الادب المفرد
كِتَابُ
كتاب
133. بَابُ الْمِزَاحِ
مذاق کرنے کا بیان
حدیث نمبر: 268
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ حَدَّثَنَا خَالِدٌ هُوَ ابْنُ عَبْدِ اللهِ، عَنْ حُمَيْدٍ الطَّوِيلِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَحْمِلُهُ، فَقَالَ: ”أَنَا حَامِلُكَ عَلَى وَلَدِ نَاقَةٍ“، قَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، وَمَا أَصْنَعُ بِوَلَدِ نَاقَةٍ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ”وَهَلْ تَلِدُ الإِبِلَ إِلاَّ النُّوقُ.“
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سواری طلب کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تجھے اونٹنی کے بچے پر سوار کرا دیتا ہوں۔“ اس نے کہا: اللہ کے رسول! میں اونٹنی کے بچے کو کیا کروں گا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اونٹوں کو اونٹنیاں ہی جنتی ہیں؟“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه أبوداؤد، الأدب، باب ماجاء فى المزاح: 4998 و الترمذي: 1991»
قال الشيخ الألباني: صحيح
الادب المفرد کی حدیث نمبر 268 کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 268
فوائد ومسائل:
(۱) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اگر کسی چیز کی ضرورت ہوتی تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتے۔ اگر آپ کے پاس کوئی چیز ہوتی تو آپ عنایت فرما دیتے بصورت دیگر معذرت کرلیتے یا آئندہ دینے کا وعدہ فرماتے۔ آپ نے کبھی سائل کو جھڑکا نہیں اور نہ اس کا مذاق اڑاتے تھے۔ا س سائل سے بھی آپ نے دل لگی اور دینے کا عندیہ اس انداز سے دیا کہ وہ سمجھ نہ سکا لیکن جب آپ نے دیکھا کہ وہ پریشان ہو رہا ہے تو فوراً وضاحت فرما دی کہ بھائی اونٹ بھی تو اونٹنی کا بچہ ہی ہوتا ہے۔
(۲) اس سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تواضع بھی ظاہر ہوتی ہے کہ آپ نے ایک عام آدمی سے بھی خوش طبعی سے بات کی اور دنیا داروں کی طرح تکبر اور غرور والا انداز اختیار نہیں کیا۔ نیز امت کے لیے بھی اس مزاح کا ادب بیان کر دیا گیا۔
(۳) اس سے معلوم ہوا کہ انسان کو دوسرے کی بات پہلے غور سے سن کر پھر اس کا جواب دینا چاہیے کیونکہ بسا اوقات کسی سوال کا جواب خود سوال میں ہوتا ہے۔ جب آپ نے فرمایا کہ میں تمہیں سوار کروں گا تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ایسا اونٹ دیں گے جو سواری کے قابل ہو۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 268