) باب کے ساتھ حدیث کی مناسبت اس طرح بنتی ہے کہ مسلمانوں کے خلاف تلوار اٹھانے والا واجب القتل ہے۔
(2) اسلام کی طرف مائل کرنے، نیز اسلام کا گرویدہ کرنے کے لیے مؤلفۃ القلوب لوگوں کو زکاۃ دی جا سکتی ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کی تالیف قلب کے لیے انہی چار افراد میں سارا سونا تقسیم فرما دیا۔ چونکہ وہ چاروں افراد بڑے بڑے قبیلوں کے سردار تھے۔ نو مسلم تھے۔ ابھی یہ رسول اللہ ﷺ کی تربیت سے فیض یاب نہیں ہوئے تھے۔ ایمان دل میں جاگزیں نہ ہوا تھا۔ اس قسم کے لوگوں کو مال مل جائے تو بڑے خوش ہوتے ہیں او وفادار بن جاتے ہیں۔ مال نہ ملے تو فتنہ کھڑا کر دیتے ہیں۔ ارتداد کا بھی خطرہ ہوتا ہے۔ (جیسے رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد ہوا)۔ اس لیے آپ نے انہیں خوب عطیات دیے۔ حنین کی غنیمت سے بھی انہیں سو سو اونٹ دیے اور دیگر عطیات سے بھی نوازا۔ آپ کا مقصد ان کی تالیف قلب تھا تاکہ ان کے دلوں میں ایمان جاگیزیں ہو جائے اور وہ پکے مومن بن جائیں۔ قریش و انصار چونکہ ایمان میں پختہ تھے، ان سے اس قسم کا کوئی خطرہ نہ تھا، اس لیے آپ نے انہیں کچھ نہ دیا۔
(3) ”غصہ آ گیا“ یہ غصہ بھی بعض نوجوانوں کو آیا تھا ورنہ سابقون اولون مہاجرین و انصار سے تو اس کی توقع بھی نہیں کی جا سکتی۔
(4) اس حدیث شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ محض قرآن مجید کی تلاوت کسی شخص کے مومن صادق ہونے کی دلیل نہیں بن سکتی جبکہ وہ قرآن مقدس کے عملی تقاضے پورے نہ کرے۔
(5) رسول اللہ ﷺ انتہائی متحمل مزاج او عفو سے کام لینے والے عظیم انسان تھے۔ بڑے بڑے بے ادب اور گستاخ لوگوں سے بھی صرف نظر فرما جایا کرتے تھے، بالخصوص اپنی ذات کی خاطر کسی سے بھی انتقام نہ لیتے تھے۔
(6) اس حدیث سے خوارج کے ساتھ قتال کرنے کی مشرعیت بھی ثابت ہوتی ہے، خواہ انہیں مرتد سمجھ کر ان سے قتال کیا جائے یا امام عادل کا باغی سمجھ کر کیا جائے۔
(7) اس حدیث سے خارجیوں کی کچھ نشانیاں بھی معلوم ہوتی ہیں، مثلاً: ظاہراً وہ عام مسلمانوں کی نسبت بہت زیادہ عبادت گزار ہوتے ہیں، نیز یہ بھی کہ وہ دوسرے لوگوں کے مقابلے میں مسلمانوں سے بہت زیادہ عداوت بھی رکھتے ہیں۔
(8) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ بعض لوگ بغیر قصد و ارادہ کے دین اسلام سے نکل جاتے ہیں، حالانکہ وہ دین اسلام پر کسی بھی دوسرے دین و مذہب کو قطعاً ترجیح نہیں دے رہے ہوتے۔
(9) رسول اللہ ﷺ کی تقسیم پر اعتراض کرنے والے شخص کا نام حدیث میں ذوالخویصرہ مذکور ہے۔ دیکھئے: (صحیح البخاري، المناقب، حدیث: 3610) بلاشبہ معترض کا یہ اعتراض غلط اور ایمان کے تقاضوں کے منافی ہے بلکہ اس سے نفاق مترشح ہوتا ہے۔
(10) اس معترض کو قتل کرنے کی اجازت طلب کرنے والے حضرات جناب خالد بن ولید اور حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ہیں۔ صحیح بخاری میں ان دونوں کے ناموں کی تصریح ہے۔ دیکھئے: (حدیث: 3344، 3601)
(11) اس حدیث پاک سے عمر بن خطاب اور خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی عظیم فضیلت و منقبت بھی معلوم ہوتی ہے کہ وہ دونوں رسول اللہ ﷺ کے گستاخ کو قتل کرنے پر تیار ہو گئے۔ (12) ”حلق سے نیچے نہ جائے گا“ یعنی قرآن کی سمجھ حاصل نہ ہو گی۔ صرف پڑھنے سے علم و حکمت کا حصول نہیں ہو جاتا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کی توفیق کا ہونا بھی ضروری ہے۔
(13) ”صاف نکل جاتا ہے“ جس طرح تیز تیر اپنے شکار سے بالکل صاف نکل جاتا ہے۔ خون یا گوبر کی آلودگی سے صاف رہتا ہے۔ اسی طرح یہ لوگ قرآن مجید سے کورے نکل جائیں گے اور انہیں دین کا فہم حاصل نہیں ہو گا۔ یہ مطلب نہیں کہ وہ کافر ہوں گے کیونکہ خوارج بہر صورت مسلمانوں کا ایک فرقہ تھے جو دین کے مبادی کا اقرار کرتے تھے مگر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا راستہ چھوڑ دینے کی وجہ سے گمراہ ہو گئے۔
(14) یہ لوگ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے دور خلافت میں ظاہر ہوئے تھے۔ پہلے حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے حامی تھے، پھر بغاوت کر دی۔ بغاوت کی وجہ سے انہیں خارجی یا خوارج کہا گیا ہے۔ (عربی میں خروج بغاوت کو کہہ دیتے ہیں۔) یہ لوگ حد سے زیادہ نیک تھے لیکن کم عقلی کی وجہ سے اپنے علاوہ کسی کو مسلمان نہ سمجھتے تھے۔ انتہاء پسند تھے۔ ہر گناہ کو کفر کہتے تھے اور ہر گناہ گار کو کافر۔ نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمانوں کو کافر کہہ کر اکثر قتل کرتے تھے اور کافروں کو معذور سمجھ کر چھوڑ دیتے تھے۔ انتہا پسندی کا نتیجہ ہمیشہ ایسا ہی نکلتا ہے، اس لیے انتہاء پسندی، تشدد اور تکلف کی اسلام میں مذمت کی گئی ہے۔
(15) ”قتل کر دوں گا“ کیونکہ وہ امت مسلمہ کے لیے ناسور کی حیثیت رکھتے تھے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تک کو کافر کہنے اور قتل کرنے سے دریغ نہیں کرتے تھے۔ ان کا قتل ان کے شر سے بچنے کے لیے تھا نہ اس لیے کہ وہ کافر تھے۔ حضرت علی اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے سمجھانے کے باوجود باز نہ آئے۔ آخر حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے انہیں لڑکر شکست دی۔ ہزاروں مارے گئے مگر عرصۂ دراز تک امت مسلمہ کے لیے فتنہ بنے رہے۔ معلوم ہوا، ہدایت کا معیار صرف نیکی نہیں بلکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور خلفاء راشدین کی پیروی بھی ہے جو کہ اصل دین اسلام ہے۔ اسلام کی وہی تعبیر صحیح ہے جو صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے کی۔ اگر ان کا اتفاق ہو تو اس کی پیروی لازم ہے اور اگر ان میں اختلاف ہو تو پھر بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی اطاعت سے باہر نہیں جانا چاہیے۔
(16) خوارج صرف اس دور کے ساتھ خاص نہیں تھے بلکہ بعد میں بھی اس ذہنیت کے لوگ پیدا ہوتے رہے ہیں اور ہو رہے ہیں اور ہوتے رہیں گے۔
(17) جو شخص بھی انتہا پسند ہو، بات بات پر کفر کے فتوے لگاتا ہو، مسلمانوں کو کافر کہہ کر ان کے قتل کا قائل ہو، صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو گمراہ یا بدعتی کہتا ہو اور اپنے آپ کو صحابہ سے بڑھ کر دین کا محافظ سمجھتا ہو، وہ خارجی ہے چاہے کسی فرقے سے تعلق رکھتا ہو۔ و اللہ أعلم۔
(18) خارجیوں کی بابت اہل علم کے مابین شدید اختلاف ہے۔ بعض اہلِ علم انہیں کافر قرار دیتے ہیں جبکہ اکثر اہلِ علم انہیں کافر نہیں بلکہ فاسق و فاجر اور بدعتی قرار دیتے ہیں۔ کافر قرار دینے والوں کی دلیل مذکورہ حدیث اور اس جیسی دیگر احادیث ہیں کہ جن میں ان کے متعلق اس قسم کے الفاظ بیان فرمائے گئے ہیں، مثلاً: یَمْرُقُوْنَ مِنَ الدِّیْنِ، فَاقْتُلُوْهُمْ، فَإِنَّ قَتْلَهُمْ أَجْرٌ لِّمَنْ قَتَلَهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ اور هُمْ شَرُّ الْخَلْقِ وغیرہ۔ لیکن خارجیوں کو بدعتی اور فاسق و فاجر قرار دینے والوں کا کہنا ہے کہ خارجی لوگ شہادَتَیْن (کلمۂ شہادت) کا اقرار کرتے ہیں اور ارکانِ اسلام پر بھی ان کی مواظبت اور ہمیشگی ہے، لہٰذا وہ کافر نہیں۔ چونکہ اہل اسلام کے متعلق ان کا نقطۂ نظر درست نہیں، اس لیے وہ مبتدع اور فاسق و فاجر ہیں۔ شاید احادیث میں ان کی بابت مذکورہ بالا قسم کے شدید الفاظ بول کر انہیں سخت تنبیہ کرنا اور راہِ مستقیم پر لانا مقصود ہو۔ و اللہ أعلم
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4106
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4764
´چوروں سے مقابلہ کرنے کا بیان۔`
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں علی رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مٹی سے آلودہ سونے کا ایک ٹکڑا بھیجا ۱؎، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے چار لوگوں: اقرع بن حابس حنظلی مجاشعی، عیینہ بن بدر فزاری، زید الخیل طائی جو بنی نبہان کے ایک فرد ہیں اور علقمہ بن علاثہ عامری جو بنی کلاب سے ہیں کے درمیان تقسیم کر دیا، اس پر قریش اور انصار کے لوگ ناراض ہو گئے اور کہنے لگے: آپ اہل نجد کے رئیسوں کو دیتے ہیں اور ہمیں چھوڑ دیتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں ان کی تالیف قلب کرتا ہوں“ اتنے میں ایک شخص آیا (جس کی آنکھیں دھنسی ہوئی، ر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب السنة /حدیث: 4764]
فوائد ومسائل:
رسول ؐ انتہائی حلیم ومتحمل مزاج تھے اور بے ادب وگستاخ لوگوں سے بھی صرف نظر کر جاتے تھے۔
چنانچہ حکام، قضاہ اور اصحاب منصب کو بھی چاہیے کہ پہلے جاہلوں کی اصلاح کی کوشش کریں، اگر وہ اعلانیہ فساد پھیلانے لگیں تو ان کا قلع قمع کریں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4764
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث169
´خوارج کا بیان۔`
ابوسلمہ کہتے ہیں کہ میں نے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے کہا: کیا آپ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو حروریہ ۱؎ (خوارج) کے بارے میں کچھ ذکر کرتے ہوئے سنا ہے؟ انہوں نے کہا: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک ایسی قوم کا ذکر کرتے ہوئے سنا ہے جو بڑی عبادت گزار ہو گی، اس کی نماز کے مقابلہ میں تم میں سے ہر ایک شخص اپنی نماز کو کمتر اور حقیر سمجھے گا ۲؎، وہ دین سے ایسے ہی نکل جائیں گے جس طرح تیر شکار کے جسم سے نکل جاتا ہے کہ تیر انداز اپنا تیر لے کر اس کا پھل دیکھتا ہے، تو اسے (خون وغیرہ) کچھ بھی نظر نہیں آتا، پھر اس کے پھل کو دیکھتا ہے تو بھی کچھ نظر نہیں آت۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 169]
اردو حاشہ:
(1)
خوارج، نماز روزہ وغیرہ نیک اعمال میں بہت محنت کرتے تھے حتی کہ صحابہ بھی دیکھیں تو تعجب کریں۔
لیکن عقیدے کی خرابی کے ساتھ نیک عمل میں جتنی بھی محنت کی جائے، کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔
(2)
اس حدیث میں تیر کے مختلف حصوں کا ذکر کیا گیا ہے۔
نَصْل (پھل)
تیر کے اس حصے کو کہتے ہیں جو لوہے کا بنا ہوتا ہے اور تیز دھار ہونے کی وجہ سے زخمی کرتا ہے۔
رِصَاف وہ پٹھے جو تیر میں وہاں ہوتے ہیں جہاں لوہے کا پھل لکڑی سے ملتا ہے۔
قَدْح:
تیر کی وہ لمبی لکڑی جس کے سرے پر نصل لگایا جاتا ہے۔
قُذَذ:
اُن پروں کو کہتے ہیں جو تیر کے پچھلے حصے میں ہوتے ہیں۔
مطلب یہ ہے کہ تیر کے کسی حصے میں شکار شدہ جانور کا خون یا گوشت کا ٹکڑا تک نہیں لگا بلکہ تیر اسے لگ کر اتنی تیزی سے پار ہو گیا کہ بالکل صاف نکل گیا۔
اسی طرح یہ لوگ اسلام میں داخل ہوئے اور سیدھے باہر نکل گئے۔
اسلام کی دینی اور اخلاقی تعلیمات کا کچھ اثر قبول نہیں کیا۔
(3)
اگرچہ خوارج کی گمراہی واضح ہے اور صحیح اسلام سے ان کا کوئی تعلق نہیں، اسی لیے محدثین کا ایک گروہ ان کے کافر ہونے کا قائل ہے، تاہم علماء کی اکثریت نے اس کے باوجود انہیں مرتد یا غیر مسلم قرار نہیں دیا بلکہ گمراہ اور باغی ہی فرمایا ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 169
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2451
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے: کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ یمن سے مٹی میں ملا ہوا کچھ سونا بھیجا یعنی غیر صاف شدہ سونا، رول اللہ ﷺ کے پاس بھیجا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے چار اشخاص میں تقسیم فرما دیا: یعنی اقرع بن حابس حنظلی،عینیہ بن بدر فزاری،علقمہ بن علاثہ عامری رضی اللہ تعالیٰ عنہم (جو بنو کلاب کا ایک فرد ہے) اور زید الخیر طائی جو بنو نبھان سے ہے، کو دے دیا۔ اس پر قریش ناراض ہو گئے اور کہنےلگے: کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نجدی... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:2451]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
زَیدُ الخَیر:
کو جاہلیت کے دور میں زید الخیل کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔
کیونکہ وہ گھوڑوں کے شوقین تھے۔
(2)
صَنَادِيدَ:
صديد کی جمع ہے سردار،
چوہدری،
وڈیرا۔
(3)
كَثُّ اللِّحْيَةِ:
گھنی داڑھی والا۔
(4)
مُشْرِفُ الْوَجْنَتَيْنِ:
مشرف،
بلند،
ابھرا ہوا۔
(5)
وجنة:
رخسار کا بلند گوشت۔
(6)
غائر:
اندر کو دھنسا ہوا۔
(7)
ناتي الجبين:
ناتی بلند،
اونچا،
جبین،
کن پٹی،
مراد جبهة،
پیشانی والا حصہ ہے۔
(8)
ضِئْضِئِ:
نسل،
اصل،
عنصر۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2451
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2452
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ بیان کرتے ہیں: کہ حضرت علی بن ابی طالب نے یمن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رنگے ہوئے چمڑے میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں کچھ سونا بھیجا جسے مٹی سے الگ نہیں کیا گیا تھا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے چار افراد: عینیہ بن حصن، اقرع بن حابس، زید الخیل اور چوتھا علقمہ بن علاثہ ہے یا عامر بن طفیل کے درمیان تقسیم کر دیا۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں میں سے ایک آدمی نے کہا: ان سے ہم ا سکے زیادہ... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:2452]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
أَدِيمٍ مَقْرُوظٍ:
کیکر کی چھال یا اس کے تکوں سے رنگا ہوا چمڑا۔
(2)
لَمْ تُحَصَّلْ:
اس کو حاصل نہیں کیا گیا تھا یا الگ اور ممتاز نہیں کیا گیا تھا۔
(3)
نَاشِزُ الْجَبْهَةِ:
بلند اور اونچی پیشانی والا۔
(4)
أَنْقُبَ عَنْ قُلُوبِ النَّاسِ:
لوگوں کے دل چیز کر ان کے دل کی بات معلوم کروں۔
یعنی میں ظاہر کا پابند ہوں،
سریرہ اور باطن کا محاسبہ اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔
(5)
مُقَفٍّ:
قفا یعنی گدی پچھلی طرف کر کے جانے والا۔
(6)
رَطْبًا:
تازہ کو کہتے ہیں لیکن اس سے مقصود آسانی اور سہولت کے ساتھ پڑھنا ہے جیسا کہ اگلی روایت میں ہے۔
(7)
لينا رطبا:
ہمیشہ پڑھنے کی وجہ سے آسانی و سہولت پیدا ہو جاتی ہے۔
فوائد ومسائل:
1۔
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث میں واقعہ 8 ہجری جعرانہ کے مقام پر پیش آیا۔
جب کہ آپ نے مختلف لوگوں میں چاندی تقسیم کی اور ابوسعیدخدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں یہ واقعہ 9 ہجری کا ہے۔
جبکہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے غیرصاف شدہ سونا بھیجا اور آپﷺ نےتالیف قلبی کی خاطر چار نجدی سرداروں میں اسے تقسیم کر دیا۔
اور بقول محمد بن اسحاق امام سیرت ومغازی دونوں جگہ گستاخی کا مرتکب اور آپ کو نشانہ تنقید بنانے والا ذوالخویصرۃ مرقوص بن زہیر تمیمی ہے۔
2۔
اس کے قتل کی اجازت پہلے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نےطلب کی تھی اور پھر حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جیسا کہ اگلی روایت میں اس کی صراحت موجود ہے۔
اور اس کے قتل کی اجازت نہ دینے کی وجہ وہی ہے کہ ابھی اس کی نسل کا ظہور نہیں ہوا تھا۔
نیز یہ نام نہاد مسلمان تھا اور نماز پڑھتا تھا۔
اس کے قتل کے نتیجے میں آپ کے خلاف غلط پروپیگنڈا ہو سکتا تھا۔
جس سے ابھی دینی اور سیاسی طور پر بچنے کی ضرورت تھی لیکن اب اگر کوئی بدبخت آپﷺ کو گالی دے یا توہین وتنقیص کے کلمات کہے۔
تو وہ ائمہ اربعہ کے نزدیک واجب القتل ہے۔
اور اس کی توبہ کی قبولیت کے بارے میں بھی اختلاف ہے۔
3۔
خوارج نے جب تک مسلمانوں سے جنگ نہیں کی۔
ان کو قتل نہیں کیا گیا۔
لیکن جب انہوں نے مسلمانوں کے خلاف تلواراٹھائی تو انہیں سب سے پہلے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ٹھکانے لگایا جیسا کہ آگے آ رہا ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2452
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2455
ابو سلمہ اور عطاء بن یسار حضرت ابو سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے حرویہ کے بارے میں پوچھا؟ کیا آپ نے ان کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے؟ انھوں نے کہا حرویہ کا تو مجھے پتہ نہیں ہے لیکن میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: اس امت میں (في كہا منها نہیں کہا) ایک قوم نکلے گی۔ تم اپنی نمازوں کو ان کے مقابلہ میں ہیچ سمجھو گے۔ وہ قرآن پڑھیں گے وہ ان کے حلق یا گلے سے نیچے نہیں... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:2455]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
سهم:
تیر کی لکڑی،
رصاف،
پٹھا جو چھڑ میں تیر کے پھل کے داخل ہونے کی جگہ سے اوپر لگایا جاتا ہے۔
تیر کی باڑہ۔
(2)
نصل:
تیر کا پھل۔
(3)
فوقه:
سوفار،
تیر کی نوک۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2455
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2456
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں: کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرتھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ مال تقسیم فرما رہے تھے کہ آپﷺ کے پاس بنو تمیم کا ایک فرد ذوالخویصرہ آیا، اور کہنے لگا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! انصاف کیجئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تجھ پر افسوس! اگر میں عدل نہیں کرتا تو عدل کون کرے گا؟ اگر میں عدل نہیں کر رہا تو میں ناکامی اور گھاٹے کا شکار ہو گیا“ تو حضرت عمر بن خطاب رضی... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:2456]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
نضي:
تیر کی لکڑی۔
(2)
قدد:
قدة کی جمع ہے،
تیر کا پر۔
(3)
تددر:
حرکت کرتا ہے ہلتا جلتا ہے۔
فوائد ومسائل:
حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس روایت میں جن جن چیزوں کے بارے میں پیشن گوئی فرمائی،
ان کا ظہور اسی طرح ہوا،
ان لوگوں نے واقعہ تحکیم کے وقت خروج کیا،
مسلمانوں سے الگ ہوگئے،
حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ دونوں کو کافر قراردیا،
حروراء نامی عراق کی بستی جوکوفہ کے قریب تھی میں ان کا اجتماع ہوا اس لیے ان کو حروریہ کا نام بھی دیا گیا۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول (يَخْرُجُونَ)
کی وجہ سےخارجی کہا گیا اور(يَمْرُقُونَ)
کی بنا پر مارقہ کہا گیا،
لمبی لمبی مسلمان امیر وحاکم کی اطاعت سے بالکل کورے تھے۔
قرآنی ہدایات وتعلیمات کا اثر نہ ہونے کی بنا پر مسلمانوں کے خلاف ہی اٹھ کھڑےہوئے اور سب سے پہلے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کا مقابلہ کیا۔
اور نشان زدہ آدمی بھی انہیں ہی ملا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2456
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3610
3610. حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ ایک دفعہ ہم رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر تھے جبکہ آپ مال غنیمت تقسیم کرنے میں مصروف تھے۔ اس دوران میں آپ کے پاس ذوالخویصرنامی ایک شخص آیا جو قبیلہ بنی تمیم سے تھا۔ اس نے آتے ہی کہا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ! آپ انصاف سے کام لیں۔ (یہ سن کر) آپ ﷺ نے فرمایا: ”تیری ہلاکت ہو!اگر میں ہی انصاف نہ کروں تو پھر کون انصاف کرے گا؟اگر میں ظالم ہو جاؤں تو ناکام اور خسارے میں رہ گیا۔“ حضرت عمر ؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ! اس کے متعلق مجھے اجازت دیں، میں اس کی گردن تن سے جدا کردوں۔ آپ نے فرمایا: ”اس سے صرف نظر کرو۔ اس شخص کے ساتھی ہوں گے کہ تم میں سے ہر ایک اپنی نماز کو ان کی نماز کے مقابلے میں حقیر خیال کرے گااور اپنے روزے ان کے روزوں کے مقابلے میں ناچیز سمجھےگا۔ وہ قرآن کی تلاوت کریں گے لیکن قرآن ان کے حلق سے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3610]
حدیث حاشیہ:
یعنی جس طرح ایک تیر کمان سے نکلنے کے بعد شکار کو چھید تا ہوا گزر جانے پر بھی بالکل صاف شفاف نظر آتا ہے حالانکہ اس سے شکار زخمی ہوکر خاک وخون میں تڑپ رہا ہے، چونکہ نہایت تیزی کے ساتھ اس نے اپنا فاصلہ طے کیا ہے اس لیے خون وغیرہ کا کوئی اثر اس کے کسی حصے پر دکھائی نہیں دیتا۔
اسی طرح یہ لوگ بھی دین سے بہت دور ہوں گے لیکن بظاہر بے دینی کے اثرات ان میں کہیں نظر نہ آئیں گے۔
یہ مردود خارجی تھے جو حضرت علی ؓ اور مسلمانوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔
ظاہر میں اہل کوفہ کی طرح بڑے نمازی پرہیز گار، ادنیٰ ادنیٰ بات پر مسلمانوں کو کافر بنانا ان کے بائیں ہاتھ کا کرتب تھا۔
حضرت علی ؓ نے ان مردودوں کو مارا، ان میں کا ایک زندہ نہ چھوڑا۔
معلوم ہوا کہ قرآن کو زبان سے رٹنا۔
مطالب ومعانی میں غور نہ کرنا یہ خارجیوں کا شیوہ ہے اور آیات قرآنیہ کا بے محل استعمال کرنا بھی بدترین حرکت ہے۔
اللہ کی پناہ۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3610
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5058
5058. سیدنا ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ نے فرمایا: تم میں ایک ایسی قوم پیدا ہوگی کہ تم اپنی نماز کو ان کی نماز کے مقابلے میں حقیر خیال کرو گے۔ تمھیں اپنے روزے ان کے رزوں کے مقابلے میں اپنے اعمال ان کے اعمال کے مقابلے میں معمولی نظر آئیں گے۔ وہ قرآن مجید کی تلاوت کریں گے لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار کو پار کرتے ہوئے نکل جاتا ہے شکاری اس کے پیکان کو دیکھتا ہے تو اس میں کچھ نہیں دیکھتا۔ وہ تیر کی لکڑی پر نظر کرتا ہے تو وہاں کچھ نہیں پاتا۔ وہ تیر کے پر کو دیکھتا ہے تو کوئی چیز نہیں دکھائی نہیں دیتی۔ اس کے سوفار (چٹکی) میں شک کرتا ہے کہ شاید اس میں کوئی چیز ہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5058]
حدیث حاشیہ:
سوفار تیر کا وہ مقام جو چلہ سے لگایا جاتا ہے بعضوں نے یوں ترجمہ کیا ہے راوی کو شک ہے کہ آپ نے سوفار کا ذکر کیا یا نہیں۔
معنی حدیث کا خلاصہ یہ ہے کہ جس طرح تیر شکار کو لگتے ہی باہر نکل جاتا ہے۔
وہی حال ان لوگوں کا ہوگا کہ اسلام میں آتے ہی باہر ہو جائیں گے اور جس طرح تیر شکار کے خون وغیرہ کا بھی کوئی اثر محسوس نہیں ہوتا وہی حال ان کی تلاوت کا ہوگا۔
مراد ان سے خوارج ہیں جنہوں نے خلیفہ برحق حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف علم بغاوت بلند کیا تھا۔
ظاہر میں بڑی دینداری کا دم بھر تے تھے لیکن دل میں ذرا بھی نور ایمان نہ تھا۔
ان ہی کے بارے میں حدیث ہذا میں یہ مضمون بیان ہوا۔
آج کل بھی ایسے لوگ بہت ہیں جو بے محل آیات قرآنی کا استعمال کر کے امت کے مسلمہ مسائل کے خلاف لب کشائی کرتے ہیں۔
وہ در حقیقت اس حدیث کے مصداق ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5058
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6163
6163. حضرت ابو خدری ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ایک دن نبی ﷺ کچھ تقسیم کر رہے تھے کہ بنو تمیم کے ایک شخص ذو الخو یصرہ نے کہا: اللہ کے رسول! آپ عدل وانصاف کریں۔ آپ نے فرمایا: ”افسوس تجھ ہر! اگر میں ہی انصاف نہیں کروں گا تو پھر کون کرے گا؟“ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے عرض کی: آپ مجھے اجازت دیں تو میں اس کی گردن اڑا دوں۔ آپ نے فرمایا: ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہیئے، اس کے کچھ ساتھی ہوں گے تم ان کی نماز کے مقابلے میں اپنے روزوں خو حقیر سمجھو گے۔ وہ دین سے اس طرح نکل چکے ہوں گے جس طرح تیر شکار سے نکل جاتا ہے تیر کے پھل کو دیکھا جائےتو اس پر کوئی نشان نہیں ملے گا اس کی لکڑی کو دیکھا جائے توا س میں بھی کچھ نہیں ملے گا، پھر اس کے پر کو دیکھا جائے تو اس پر بھی کوئی نشان نہیں ملے گا، حالانکہ وہ تیر شکار کے خون اور غلاظت سے گزر کر باہر آیا ہے۔ یہ لوگ اس۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6163]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عبادت اور تقویٰ اورزہد کچھ کام نہیں آتا جب تک اللہ اور اس کے رسول اور اہل بیت سے محبت نہ رکھے۔
محبت رسول آپ کی سنت پر عمل کرنے سے حاصل ہوتی ہے۔
۔
لوگ اہل دنیا کچھ بھی کہیں مگر حدیث شریف نہ چھوٹے ہر وقت حدیث سے تعلق رہے۔
سفر ہو یا حضر، صبح ہو یا شام حدیث کا مطالعہ حدیث پر عمل کرنے کا شوق غالب رہے، حدیث کی کتاب سے محبت رہے۔
حدیث پر چلنے والوں سے الفت رہے۔
حدیث کو شائع کرنے والوں سے محبت کا شیوہ رہے۔
زندگی حدیث پر، موت حدیث پر، ہر وقت بغل میں حدیث یہی تمغہ رہے۔
یا اللہ! ہمارے پاس کوئی نیک عمل نہیں ہے جو تیری درگاہ میں پیش کرنے کے قابل ہو۔
یہی قرآن پاک ثنائی کی خدمت اور صحیح بخاری کا ترجمہ ہمارے پاس ہے اور تیرے فضل سے بخاری کے ساتھ صحیح مسلم کی خدمت بھی ہے جو تیرے پاس لے کر آئیں گے۔
تو ہی یا اللہ رحیم کریم اور قبول کرنے والا ہے۔
(راز)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6163
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7562
7562. سیدنا ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: کچھ لوگ مشرق کی طرف سے رون ہوں گے۔ وہ قرآن پڑھیں گے لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ یہ لوگ دیں سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر شکار سے نکل جاتا ہے۔ پھر وہ وآپس دین میں نہیں لوٹیں گے یہاں تک کہ تیر اپنی جگہ پر واپس آجائے۔ پوچھا گیا: ان کی علامت کیا ہوگی؟ آپ نے فرمایا: ان کی علامت سرمنڈوانا ہے، یا فرمایا: ”بالوں کو جڑ سے نیست ونابود کرنا ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7562]
حدیث حاشیہ:
عراق مدینہ سےمشرق کی طرف ہےوہاں سےخارجی نکلے جنہوں نے حضرت علی اور حضرت عثمان کےخلاف بغاوت کی۔
حدیث قرن الشیطان والی اصلی معنوں میں:
جن لوگوں کو رسو ل اللہ ﷺکی حدیث کے سمجھنے کا ملکہ ہے اورجو حدیث شریف کےنکات ودقائق اور رموز سےکما حقہ، واقف اورآشنا ہیں وہ جانتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا کلام پاک پر مغز اورمختصر ہے کیونکہ خیر الکلام ما قل دل کلام کی خوبی یہی ہے کہ مختصر ہو لیکن مکمل اور پرازمطالب ہو۔
اس اصول کی مدنظر رکھ کر اب احادیث ذیل پرغور کرنے سے حقیقت امر ظاہر ہوجائے گی اور طالبان حق پر یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجائے گی کہ رسول اللہﷺ نےمشرق کی جانب رخ فرماتے ہوئے جس فتنہ اورجس شر اورزلزلہ کے خطرات سے ہمیں اطلا ع دی دراصل اس اشارہ کا مشاالیہ عراق اور ہندوستان ہے۔
کیونکہ عراق تو فتنوں اور شرارتوں کی وجہ سے وہ نام پیدا کر چکا ہے کہ شاید ہی دنیائے اسلام کےممالک میں کوئی ایسا بدترین فتنہ خیز ملک ہو۔
اسی لیے رسول اللہﷺ نےبصرہ کے ذکر پرفرمایا کہ بِهَا خَسْفٌ وَقَذْفٌ وَرَجْفٌ وَقَوْمٌ يَبِيتُونَ يُصْبِحُونَ قِرَدَةً وَخَنَازِيرَ (ابوداؤد)
یعنی یہاں کے لوگ ایسے شریراور بداعمال ہوں گے اور ایسے متلون المزاج، بزدل اور ڈھل مل یقین اور ناقابل اعتماد ہوں گے کہ رات کو کچھ خیالات لے کر سوئیں گے اور دن کو کچھ اور ہی بن کر اٹھیں گے، بندراورسور ہوں گے۔
یا تو عادات میں دیوث، بےغیرت اورمکار، یا شکل وشباہت میں۔
اور یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نےعراق کے لیے دعا نہ فرمائی حالانکہ آپ کو باربار توجہ بھی دلائی گئی کہ حضور! ہماری وہاں سے بہت سی حاجتیں اورضرورتیں ہیں۔
بلکہ اس کےجواب میں آنحضرت ﷺ نےاس ملک کی غداری وفتن پروری کے متعلق کھری کھری باتیں فرما دیں۔
چنانچہ حدیث شریف میں ہے۔
عن الحسن قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم اللهم بارك لنا في مدينتنا -اللهم بَارِك لنَا في شامِنَا-اللهم بَارِك لنَا في يمنِنا -فقال رجل يارسول الله! فاالعراق فإن فيها ميرتنا وفيها حاجاتنا فسكت ثم أَعادَ عليهِ فسكتَ فقال بها يطلعُ قرنُ الشيطانِ وهناك الزلازلُ والفتنُ (كنزل العمال، جلد:
هفتم/ ص: 16)
حضرت حسن بصری راوی ہیں کہ رسو ل اللہ ﷺ نےمدینہ اورشام ویمن کے لیے دعائے برکت فرمائی تو ایک صحابی دست بستہ عرض کرنے لگا۔
حضور ﷺ عراق کےلیے بھی دعا فرمائیے کیونکہ وہ ملک ہمارے پڑوس ہی میں ہےاور ہم وہاں سے غلہ لاتے ہیں اور تجارت وغیرہ اوربہت سے ہمارے کاروبار اس ملک سے رہتے ہیں تو آپﷺ خاموش رہے۔
جب اس شخص نےبااصرار عرض کیا توحضور ﷺنےاس کے جواب میں فرمایا کہ اس ملک سے شیطان کا سینگ طلوع ہوگا اور فتنے اور فساد ایسے ہوں گے جن سے امت مرحومہ کےافراد میں ایک زلزلہ ساپیدا ہو جائے گا توچونکہ رسول اللہ ﷺ نے صاف طورپر صحابہ کے ذہن نشین کرا دیا تھا کہ عراق ہی منشاء فتن اورباعث فساد فی الامت ہوگا اس لیے یہی وجہ ہے کہ وہ (صحابہ)
اور ان کےبعد والے لوگ اورشارحین حدیث جو اپنی وسیع النظری اورتبحرعلمی اور معلومات کی بنا پر نجد والی حدیث کا اصلی مطلب سمجھ کرعوام کے سامنے پیش کرتے رہے اورانہوں نے ”نجد“ ملک عراق کو قرار دیا۔
جو دراصل ہے بھی۔
میں حیران ہوں کہ آج کل کے لوگ کس قدر تنگ خیال اورمتعصب واقع ہوئے ہیں کہ ذرا سےاختلاف پر رافضیوں کی سی تبرا بازی پراتر آتے ہیں اوراپنی اصلیت سے بے خبر ہوکر مومنین قاتین وصالحین پرلعنتیں بھیجنا شروع کر دیتے ہیں حالانکہ انہی کا ہم خیال شیخ دحلان اپنی کتاب کے ص 35پرلکھتا ہے۔
”ایسے امر کےسبب سے جس کا ثبوت براہین سے ہے اہل اسلام کی تکفیر پراقدام کیسے ہو سکتا ہے۔
(تو پھر کیوں کرتے ہو۔
آہ يقولونَ بأفواههِم ماليس في قُلوبِهِم)
حدیث صحیح میں ہے کہ جو شخص اپنے مسلمان بھائی کو کافر کہہ کر پکارے گا تو ان میں سے ایک پر یہ لوٹے گی۔
اگر وہ ایسا ہے جب تو اس پر پڑے گی ورنہ کہنے والے پر۔
اس بارے میں احتیاط واجب ہے۔
اہل قبلہ میں سے کسی پر حکم کفر ایسے ہی امر کے باعث کیا جاے جو واضح اور قاطع ہو (الدرراالسنیة في رد الوهابیة، اردو، ص: 36)
میں متعجب ہوں کہ اتنی بین صراحت کے ہوتے ہوئے پھر یہ لوگ کیوں ”نجدہائے،، پکارتے ہوئے شیخ محمدبن عبدالوہاب � اور ان کے جانشینوں کو کوس رہے ہیں۔
ملاحظہ ہوکہ جو نجد فتنوں کا باعث ہے حقیقت میں وہ عراق ہی ہے اورجومشرق ہے وہ ہندوستان میں ”دارالتکفیر،، بریلی ہے۔
کنز العمال میں ”أماکن مذمومة،، کے تحت میں آتا ہے۔
مسند عمر ابى مجاز قال أرادَ عمرُ أن لا يدعَ مصرا من الأَمصارِ إلا أتاه فقال له كعب لاتأتي العراقَ فإن فيه تسعة أعشار الشر(كنز العمال)
یعنی حضرت عمر نےاپنے عہد حکومت میں تمام ممالک محروسہ کادورہ کرنےکا ارادہ ظاہر فرمایا تو حضرت کعب نےعرض کیاکہ آپ ہرجگہ جائیں لیکن عراق کی طرف نہ جائیں کیونکہ وہاں تونوحصے برائی اور شر موجود ہے۔
،، (2)
عن أبي إدريسَ قال قدم علينا عمر بن الخطاب الشامَ فقال إِني أُريدُ أن آتي العراقَ فقال له كعب الأحبارُ أُعيذُك بالله يا أميرَ المؤمنين من ذلك قال وماتكره من ذلك قال بها تسعة أعشار الشر وكل داء عضال و عصاة الجن وهاروت وماروت وبها ياخل ابليس دفرخ- ابوادریس کہتے ہیں کہ حضرت عمر جب شام میں تشریف فرما ہوئے تو آپ نے وہاں سے پھر عراق جانے کا ارادہ ظاہرفرمایا تو حضرت کعب احبار نےعرض کیا، یا امیرالمؤمنین! خدا کی پناہ وہاں جانے کا خیال تک نہ فرمائیں۔
حضرت عمر نے براہ استعجاب اس مخالفت اور کراہت عراق کا سبب پوچھا تو حضرت کعب نے جواب میں عرض کیا کہ حضور وہاں تو نو حصے شراور فساد ہے۔
سخت سخت بیماریاں اورسرکش اورگمراہ کن جن، ہاروت وماروت ہیں اور وہی شیطان کا مرکز ہےاوراسی جگہ اس نے انڈے بچے دے رکھے ہیں۔
،، اللہ اللہ کس قدر پر مغز کلام ہےجوکھلے کھلے اورصاف الفاظ میں رسول اللہ ﷺ کےارشاد ”بها يطلع قرن الشيطان وهناك الزلازل والفتن،، کی صاف صاف صراحت کر رہے ہیں۔
اگر خودعلم نہیں تھا توکسی اہل علم ہی سےاس حدیث کی تشریح اورمطلب پوچھ لیتے، ماشاءاللہ پنجاب اورہندوستان میں ہزاروں علماء اہل حدیث موجود ہیں۔
كثرالله سوادهم وعم فيوضم)
اورپھر اس کوتاہ نظری پرفخر کرتے ہوئے یہ لوگ شارحین حدیث رحمہم اللہ تعالیٰ اجمعین پرلے دے کرتے اور ان پراعترراضات کرتے اور آوازے کستے ہیں۔
اب ان تصریحات کے ہوتے ہوئے پھر نجد ہی کو قرن الشیطان کا مطلع رٹے جانا کون سا انصاف اور کہاں کی عقل مندی ہے جب کہ مطالعہ حدیث سے یہ صاف صاف علم ہوچکا ہے کہ فتنہ اور شر قرن الشیطان عراق ہی سے طلوع ہوں گے جہاں بصرہ بغداد اور کوفہ وغیرہ شہر ہیں۔
قابل غوربات:
یہ ہےکہ ایک طرف تورسول اللہﷺ نجد کےلوگوں یعنی بنوتمیم کی تعریف وتوصیف فرماتے ہیں اوران کوغیور مجاہدین اورعقلمندکاخطاب دے رہےہیں۔
مسند ابى هريرة ذكرت القبائل عندرسول الله صلى الله عليه وسلم فقالوا يا رسول الله فما تقول فى تميم قال(صلى الله عليه وسلم)
يابى الله التميم إلا خيرا –البت الأقدام عظام الهام رجع الأحلام هفبته حمراء لا يضر من ناواها أشد الناس على الدجال آخرالزمان (رجال ثقات)
كنز العمال،ج 6 / ص 144)
” یعنی رسول اللہ کے سامنے قبائل عرب کا ذکر ہو رہا تھا پہلے ہوازن اوربنو عامرکا تذکرہ آیا پھرلوگوں نے نبی تمیم کےمتعلق استفسار کیا توحضو ر ﷺ نےالفاظ ذیل میں ان کی تعریف وتکریم ظاہر فرمائی کہ اللہ تعالیٰ نے بہتری کو اس قوم کے لیےواجب کر دیا (اللہ اللہ)
یہ لوگ (یعنی نجدی)
غیرمتزلزل طبائع کےمالک، بڑے سروالے عقل مند باتدبیر مکمل سیاست واں اورسرخ نیلہ والے ہیں۔
کوئی طاقت خواہ کتنی ہی چیخ پکار کرے اوران کے برخلاف ہرچند پروپیگنڈا پھیلائے ان کا بال بھی بیکا نہیں کر سکےگی۔
ہاں وہ اخیر زمانہ کے دجال پرجولوگ ان کے برخلاف نہایت متعصب اورضدی بداخلاق ہوں گے اورجھگڑالو اسلام کے دشمن اور فتن دوز ہوں گے نہایت سختی سےشعائر اسلام کی پابندی کرتے ہوئے باوجود ہزاروں دھکمیوں اور گیدڑ بھبھکیوں کےغالب رہیں گے۔
وظھر أمراللہ و ھم کارھون۔
یعنی اخیر زمانہ میں دجال کےمقاتل کےمقابل بڑے مضبوط اورنہ ڈرنے والے لوگ ہوں گے۔
ولا یخافون لومۃ لائم۔
،، غور فرمائیے کہ اخیر زمانہ میں جب کہ حقیقی اسلام کی تعلیم دنیا میں بہت کم ہوگی،جہل وباطل، کفر شرک، پیرپرستی اورقبہ پرستی عام ہوگی۔
قدم قدم پرایک آدمی لغزش کھائے گا۔
یصبح مومنا ویمسی کافرا اور وہ زمانہ ہوگا جس کےمتلق رسول اللہ ﷺنے فرمایا۔
من تَمسكَ بسنتي عندَ فسادِ أمتي فله أجرُ مائةِ شهيد – یعنی ” اس وقت جوسنت رسول اللہ ﷺ پرعمل پیرا ہوں گے ان میں ہر ایک درجہ میں سو شہید کے برابر ہوگا،، غورکریں کہ ایسے زمانہ مین جن لوگوں کی رسول اللہ ﷺ تعریف فرمائیں کہ اخیرزمانہ میں دجال پر بہت سخت ہوں گے۔
بھلا اللہ کے ہاں ان کی کہاں تک قدر ہوگی اوروہ کس عالی رتبہ کے لوگ ہوں گے۔
یہ امر مختاج بیان نہیں ہے اور ہر ایک مخالف اس بات کا قائل ہے کہ موجودہ اہل نجد اور مجدد اسلام شیخ محمدبن عبدالوہاب نوراللہ مرقدہ بنی تمیم ہی سے ہیں۔
اور اب موجودہ سلطان أیدہ اللہ بنصرہ اور ان کی قوم نجدی بھی بنی تمیم ہی سے ہیں ان کا زبردست معاند دحلان لکھتا ہے کہ ”یہ بات صراحت سے معلوم ہو چکی ہے کہ یہ مغرور (یعنی محمد بن عبدالوہاب �)
تمیم سے ہے۔
،، اور سید علوی جلاء الظلام میں لکھتا ہے۔
” یہ مفرور محمدبن عبدالوہاب قبیلہ بنی تمیم سے ہے۔
نیز مولوی قطب الدین فرنگی محل لکھؤ والے بھی اپنے رسالہ ” آشوب نجد،، میں تسلیم کرتے ہیں کہ ”شیخ محمدبن عبدالوہاب أناراللہ برهانه قبیلہ بنی تمیم میں سے ہیں،، اس کے علاوہ تاریخی طور پربھی یہ بات روز روشن کی طرح ظاہر ہےکہ نجدی قوم بنی تمیم میں سے ہے۔
ان حالات کے بعد غور فرمائیے کہ حدیث میں اس قوم کورسول اللہ ﷺ نے کس بلند پایہ کی قوم فرمایا کہ:
عن أبي هريرة قال مازالت أُحبُ بنى تميم منذثلاث سمعتُ رسولَ الله صلى الله عليه وسلم يقول هم أَشد أمتي على الدجالِ وقال وجاءت صدقاتهم فقال هذه صدقات قومنا وكانت سبية منهم عند عائشة فقال أعتقيها فإنها من ولدِ إسمعيلَ (بخاری احمد ی، ص،445)
” ابوہریرہ جیسے جلیل القدر صحابی فرماتےہیں کہ بھائی میں تو نبی تمیم کوپڑا عزیز رکھتا ہوں۔
اس کی وجوہات ذیل ہیں۔
(1)
رسول اللہ ﷺ نے ان کےحق میں فرمایا کہ یہ لوگ میرے تمام امت سےدجال پرسخت ہوں گے۔
(2)
جب بنو تمیم کی زکوۃ کا مال جمع ہوکر آیا توحضور ﷺ نےفرمایا کہ آج ہماری کےصدقات آئے ہیں۔
(3)
یہ لوگ (نجدی)
اولاد اسماعیل میں سے ہیں۔
ثبوت یہ ہےکہ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کے پاس ایک نجد ی لونڈی تھی۔
رسول اللہ ﷺ کوجب علم ہوا آپ نےفرمایا اے عائشہ! اسے آزاد کر دے کیونکہ یہ اوالاد اسماعیل سےہے۔
،، اب غور فرمائیں کہ ایک طرف تو آنحضور ﷺ نے نجدیوں کو اولاد اسماعیل سےفرمایا۔
پکے مسلمان، عقل مند، مدبر اور باسیات کا خطاب دیا۔
وہاں کےلوگوں کوجنت کی بشارت دی۔
جاء رجل إلى رسو لِ الله عليه وسلم من أهل نجد فإذا هو يسئلُ عن الإسلامِ فقال صلى الله عليه وسلم من سره أن ينظرَ إلى رجل من أهلِ الجنةِ فلينظُر إلى هذا یعنی ایک نجدی نےرسول اللہ ﷺ سے چند سوالات کئے اور ان کے جوابات تسلی بخش پا کر جا رہا تھا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص جنتی آدمی کو دیکھ کر خوش ہونا چاہے وہ اس نجدی کو دیکھ لے۔
کیا یہ ہو سکتا ہےکہ اسی زبان سے رسول اللہ ﷺ اس قوم کی مذمت فرمائیں اور اس قوم کو قرن الشیطان سے تعبیر فرمائیں اور ان کے لیے دعا نہ فرمائیں (خدا را انصاف)
کہ ان رسمی حنفیوں بریلویوں، رضائیوں، دیداریوں اورجماعتیوں (ھداھم اللہ إلی صراط مستقیم)
نے رسو ل اللہ ﷺ کی یہی عزت اوریہی قدر کی کہ پبلک کےسامنے عیاں کر دیا کہ ہاں رسو ل اللہ ﷺ (معاذ اللہ)
ایک طرف تو ایک شخص کی منہ پر تعریف فرماتے تھے اور جب وہ چاہتا پھر مذمت اور اس کے لیے بددعا۔
آہ ثم آہ۔
فما لهؤلاء القوم لايكادون يفقهون حديثا۔
(انصاف۔
انصاف)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7562
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4667
4667. حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ کے پاس کچھ مال آیا تو آپ نے اسے چار آدمیوں کے درمیان تقسیم کر دیا اور فرمایا: ”میں یہ مال دے کر ان کی دلجوئی کرنا چاہتا ہوں۔“ اس پر ایک شخص بولا: آپ نے انصاف سے کام نہیں لیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اس شخص کی نسل سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو دین سے باہر ہو جائیں گے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4667]
حدیث حاشیہ:
دو چار آدمی زرعہ اور عیینہ اور زید اور علقمہ تھے۔
یہ مال حضرت علی ؓ نے سونے کے ڈلے کی شکل میں بھیجا تھا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4667
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6931
6931. حضرت ابو سلمہ بن عبدالرحمن اور عطاء بن یسار سے روایت ہے وہ دونوں حضرت ابو سعید خدری ؓ کے پاس آئے اور ان سے حرویہ (خوارج) کے متعلق سوال کیا کہ تم نے ان سے متعلق نبی ﷺ سے کچھ سنا ہے؟ انہوں نے فرمایا: حروریہ کے متعلق تو میں کچھ نہیں جانتا کہ وہ کون ہیں۔ البتہ میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: اس امت میں ایک قوم ظاہر ہوگی۔ یہ نہیں فرمایا کہ اس امت سے ظاہر ہوگی۔ تم اپنی نماز كو ان نماز کے مقابلے میں بہت حقیر خیال کرو گے۔ وہ قرآن کی تلاوت بھی خوب کریں گے لیکن قرآن ان کے حلق یا گلے سے نیچے نہیں اترے گا۔ وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے پار نکل جاتا ہے تیر انداز اپنے تیر کو دیکھتا ہے اس کے پھل کو دیکھتا ہے اس کے پروں کو دیکھتا ہے، اس کی جڑ کو دیکھتا ہے، اس کو شک ہوتا ہے کہ شاید اس پر کچھ خون لگا ہو؟ (مگر وہ بھی صاف ہوتا ہے)۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6931]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے صاف نکلتا ہے کہ خارجی لوگوں میں ذرا بھی ایمان نہیں ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6931
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7432
7432. سیدنا ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ کو کچھ سونا بھیجا گیا تو آپ نے وہ چار آدمیوں میں تقسیم کر دیا۔ ایک دوسری سند سے سیدنا ابو سعید خدری بیان کرتے ہیں کہ سیدنا علی ؓ جب یمن میں تھے تو انہوں نے نبی ﷺ کو کچھ سونا بھیجا جو مٹی سے جدا نہ تھا۔ آپ ﷺ نے اسے اقرع بن حابس حنظلی مجاشعی، عیینہ بن بدر فزاری، علقمہ بن علاثہ عامری کلابی اور بنو نبھان کے زید الخیل طائی کے درمیان تقسیم کر دیا۔ اس پر قریش اور انصار کو غصہ آیا تو انہوں نے کہا: آپ ﷺ رؤسائے نجد کو تو مال دیتے ہیں اور ہمیں نظر انداز کرتے ہیں؟ آپ ﷺ نے (یہ سن کر) فرمایا: ”میں ان کی تالیف قلب کرتا ہوں۔“ اس دوران میں ایک آدمی آیا جس کی دونوں آنکھیں اندر دھنسی ہوئیں پیشانی ابھری ہوئی، ڈاڑھی گھنی، دونوں رخسار پھولے ہوئے اور سر منڈا ہوا تھا، اس نے کہا: یا محمد! اللہ سے ڈر۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ”جب میں نے ہی اس کی نافرمانی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7432]
حدیث حاشیہ:
اس باب میں امام بخاری اس حدیث کو اس لیے لائے کہ اس کے دوسرے طریق (کتاب لمغازی)
میں یوں ہے کہ میں اس پاک پروردگار کا امین ہوں جو آسمانوں میں یعنی عرش پرہے۔
حضرت امام بخاری نے اپنی عادت کے موافق اس طریق کی طرف اشارہ کیا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7432
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3610
3610. حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ ایک دفعہ ہم رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر تھے جبکہ آپ مال غنیمت تقسیم کرنے میں مصروف تھے۔ اس دوران میں آپ کے پاس ذوالخویصرنامی ایک شخص آیا جو قبیلہ بنی تمیم سے تھا۔ اس نے آتے ہی کہا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ! آپ انصاف سے کام لیں۔ (یہ سن کر) آپ ﷺ نے فرمایا: ”تیری ہلاکت ہو!اگر میں ہی انصاف نہ کروں تو پھر کون انصاف کرے گا؟اگر میں ظالم ہو جاؤں تو ناکام اور خسارے میں رہ گیا۔“ حضرت عمر ؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ! اس کے متعلق مجھے اجازت دیں، میں اس کی گردن تن سے جدا کردوں۔ آپ نے فرمایا: ”اس سے صرف نظر کرو۔ اس شخص کے ساتھی ہوں گے کہ تم میں سے ہر ایک اپنی نماز کو ان کی نماز کے مقابلے میں حقیر خیال کرے گااور اپنے روزے ان کے روزوں کے مقابلے میں ناچیز سمجھےگا۔ وہ قرآن کی تلاوت کریں گے لیکن قرآن ان کے حلق سے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3610]
حدیث حاشیہ:
1۔
واقعہ یہ ہے کہ حضرت علی ؓ نے یمن سے سونا بھیجا جسے رسول اللہ ﷺ نے اقرع بن حابس عیینہ بن بدر، زید طائی اور علقمہ بن علاثہ میں تقسیم کردیا تو ذوالخوبصرہ نے آتے ہی اعتراض کردیا کہ اس تقسیم میں عدل و انصاف کے تقاضوں کو ملحوظ نہیں رکھا گیا۔
(صحیح البخاري، أحادیث الأنبیاء، حدیث: 3344)
یہ سن کر حضرت عمر ؓ نے اسے قتل کرنے کی اجازت مانگی کیونکہ نبی ﷺ پر اعتراض کرنا اللہ کے غضب کودعوت دینا ہے۔
اس بد بخت نے بھی آپ کی تقسیم پر اعتراض کر کے اللہ کے غضب کو دعوت دی لہذا واجب القتل ٹھہرا۔
ایک روایت میں ہے حضرت خالد بن ولید ؓ نے اسے قتل کرنے کی اجازت طلب کی تھی۔
(فتح الباري: 755/6)
لیکن رسول اللہ ﷺ نے کسی مصلحت کی بنا پر انھیں اجازت نہ دی البتہ آپ نے خود فرمایا:
”اگر میں انھیں پاؤں تو قوم عاد کی طرح انھیں صفحہ ہستی سے مٹادوں گا۔
“ یعنی جب ا کی کثرت ہو جائے اور وہ مسلح ہو کر مسلمانوں سے تعرض کرنے لگیں تو انھیں قتل کرنا جائز ہو جائے گا جیسا کہ ایک روایت میں اس کا واضح اشارہ ہے کہ وہ اہل اسلام کو قتل کریں گے اور بت پرستوں کو کچھ نہیں کہیں گے۔
(صحیح البخاري، حدیث: 3344)
اور ان کے قتل سے منع کرتے وقت یہ سبب موجود نہ تھا لہٰذا آپ نے قتل سے منع فرمادیا۔
پھر بعد میں حضرت علی کے عہد حکومت میں ان کا ظہور ہوا تو انھوں نے ان سے جنگ کی حتی کہ وہ کثیر تعداد میں قتل ہوئے اور ذوالخو بصرہ جس نے رسول اللہ ﷺ پر اعتراض کیا تھا اسے تلاش کیا گیا تو وہ لاشوں کے نیچے مراہواملا۔
2۔
اس حدیث سے رسول اللہ ﷺ کا معجزہ واضح ہو تا ہے کہ آپ نے خبر دی امت کا باہم اختلاف ہو گا ان کے دو گروہ بن جائیں گے۔
پھر ان میں لڑائی ہو گی اور اس لڑائی میں وہ شخص قتل ہو گا جس نے رسول اللہ ﷺ کی تقسیم پر اعتراض کیا تھا رسول اللہ ﷺ نے جن لوگوں کے اوصاف بیان کیے ہیں وہ مردود خارجی تھے جو بظاہر بہت دین دار تھے لیکن در حقیقت دین سے کوسوں دور تھے لیکن سر سری نظر سے دیکھنے میں بے دینی کے اثرات ان میں کہیں نظر نہیں آتے تھے ظاہر میں بڑے نماز پرہیزگار لیکن پرلے درجے کے بے دین چھوٹی چھوٹی بات پر مسلمانوں کو کافر بنانا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔
﴿قَاتَلَهُمُ اللَّهُ أَنَّى يُؤْفَكُونَ﴾
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3610
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4667
4667. حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ کے پاس کچھ مال آیا تو آپ نے اسے چار آدمیوں کے درمیان تقسیم کر دیا اور فرمایا: ”میں یہ مال دے کر ان کی دلجوئی کرنا چاہتا ہوں۔“ اس پر ایک شخص بولا: آپ نے انصاف سے کام نہیں لیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اس شخص کی نسل سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو دین سے باہر ہو جائیں گے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4667]
حدیث حاشیہ:
1۔
یہ روایت انتہائی مختصر ہے۔
اس میں بھیجنے والی کی، کیا چیز بھیجی گئی تھی؟ کون سے چارآدمیوں میں تقسیم کی گئی؟ اور کس آدمی نے رسول اللہ ﷺ پر اعتراض کیا؟ قطعاً کوئی وضاحت نہیں ہے، البتہ ایک دوسری روایت میں ہے کہ حضرت علی ؓ نے یمن سے سونا بھیجا تھا جو ابھی صاف نہیں کیا گیا تھا۔
رسول اللہ ﷺ نے اسے اقرع بن حابس، عیینہ بن بدر، زید بن مہلہل اور علقمہ بن علاثہ میں تقسیم کردیا، اس پر قریش اور انصار نے ناراضی کا اظہار کیا اور ذوالخویصرہ تمیمی نے اٹھ کر اعتراض کیا تھا کہ اس تقسیم میں عدل و انصاف کو ملحوظ نہیں رکھا گیا۔
(صحیح البخاري، أحادیث الأنبیاء، حدیث: 3344)
2۔
حضرت عمر ؓ نے ذوالخویصرہ کو قتل کرنے کی اجازت طلب کی تو آپ نے انھیں اجازت نہ دی۔
(صحیح البخاري، أحادیث الأنبیاء، حدیث: 360)
بہرحال حضرت عمر ؓ نے اپنے دورخلافت میں یہی کہہ کر اس مد کو حذف کردیا تھا:
”اب اسلام غالب آچکا ہے اور اس مد کی ضرورت نہیں ہے۔
“ لیکن حالات ایک جیسے نہیں رہتے، لہذا بوقت ضرورت اس مد کو بھی بروئے کار لایا جا سکتا ہے۔
واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4667
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5058
5058. سیدنا ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ نے فرمایا: تم میں ایک ایسی قوم پیدا ہوگی کہ تم اپنی نماز کو ان کی نماز کے مقابلے میں حقیر خیال کرو گے۔ تمھیں اپنے روزے ان کے رزوں کے مقابلے میں اپنے اعمال ان کے اعمال کے مقابلے میں معمولی نظر آئیں گے۔ وہ قرآن مجید کی تلاوت کریں گے لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار کو پار کرتے ہوئے نکل جاتا ہے شکاری اس کے پیکان کو دیکھتا ہے تو اس میں کچھ نہیں دیکھتا۔ وہ تیر کی لکڑی پر نظر کرتا ہے تو وہاں کچھ نہیں پاتا۔ وہ تیر کے پر کو دیکھتا ہے تو کوئی چیز نہیں دکھائی نہیں دیتی۔ اس کے سوفار (چٹکی) میں شک کرتا ہے کہ شاید اس میں کوئی چیز ہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5058]
حدیث حاشیہ:
1۔
ان احادیث میں خارجی لوگوں کی صفات بیان ہوئی ہیں۔
جو بے انتہا ریا کار اور دینی روپ میں فسق و فجور پھیلانے والے تھے۔
جس طرح تیر شکار کو لگتے ہی باہر نکل جاتا ہے وہی حال ان لوگوں کا ہو گا کہ اسلام میں آتے ہی اس سے باہر ہو جائیں گے۔
جس طرح تیر میں شکار کے خون وغیرہ کا کوئی اثر نہیں ہوتا وہی حال ان کی تلاوت کا ہو گا اس کا کوئی اثر ان کے دلوں پر نہیں ہو گا۔
بظاہر دیندار لیکن ان کے دل نور ایمان سے یکسر خالی ہوں گے۔
2۔
اس حدیث کی عنوان سے مطابقت اس طرح ہے کہ جب تلاوت قرآن غیر اللہ کے لیے ہوگی تو ریا کاری اور شکم پروری (پیٹ پالنا)
ہی ان کا مقصد ہوگا۔
چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”قرآن کریم کی تعلیم حاصل کرو اور اللہ تعالیٰ سے اس کے ذریعے سے جنت کا سوال کرو قبل اس کے کہ لوگ قرآن کی تعلیم کو ذریعہ معاش بنائیں گے کیونکہ قرآن کو تین قسم کے لوگ سیکھتے ہیں۔
ایک فخر و ریا کاری کےلیے۔
دوسرے شکم پروری کے لیے تیسرے محض اللہ کی رضا کے لیے۔
(سلسلة الأحادیث الصحیحة للألباني، حدیث: 258)
بہر حال قرآن کریم کو محض اللہ کی رضا حاصل کرنے لیے پڑھنا اور سیکھنا چاہیے۔
(فتح الباري: 126/9)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5058
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6931
6931. حضرت ابو سلمہ بن عبدالرحمن اور عطاء بن یسار سے روایت ہے وہ دونوں حضرت ابو سعید خدری ؓ کے پاس آئے اور ان سے حرویہ (خوارج) کے متعلق سوال کیا کہ تم نے ان سے متعلق نبی ﷺ سے کچھ سنا ہے؟ انہوں نے فرمایا: حروریہ کے متعلق تو میں کچھ نہیں جانتا کہ وہ کون ہیں۔ البتہ میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: اس امت میں ایک قوم ظاہر ہوگی۔ یہ نہیں فرمایا کہ اس امت سے ظاہر ہوگی۔ تم اپنی نماز كو ان نماز کے مقابلے میں بہت حقیر خیال کرو گے۔ وہ قرآن کی تلاوت بھی خوب کریں گے لیکن قرآن ان کے حلق یا گلے سے نیچے نہیں اترے گا۔ وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے پار نکل جاتا ہے تیر انداز اپنے تیر کو دیکھتا ہے اس کے پھل کو دیکھتا ہے اس کے پروں کو دیکھتا ہے، اس کی جڑ کو دیکھتا ہے، اس کو شک ہوتا ہے کہ شاید اس پر کچھ خون لگا ہو؟ (مگر وہ بھی صاف ہوتا ہے)۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6931]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث کے مطابق حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے حروریہ (خوارج)
کے متعلق فرمایا:
میں ان کے متعلق کچھ نہیں جانتا لیکن دوسری حدیث میں ہے کہ میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے انھیں قتل کیا تھا اور میں ان کے ہمراہ تھا۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کا انکار اس امر پر مبنی تھا کہ انھوں نے حروریہ کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ نہیں سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نام لے کر کچھ کہا ہو، البتہ کچھ علامتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی تھیں جن کے ذریعے سے میں نے ان کی شناخت کی ہے کہ واقعی یہ وہی ہیں۔
(2)
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے ان خوارج کے متعلق فرمایا:
وہ اس امت سے نہیں ہوں گے جبکہ دوسری روایات میں صراحت ہے کہ وہ اس امت سے ہوں گے؟ دراصل امت کی دو قسمیں ہیں:
ایک امت دعوت اور دوسری امت اجابت، انکار کی بنیاد یہ ہے کہ وہ امت اجابت سے نہیں ہوں گے کہ جنھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت قبول کی اور اس پر ڈٹے رہے۔
اور اقرار کی بنیاد یہ ہے کہ وہ امت دعوت سے ہوں گے اور ان تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت پہنچ چکی ہوگی لیکن انھوں نے اس سے انحراف کیا۔
(3)
اس حدیث کے مطابق خوارج بڑے عبادت گزار تھے، بظاہر صوم وصلاۃ کے پابند تھے جیسا کہ ایک روایت میں راوی نے ان کا وصف بیان کیا ہے کہ دن کے وقت روزہ رکھتے، رات کو قیام کرتے اور صدقہ وخیرات بھی سنت کے مطابق وصول کرتے تھے، چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما جب ان سے مناظرہ کرنے کے لیے گئے تو فرماتے ہیں کہ نمازیں پڑھنے کی وجہ سے ان کی پیشانیوں پر نشانات بنے ہوئے تھے، الغرض ان کے اندر محض ظاہری طور پر دین داری کے اثرات تھے باطن میں وہ بالکل کورے تھے۔
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”وہ لوگ بت پرستوں سے تو نہیں الجھیں گے لیکن اہل اسلام سے برسرپیکار ہوں گے، اگر میں ان کو پاؤں تو انھیں قوم عاد کی طرح صفحۂ ہستی سے مٹاؤں۔
“ (صحیح البخاري، أحادیث الأنبیاء، حدیث: 3344)
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”میں ایسے لوگوں کا قوم ثمود کی طرح صفایا کروں گا۔
“ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4351) (4)
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے خوارج کے قتل کرنے کو ثابت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اگر میں ایسے لوگوں کو پاؤں تو انھیں ضرور نیست ونابود کروں گا۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6931
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6933
6933. حضرت ابو سعید خدری ؓ سے رویت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ ایک دفعہ مال تقسیم کر رہے تھے کہ عبداللہ بن ذی خویصرہ تمیمی آیا اور کہنے لگا: اللہ کے رسول! آپ انصاف کریں۔ آپ نے فرمایا: ”تیری ہلاکت ہو! اگر میں نے انصاف نہ کیا تو اور کون کرے گا؟“ حضرت عمر ؓ نے کہا: آپ مجھے اجازت دیں میں اس کی گردن اڑا دوں۔ آپ نے فرمایا: ”نہیں، اسے چھوڑ دو۔ اس کے کچھ ایسے ساتھی ہوں گے کہ تم ان کی نماز، روزے کے مقابلے میں اپنی نماز اور روزے کو حقیر خیال کرو گے لیکن وہ دین سے ایسے نکل جائيں گے جيسے تیر شكار کو دیکھا جائے تو اس پر کوئی نشان نہیں ہوتا۔ اس کے پھل کو دیکھا جائے تو وہاں بھی کوئی چیز نظر نہیں آتی۔ اس کے پیکان کو دیکھا جائے تو وہاں کا دھبا نہیں ہوتا۔ اس کی لکڑی کو دیکھا جائے تو وہاں بھی کوئی نشان نہیں ہوتا، حالانکہ وہ شکار کی غلاظت اور خون سے گزر کر گیا ہے۔ ان کی نشانی ایک آدمی ہوگا جس۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6933]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تقسیم پر اعتراض کرنے والے کے متعلق حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کی:
اللہ کے رسول! مجھے اس کو قتل کرنے کی اجازت دیں جبکہ ایک دوسری روایت میں ہے کہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے اسے قتل کرنے کی اجازت طلب کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”شاید وہ نماز پڑھتا ہو۔
“ حضرت خالد نے عرض کی:
بہت سے نمازیوں کی زبان اور دل میں یکسانیت نہیں ہوتی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”مجھے لوگوں کے دل اور پیٹ پھاڑنے کی اجازت نہیں کہ میں ان میں جھانک کر دیکھوں۔
“ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4351)
شاید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دونوں نے اسے قتل کرنے کی اجازت طلب کی ہو، چنانچہ صحیح مسلم میں صراحت ہے کہ پہلے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اجازت طلب کی، جب وہ واپس گئے تو پھر حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے اسے قتل کرنے کی اجازت مانگی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے کسی کو اجازت نہ دی۔
(صحیح مسلم، الزکاة، حدیث: 2453(1064)
، وفتح الباري: 366/12)
چونکہ اس وقت فتنے نے تحریک کی شکل اختیار نہیں کی تھی، پھر مصلحت کا تقاضا تھا کہ ایسے لوگوں کو قتل نہ کیا جائے، ایسا نہ ہو کہ لوگ کہیں کہ انھوں نے اپنے ہی لوگوں کو قتل کرنا شروع کر دیا ہے، البتہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش گوئی کے طور پر فرمایا:
اس کی نسل سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو اس فتنے کو ایک تحریک کی شکل میں زندہ کریں گے اور لوگوں میں پھوٹ ڈالیں گے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا:
اگر مجھے اس وقت ان سے پالا پڑا تو ان کو قوم عاد اور قوم ثمود کی طرح صفحۂ ہستی سے مٹا دوں گا۔
بہرحال امام وقت کا فرض ہے کہ حالات کے مطابق ایسے لوگوں کے متعلق مناسب کارروائی کرے جو اسلام اور اہل اسلام کے لیے خطرے کی علامت ہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6933
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7432
7432. سیدنا ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ کو کچھ سونا بھیجا گیا تو آپ نے وہ چار آدمیوں میں تقسیم کر دیا۔ ایک دوسری سند سے سیدنا ابو سعید خدری بیان کرتے ہیں کہ سیدنا علی ؓ جب یمن میں تھے تو انہوں نے نبی ﷺ کو کچھ سونا بھیجا جو مٹی سے جدا نہ تھا۔ آپ ﷺ نے اسے اقرع بن حابس حنظلی مجاشعی، عیینہ بن بدر فزاری، علقمہ بن علاثہ عامری کلابی اور بنو نبھان کے زید الخیل طائی کے درمیان تقسیم کر دیا۔ اس پر قریش اور انصار کو غصہ آیا تو انہوں نے کہا: آپ ﷺ رؤسائے نجد کو تو مال دیتے ہیں اور ہمیں نظر انداز کرتے ہیں؟ آپ ﷺ نے (یہ سن کر) فرمایا: ”میں ان کی تالیف قلب کرتا ہوں۔“ اس دوران میں ایک آدمی آیا جس کی دونوں آنکھیں اندر دھنسی ہوئیں پیشانی ابھری ہوئی، ڈاڑھی گھنی، دونوں رخسار پھولے ہوئے اور سر منڈا ہوا تھا، اس نے کہا: یا محمد! اللہ سے ڈر۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ”جب میں نے ہی اس کی نافرمانی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7432]
حدیث حاشیہ:
1۔
ایک روایت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”تم مجھے امین خیال نہ کرتے۔
حالانکہ میں اس ذات بابرکات کا امین ہوں جو آسمان میں ہے۔
میرے پاس صبح وشام آسمان سے خبریں آتی ہیں۔
(صحیح البخاري المغازي، حدیث: 4351)
2۔
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
مذکورہ روایت کے الفاظ سے عنوان ثابت ہوتا ہے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی عادت ہے کہ وہ عنوان کے تحت ایک ایسی حدیث لاتے ہیں جس کے الفاظ عنوان کے مطابق نہیں ہوتے لیکن وہ عنوان سے اس حدیث کی بعض روایات کی طرف اشارہ کرتے ہیں جس کے الفاظ عنوان کے مطابق ہوتے ہیں تاکہ طالب علم کے ذہن میں تیزی اور اس کے استحضار کی قوت بیدار ہو۔
(فتح الباري: 516/13)
اہل عرب بعض اوقات "علی" کی جگہ "في" استعمال کرتے ہیں جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(فَسِيرُوا فِي الأَرْضِ) (التوبة: 2)
اس کے معنی على الأرض ہیں، یعنی تم زمین پر گھوم پھر لو۔
اسی طرح قرآن میں ہے:
(ولأصلِبَنّكُمْ فِي جُذُوع النّخْل) (طہه: 71)
اس کے معنی بھی على جذوع النخل ہیں، یعنی میں تمھیں کھجور کے تنوں پر سولی چڑھاؤں گا، چنانچہ اس حدیث میں (فِي السَّمَاءِ)
کے معنی علي السماء ہیں، یعنی وہ اللہ آسمان پر عرش کے اوپر ہے۔
دوسری تاویل یہ بھی ہے کہ السماء سے مراد آسمان نہیں بلکہ اس سے مراد اوپر کی جہت ہے۔
واللہ أعلم۔
3۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے اللہ تعالیٰ کے لیے جنت فوق اور صفت علو ثابت کی ہے۔
انھوں نے ان لوگوں کی تردید کی ہے جو اللہ تعالیٰ کو ہرجگہ مانتے ہیں۔
ہرجگہ ماننے والوں نے درج ذیل آیت سے اس موقف کو ثابت کیا ہے۔
”نہیں ہوتی کوئی سرگوشی تین (آدمیوں)
کی مگر وہ (اللہ)
ان کا چوتھا ہوتا ہے، اور نہ پانچ آدمیوں کی مگر وہ ان کا چھٹا ہوتا ہے، اس سے کم ہوں یا زیادہ وہ (اللہ)
ان کے ساتھ ہوتا ہے جہاں بھی وہ ہوں۔
“ (المجادلة: 7/58)
حالانکہ آیت کریمہ میں میں معیت سے مراد کسی جگہ میں حلول کر جانا نہیں، چنانچہ عرب کہتے ہیں:
القمر معنا یعنی چاند ہمارے ساتھ ہے، حالانکہ چاند آسمان پر ہوتا ہے۔
اسی طرح ایک فوجی افسر اپنی فوج سے کہتا ہے:
تم میدان جنگ میں جاؤ میں تمہارے ساتھ ہوں، حالانکہ وہ فوج کے ساتھ نہیں ہوتا۔
اس اعتبار سے معیت سے یہ لازم نہیں آتا کہ ساتھ والا آدمی ہمیشہ ساتھ کی جگہ میں ہو۔
اگر اللہ تعالیٰ کو ہر جگہ تسلیم کر لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نعوذ باللہ، اللہ تعالیٰ کو گندگی والی جگہوں سے پاک خیال نہیں کرتے کیونکہ ہم بعض اوقات لیٹرین میں ہوتے ہیں تو کیا اس وقت اللہ تعالیٰ ذاتی طور پر ہمارے ساتھ ہوتا ہے؟ اس سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی گستاخی اور کیا ہوسکتی ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7432
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7562
7562. سیدنا ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: کچھ لوگ مشرق کی طرف سے رون ہوں گے۔ وہ قرآن پڑھیں گے لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ یہ لوگ دیں سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر شکار سے نکل جاتا ہے۔ پھر وہ وآپس دین میں نہیں لوٹیں گے یہاں تک کہ تیر اپنی جگہ پر واپس آجائے۔ پوچھا گیا: ان کی علامت کیا ہوگی؟ آپ نے فرمایا: ان کی علامت سرمنڈوانا ہے، یا فرمایا: ”بالوں کو جڑ سے نیست ونابود کرنا ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7562]
حدیث حاشیہ:
1۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ طیبہ میں رہتے ہوئے مشرق کی طرف اشارہ کیا اس سے مراد سر زمین عراق ہے جو تاریخی طور پر زمانہ ماضی اور حال میں فتنوں کی آماجگاہ بنی ہوئی ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بھی اس سر زمین میں آزمائش و امتحان سے دو چار کیا گیا تھا۔
موجودہ دور میں بھی عراق کی فتنہ انگیزی ڈھکی چھپی نہیں۔
حدیث اور اہل حدیث کے خلا ف اہل رائے کا فتنہ بھی اسی پر فتن سر زمین سے ابھرا تھا۔
2۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا اس حدیث سے مقصود یہ ہے کہ مشرق سے خروج کرنے والے فتنہ گروں کی تلاوت ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گی یعنی قرآن ان کے دلوں پر اثر انداز نہیں ہوگا باوجود یکہ وہ قرآن کو یاد کرنے والے اور اس کی باقاعدہ تلاوت کرنے والے ہوں گے اس کے برعکس اہل ایمان کا معاملہ جدا گانہ ہے۔
وہ جب قرآن کی تلاوت کرتے ہیں تو ان کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود یہ ہے کہ تلاوت کا یہ فرق ان کے اعمال کا نتیجہ ہے۔
اس میں قرآن جو اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔
اس کا کوئی قصور نہیں۔
واللہ الستعان۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7562