صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي
کتاب: غزوات کے بیان میں
62. بَابُ بَعْثُ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ- عَلَيْهِ السَّلاَمُ- وَخَالِدِ بْنِ الْوَلِيدِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِلَى الْيَمَنِ قَبْلَ حَجَّةِ الْوَدَاعِ:
باب: حجۃ الوداع سے پہلے علی بن ابی طالب اور خالد بن ولید رضی اللہ عنہما کو یمن بھیجنا۔
حدیث نمبر: 4350
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ سُوَيْدِ بْنِ مَنْجُوفٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: بَعَثَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلِيًّا إِلَى خَالِدٍ لِيَقْبِضَ الْخُمُسَ، وَكُنْتُ أُبْغِضُ عَلِيًّا وَقَدِ اغْتَسَلَ، فَقُلْتُ لِخَالِدٍ: أَلَا تَرَى إِلَى هَذَا؟ فَلَمَّا قَدِمْنَا عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ:" يَا بُرَيْدَةُ، أَتُبْغِضُ عَلِيًّا؟" فَقُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ:" لَا تُبْغِضْهُ، فَإِنَّ لَهُ فِي الْخُمُسِ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ".
مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے روح بن عبادہ نے بیان کیا، کہا ہم سے علی بن سوید بن منجوف نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن بریدہ نے اور ان سے ان کے والد (بریدہ بن حصیب) نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی جگہ علی رضی اللہ عنہ کو (یمن) بھیجا تاکہ غنیمت کے خمس (پانچواں حصہ) کو ان سے لے آئیں۔ مجھے علی رضی اللہ عنہ سے بہت بغض تھا اور میں نے انہیں غسل کرتے دیکھا تھا۔ میں نے خالد رضی اللہ عنہ سے کہا تم دیکھتے ہو علی رضی اللہ عنہ نے کیا کیا (اور ایک لونڈی سے صحبت کی) پھر جب ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو میں نے آپ سے بھی اس کا ذکر کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا (بریدہ) کیا تمہیں علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے بغض ہے؟ میں نے عرض کیا کہ جی ہاں، فرمایا علی سے دشمنی نہ رکھنا کیونکہ خمس (غنیمت کے پانچویں حصے) میں اس سے بھی زیادہ حق ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4350 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4350
حدیث حاشیہ:
دوسری روایت میں ہے کہ بریدہ ؓ نے کہا تو میں حضرت علی ؓ سے سب سے زیا دہ محبت کرنے لگا۔
امام احمد کی روایت میں ہے آنحضرت ﷺ نے فرمایا علی ؓ سے دشمنی مت رکھ، وہ میر اہے میں اس کا ہوں اور میرے بعد وہی تمہارا ولی ہے۔
ایک روایت میں ہے کہ جب میں نے شکا یت کی تو آپ کا چہرہ سرخ ہوگیا۔
فرمایا میں جس کا ولی ہوں علی بھی اس کا ولی ہے، رضي اللہ عنه وأرضاہ۔
اصل معاملہ یہ تھا کہ حضرت علی ؓ نے خمس میں سے ایک لونڈی لے لی جو سب قیدیوں میں عمدہ تھی اور اس سے صحبت کی۔
بریدہ ؓ کو یہ گمان ہوا کہ حضرت علی ؓ نے مال غنیمت میں خیانت کی ہے۔
اس وجہ سے ان کو برا سمجھا۔
حالانکہ یہ خیانت نہ تھی کیونکہ خمس اللہ اور رسول کا حصہ تھا اور حضرت علی ؓ اس کے بڑے حقدار تھے اور شاید آنحضرت ﷺ نے ان کو تقسیم کے لیے اختیا ر بھی د یا ہوگا۔
اب استبراء سے قبل لونڈی سے جماع کرنا تو وہ اس وجہ سے ہوگا کہ وہ لونڈی باکرہ ہوگی اور باکرہ کے لیے بعضوں کے نزدیک استبراءلازم نہیں ہے۔
یہ بھی ممکن ہے کہ وہ اس دن حیض سے پاک ہو گئی ہو۔
(وحیدی)
بہرحال حضرت علی ؓ سے بغض رکھنا اہل ایمان کی شان نہیں ہے۔
اللهم إني أحب علیا کما أمر رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4350
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4350
حدیث حاشیہ:
1۔
رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی ؓ کو غنیمت کے مال سے خمس لینے کے لیے حضرت خالد بن ولید ؓ کے پاس یمن بھیجا۔
حضرت علی ؓ نے مال خمس سے ایک لونڈی لی، پھر صبح کے وقت غسل کیا۔
حضرت بریدہ ؓ نے سمجھا کہ حضرت علی ؓ نے ایک حیض آنے کا انتظار کیے بغیر لونڈی سے جماع کیا ہے۔
ان کے نزدیک غسل کرنے کی وجہ یہی تھی۔
جب رسول اللہ ﷺ سے اس کا ذکر ہوا توآپ نے فرمایا:
"علی ؓ کے لونڈی سے جماع کرنے میں کوئی قباحت نہیں کیونکہ ان کا حصہ اس سے کہیں زیادہ تھا۔
" باقی رہا ایک حیض انتظار نہ کرنے کا مسئلہ توحضرت علی ؓ کے خیال کے مطابق وہ لونڈی کنواری تھی اور اس کے استبراء کی کوئی ضرورت نہ تھی کیونکہ لونڈی سے ایک حیض کا انتظار اس لیے کیا جاتا ہے تاکہ اس کے حاملہ نہ ہونے کا یقین ہوجائے، جبکہ کنواری لونڈی کو حمل کا امکان نہیں ہوتا۔
اس لیے استبراء کی بھی ضرورت نہ تھی۔
(فتح الباري: 84/8۔
)
2۔
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت بریدہ سے فرمایا:
"تم حضرت علی ؓ کے متعلق بدگمانی نہ کرو کیونکہ وہ مجھ سے ہے اورمیں اس سے ہوں وہ میرے بعدتمہارا دوست ہوگا۔
'' (مسند أحمد: 356/5۔
)
حضرت بریدہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے ارشاد کے بعد میں حضرت علی ؓ سے محبت کرنے لگا اور تمام لوگوں سے زیادہ مجھے حضرت علی ؓ محبوب تھے۔
(مسند أحمد: 351/5۔
)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4350