الادب المفرد
كِتَابُ الْمَعْرُوفِ
كتاب المعروف
114. بَابُ أَهْلُ الْمَعْرُوفِ فِي الدُّنْيَا أَهْلُ الْمَعْرُوفِ فِي الآخِرَةِ
جو دنیا میں اچھے ہیں وہ آخرت میں بھی اچھے ہوں گے
حدیث نمبر: 221
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ أَبِي هَاشِمٍ قَالَ: حَدَّثَنِي نُصَيْرُ بْنُ عُمَرَ بْنِ يَزِيدَ بْنِ قَبِيصَةَ بْنِ يَزِيدَ الأَسَدِيُّ، عَنْ فُلاَنٍ قَالَ: سَمِعْتُ بُرْمَةَ بْنَ لَيْثِ بْنِ بُرْمَةَ، أَنَّهُ سَمِعَ قَبِيصَةَ بْنَ بُرْمَةَ الأَسَدِيَّ قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: ”أَهْلُ الْمَعْرُوفِ فِي الدُّنْيَا هُمْ أَهْلُ الْمَعْرُوفِ فِي الْآخِرَةِ، وَأَهْلُ الْمُنْكَرِ فِي الدُّنْيَا هُمْ أَهْلُ الْمُنْكَرِ فِي الآخِرَةِ.“
سیدنا قبیصہ بن برمہ اسدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھا جب میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”جو لوگ دنیا میں اہل معروف ہیں وہ آخرت میں بھی اہل معروف ہوں گے، اور جو دنیا میں اہل منکر ہیں وہ آخرت میں بھی اہل منکر ہوں گے۔“
تخریج الحدیث: «صحيح لغيره: أخرجه الطبراني فى الكبير: 375/18 و أبونعيم فى المعرفة: 5740 و البزار: 3294 - الروض النضير: 1031»
قال الشيخ الألباني: صحيح لغيره
الادب المفرد کی حدیث نمبر 221 کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 221
فوائد ومسائل:
(۱)اچھے اعمال اور اچھے اخلاق کا نام معروف ہے اور یہ عرف سے ماخوذ ہے، یعنی جسے انسان اپنے اصل کے اعتبار سے جانتا ہو اور اس سے مانوس ہو۔ تحلیق آدم کے بعد معاصی کے ظہور سے پہلے انسان جن اعمال و اطوار سے واقف تھا اور جو اس کی فطرت تھی وہ معروف ہے اور جو اس سے ہٹ کر ہو اور انسان فطرتاً اس سے مانوس نہ ہو وہ منکر ہے اور ہر وہ کام یا اخلاق جسے اللہ کی شریعت میں مکروہ یا حرام قرار دیا گیا ہے انسان اپنی اصل کے اعتبار سے اس سے مانوس نہیں ہے۔ گویا عرف قدیم میں جو چیز معروف نہیں تھی اور عصیان کے نتیجے میں ظہور میں آئی وہ منکر کہلاتی ہے۔
(۲) حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ دنیا میں نیکی کے کام کرتے ہیں اور اچھی شہرت رکھتے ہیں اور ان کے اخلاق و اعمال دنیا میں اچھے ہیں وہ آخرت میں بھی اچھے ہوں گے کہ انہیں ان کی نیکی کا بدلہ ملے گا۔ دوسرے لفظوں میں دنیا میں کسی شخص کو اچھے کاموں کی توفیق ملنا اس بات کی دلیل ہے کہ روز قیامت بھی اس کا شمار اچھے لوگوں میں ہوگا۔ اور جو دنیا میں بد اعمال اور برے ہیں اور ان کی شہرت بھی بری ہے وہ روز قیامت بھی برے ہی شمار ہوں گے۔ ایک روایت میں آپ کا ارشاد گرامی ہے:
((أهل الجنة مَنْ ملأ اللّٰهَ أذُنَیْهِ مِنْ ثَنَاءِ النَّاسِ خَیْرًا وَهُوَ یَسْمَعُ وأهل النَّار مَنْ مَلأ اللّٰهَ أذنیه مِنْ ثَنَاءِ النَّاسِ شَرًّا وَهُوَ یَسْمَعُ))(الصحیحة للألباني، حدیث:۱۷۴۰)
”اہل جنت وہ ہیں جو اپنے بارے میں لوگوں کے اچھے ریمارکس خود اپنے کانوں سے سنیں اور اہل دوزخ وہ ہیں جو اپنے بارے میں لوگوں کے برے ریمارکس اپنے کانوں سے سنیں۔“
یعنی دنیا میں اچھی شہرت اور نیکی کی توفیق اہل جنت کی علامت ہے اور اس کے برعکس بری شہرت اور گناہ کی زندگی اس بات کی دلیل ہے کہ انجام بھی برا ہے۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 221