الادب المفرد
كِتَابُ الِانْبِسَاطِ إِلَى النَّاسِ
كتاب الانبساط إلى الناس
123. بَابُ الْعَفْوِ وَالصَّفْحِ عَنِ النَّاسِ
لوگوں سے درگزر کرنے کا بیان
حدیث نمبر: 243
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ هِشَامِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ يَهُودِيَّةً أَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشَاةٍ مَسْمُومَةٍ، فَأَكَلَ مِنْهَا، فَجِيءَ بِهَا، فَقِيلَ: أَلاَ نَقْتُلُهَا؟ قَالَ: ”لَا“، قَالَ: فَمَا زِلْتُ أَعْرِفُهَا فِي لَهَوَاتِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک یہودی عورت زہر آلود بھنی ہوئی بکری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں سے کھا لیا۔ پھر اس عورت کو لایا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا: کیا ہم اس کو قتل نہ کر دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں“! سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حلق میں مسلسل زہر کے اثرات دیکھتا رہا۔
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب الهية و فضلها و التحريض عليها: 2617 و مسلم: 2190 و أبوداؤد: 4508 - الصحيحة: 6441»
قال الشيخ الألباني: صحيح
الادب المفرد کی حدیث نمبر 243 کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 243
فوائد ومسائل:
(۱)فتح خیبر کے موقع پر ایک یہودی عورت نے زہر آلود بکری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطور ہدیہ دی۔ آپ نے اس سے تناول فرمایا۔ ابھی شروع ہی کیا تھا کہ آپ کو بذریعہ وحی بتایا گیا کہ یہ بکری زہر آلود ہے تو آپ نے کھانا ترک کر دیا اور صحابہ کرام کو بھی کھانا ترک کرنے کا حکم دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کو طلب فرمایا:تو اس نے اقرار کرلیا اور کہا کہ میں نے یہ زہر اس لیے ملایا تھا کہ اگر آپ سچے نبی ہوں گے تو آپ کو معلوم ہو جائے گا ورنہ ہماری جان چھوٹ جائے گی۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس خاتون کو قتل کرنے کی اجازت چاہی تو آپ نے درگزر کرنے کا حکم دیا۔ بعد ازاں اس زہر کی وجہ سے بشر بن براء بن معرور انصاری رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خاتون کو قصاص میں قتل کر دیا۔
(۲) اس سے معلوم ہوا کہ اہل کتاب کا ہدیہ قبول کیا جاسکتا ہے جبکہ وہ کسی حلال چیز کا ہو۔
(۳) جو حلال چیزیں کھاتا ہو اس سے چیز کی اصل کے متعلق سوال کیے بغیر بھی کھایا جاسکتا ہے، تاہم اگر اس کے برعکس شواہد ہوں تو اسے ترک کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح مسلمان دوکاندار، مثلاً قصاب وغیرہ سے بھی گوشت خریدا جاسکتا ہے اس سے جانور کے ذبح کی تفصیل پوچھنا ضروری نہیں۔ تاہم عصر حاضر میں دولت کی ہوس نے لوگوں میں حلال و حرام کی تمیز ختم کر دی ہے اس لیے گوشت وغیرہ خریدتے وقت چھان بین ضرور کر لینی چاہیے۔
(۴) اس سے معلوم ہوا کہ آپ عالم الغیب نہیں تھے اس لیے آپ نے اس گوشت کے چند لقمے لیے اور بشر بن براء رضی اللہ عنہ نے بھی کھایا اور پھر آپ کو بذریعہ وحی اطلاع دی گئی تو آپ نے کھانا ترک کر دیا۔ اگر آپ کو پہلے سے علم ہوتا تو آپ کبھی تناول نہ فرماتے۔ اگر یہ کہا جائے کہ آپ کو علم تھا تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ نعوذ باللہ آپ نے بشر بن براء رضی اللہ عنہ کو جان بوجھ کر شہید کروایا حالانکہ ایسا نہیں ہے۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 243