الادب المفرد
كِتَابُ الْمَشُورَةِ
كتاب المشورة
128. بَابُ الْمُسْتَشَارُ مُؤْتَمَنٌ
جس سے مشورہ طلب کیا جائے وہ امانت دار ہوتا ہے
حدیث نمبر: 256
حَدَّثَنَا آدَمُ، قَالَ: حَدَّثَنَا شَيْبَانُ أَبُو مُعَاوِيَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عُمَيْرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لأَبِي الْهَيْثَمِ: ”هَلْ لَكَ خَادِمٌ؟“ قَالَ: لَا، قَالَ: ”فَإِذَا أَتَانَا سَبْيٌ فَأْتِنَا“، فَأُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِرَأْسَيْنِ لَيْسَ مَعَهُمَا ثَالِثٌ، فَأَتَاهُ أَبُو الْهَيْثَمِ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ”اخْتَرْ مِنْهُمَا“، قَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، اخْتَرْ لِي، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ”إِنَّ الْمُسْتَشَارَ مُؤْتَمَنٌ، خُذْ هَذَا، فَإِنِّي رَأَيْتُهُ يُصَلِّي، وَاسْتَوْصِ بِهِ خَيْرًا“، فَقَالَتِ امْرَأَتُهُ: مَا أَنْتَ بِبَالِغٍ مَا قَالَ فِيهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلاَّ أَنْ تُعْتِقَهُ، قَالَ: فَهُوَ عَتِيقٌ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ”إِنَّ اللَّهَ لَمْ يَبْعَثْ نَبِيًّا وَلاَ خَلِيفَةً، إِلاَّ وَلَهُ بِطَانَتَانِ: بِطَانَةٌ تَأْمُرُهُ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَاهُ عَنِ الْمُنْكَرِ، وَبِطَانَةٌ لاَ تَأْلُوهُ خَبَالاً، وَمَنْ يُوقَ بِطَانَةَ السُّوءِ فَقَدْ وُقِيَ.“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوالہیثم رضی اللہ عنہ سے پوچھا: ”کیا تمہارے پاس کوئی خادم ہے؟“ انہوں نے کہا: نہیں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب ہمارے پاس قیدی آئیں تو آنا۔“ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس صرف دو قیدی آئے تو سیدنا ابوالہیثم رضی اللہ عنہ حاضر خدمت ہوئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان میں سے ایک لے لو۔“ انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! آپ میرے لیے جو پسند کرتے ہیں وہ دے دیں۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس سے مشورہ لیا جائے اسے امانت داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ تم یہ لے لو کیونکہ میں نے اسے نماز پڑھتے دیکھا ہے اور میں اس کے بارے میں تمہیں بھلائی کی وصیت کرتا ہوں۔“ ان کی بیوی نے کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بارے میں جو وصیت فرمائی ہے آپ اسے پورا نہیں کر سکتے الا یہ کہ اسے آزاد کر دیں۔ سیدنا ابوالہیثم رضی اللہ عنہ نے کہا: وہ آزاد ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے کسی نبی کو نہیں بھیجا اور کسی کے خلافت سپرد نہیں کی مگر اس کے لیے دو راز داں ضرور بنائے، ایک راز داں کا تو یہ کام رہا کہ وہ اسے اچھائی کا حکم دیتا ہے اور برائی سے روکتا ہے اور ایک راز داں وہ ہے کہ اسے خرابی میں ڈالنے میں کوئی کوتاہی نہیں کرتا اور جو شخص برے راز داں سے بچا لیا جاتا ہے وہ واقعی شر سے بچا لیا گیا۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه الترمذي، كتاب الزهد، باب ماجاء فى معيشة أصحاب النبى صلى الله عليه وسلم: 2369 و النسائي فى الكبرىٰ: 6583 و الحاكم: 131/4 و البيهقي فى الشعب: 4604 و البغوي فى شرح السنة: 190/13 - الصحيحة: 1641»
قال الشيخ الألباني: صحيح
الادب المفرد کی حدیث نمبر 256 کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 256
فوائد ومسائل:
(۱)”جس سے مشورہ طلب کیا جائے“ کا مطلب یہ ہے کہ جب کسی پر اعتماد کرتے ہوئے اس سے مشورہ طلب کیا جائے تو چاہیے کہ خیر خواہی کرتے ہوئے صحیح اور درست مشورہ دے اور مشورہ طلب کرنے والے کے اعتماد کو ٹھیس نہ پہنچائے۔
(۲) ابوالہیثم رضی اللہ عنہ بدری صحابی تھے، انہوں نے جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مشورہ طلب کیا تو آپ نے انہیں نمازی غلام منتخب کرنے کا مشورہ دیا اور ساتھ ہی اس سے حسن سلوک کرنے کی تاکید فرمائی جس سے معلوم ہوا کہ نوکر یا خادم تلاش کرتے وقت بھی دین دار آدمی کو ترجیح دینی چاہیے خواہ دوسرا شخص کام میں زیادہ مہارت ہی رکھتا ہو۔ اسی طرح ملازم اگر نمازی ہو تو اس کے ساتھ حسن سلوک دوسروں کی نسبت زیادہ کرنا چاہیے۔
(۳) شریک حیات اگر اچھی اور نیک ہو تو انسان کے لیے نیکی کرنا بہت آسان ہو جاتا ہے اور اگر آدمی کوتاہی کا مرتکب ہو تو وہ صحیح راہنمائی کرکے انسان کو بھٹکنے سے بچا لیتی ہے۔ اس کے برعکس بیوی اگر بری ہو تو چاہنے کے باوجود بھی نیکی کے راستے مسدود ہو جاتے ہیں اس لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیوی کے انتخاب کے وقت اس کی دینداری کو ترجیح دینے کا حکم دیا ہے۔ ابوالہیثم رضی اللہ عنہ کی بیوی نے اپنے شوہر کو مشورہ دیا کہ وہ غلام کو آزاد کر دے کیونکہ یہ حسن سلوک کی اعلیٰ ترین صورت ہے اور اس کے ساتھ بھلائی اسی صورت میں ممکن ہے۔
(۴) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ سے اچھے دوستوں اور اچھے اہل خانہ کی دعا کرنی چاہیے اور مشورہ ان لوگوں سے کرنا چاہیے جو متقی اور پرہیزگار ہوں اور امانت دار ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے دلوں میں اللہ کا خوف بھی ہو۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 256