الادب المفرد
كِتَابُ الْمَعْرُوفِ
كتاب المعروف
115. بَابُ إِنَّ كُلَّ مَعْرُوفٍ صَدَقَةٌ
بلاشبہ ہر نیکی صدقہ ہے
حدیث نمبر: 227
حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ قَالَ: حَدَّثَنِي مَهْدِيُّ بْنُ مَيْمُونٍ، عَنْ وَاصِلٍ مَوْلَى أَبِي عُيَيْنَةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عَقِيلٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ يَعْمَُرَ، عَنْ أَبِي الأَسْوَدِ الدِّيلِيِّ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ: قِيلَ: يَا رَسُولَ اللهِ، ذَهَبَ أَهْلُ الدُّثُورِ بِالأُجُورِ، يُصَلُّونَ كَمَا نُصَلِّي، وَيَصُومُونَ كَمَا نَصُومُ، وَيَتَصَدَّقُونَ بِفُضُولِ أَمْوَالِهِمْ، قَالَ: ”أَلَيْسَ قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لَكُمْ مَا تَصَدَّقُونَ؟ إِنَّ بِكُلِّ تَسْبِيحَةٍ وَتَحْمِيدَةٍ صَدَقَةً، وَبُضْعُ أَحَدِكُمْ صَدَقَةٌ“، قِيلَ: فِي شَهْوَتِهِ صَدَقَةٌ؟ قَالَ: ”لَوْ وُضِعَ فِي الْحَرَامِ، أَلَيْسَ كَانَ عَلَيْهِ وِزْرٌ؟ ذَلِكَ إِنْ وَضَعَهَا فِي الْحَلاَلِ كَانَ لَهُ أَجْرٌ.“
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! مالدار سارا اجر و ثواب لے گئے، وہ ہماری طرح نمازیں پڑھتے ہیں، اور ہماری طرح روزے رکھتے ہیں، اور اپنے زائد مالوں کا صدقہ کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا اللہ نے تمہارے لیے وہ نہیں بنایا جو تم صدقہ کرو؟ ہر سبحان اللہ اور الحمدللہ کہنے پر صدقے کا ثواب ہے، اور تمہارا کسی ایک کا اپنی بیوی سے ملاپ بھی صدقہ ہے۔“ عرض کیا گیا: کیا شہوت پوری کرنے میں بھی صدقہ ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر وہ حرام طریقے سے پوری کرے تو کیا اس پر گناہ نہیں؟ اسی طرح اگر وہ حلال طریقے سے پوری کرے تو اس کے لیے اجر ہے۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه مسلم، كتاب الزكاة، باب أن اسم الصدقة...........: 1006 و أبوداؤد: 1285 - الصحيحة: 454»
قال الشيخ الألباني: صحيح
الادب المفرد کی حدیث نمبر 227 کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 227
فوائد ومسائل:
(۱)اس روایت سے معلوم ہوا کہ مال اللہ تعالیٰ کا فضل ہے بشرطیکہ اس کے ساتھ ساتھ اللہ کی فرمانبرداری ہو۔ بصورت دیگر وبال جان ہے کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جن ساتھیوں پر رشک کا اظہار کیا وہ ایسے مال دار تھے جو اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے تھے اور اس خرچ کرنے کی فضیلت ہی کا انہوں نے آپ سے ذکر کیا۔
(۲) مال خرچ کرنے کی تمنا کرنا اچھی خواہش ہے لیکن اگر مال نہ ہو تو خیر کے دوسرے راستوں کو اختیار کیا جاسکتا ہے اور في سبیل اللہ خرچ کرنے کی فضیلت حاصل کی جاسکتی ہے۔ صحیح مسلم (۱۰۰۹)میں ہے کہ کسی آدمی کو سواری پر سوار کرنا یا اس کا سامان پکڑانا، اچھی بات کرنا، نماز کی طرف چل کر جانا اور راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹانا بھی صدقہ ہے۔ یہ صدقہ ہر انسان کے بس میں ہے۔
(۳) بدکاری کرنا شر اور گناہ ہے اور اس سے باز رہنا شر اور برائی سے باز رہنا ہے اور گزشتہ حدیث میں ذکر ہوا ہے کہ برائی اور شر سے باز رہنا بھی صدقہ ہے چہ جائیکہ حلال کام کرے وہ تو بالاولیٰ باعث اجر ہوگا۔
(۴) جمہور اہل علم کے نزدیک مباح امور میں اگر نیت احکام الٰہی کی تعمیل کی ہو تو وہ بھی باعث اجر ہے۔ اسی طرح نکاح کا مقصد یا مباشرت کا مقصد پاک دامنی اور حصول اولاد ہو تو وہ صدقہ ہے، یعنی جس طرح صدقے سے قرب الٰہی حاصل ہوتا ہے اسی طرح دیگر نیک اعمال بھی اس کا ذریعہ ہیں۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 227