الادب المفرد
كِتَابُ الْجَارِ
كتاب الجار
64. بَابُ الْجَارِ الصَّالِحِ
نیک پڑوسی (نعمت ہے)
حدیث نمبر: 116
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ قَالَ: حَدَّثَنِي خَمِيلٌ، عَنْ نَافِعِ بْنِ عَبْدِ الْحَارِثِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ”مِنْ سَعَادَةِ الْمَرْءِ الْمُسْلِمِ: الْمَسْكَنُ الْوَاسِعُ، وَالْجَارُ الصَّالِحُ، وَالْمَرْكَبُ الْهَنِيءُ.“
سیدنا نافع بن حارث رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(کسی) مسلمان کی نیک بختی میں سے (یہ بھی ہے کہ اسے) کھلا گھر، نیک پڑوسی اور آرام دہ سواری میسر آ جائے۔“
تخریج الحدیث: «صحيح لغيره: الصحيحة: 282 - أخرجه أحمد: 5372 و المروزي فى البر و الصلة: 240 و عبد بن حميد: 385 و ابن أبى عاصم فى الآحاد: 2366 و الطحاوي فى شرح مشكل الآثار: 2772 و الحاكم فى المستدرك: 166/4، 167 و البيهقي فى الأدب: 1022»
قال الشيخ الألباني: صحيح لغيره
الادب المفرد کی حدیث نمبر 116 کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 116
فوائد ومسائل:
(۱)دنیا کی سعادت اور نیک بختی کے لیے کئی چیزیں درکار ہوتی ہیں جن میں سر فہرست تین چیزوں کا ذکر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:گھر اگر تنگ ہو تو پردے کا اہتمام نہیں ہوسکتا اور ایک مسلمان کے لیے یہ نہایت ضروری ہے اور انسان طرح طرح کی جسمانی اور نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ گھر بے شک کھلا ہو لیکن اگر ہمسایہ اچھے کردار کا مالک نہیں ہے تو بھی زندگی اجیرن ہو جاتی ہے کیونکہ اس سے ہر وقت واسطہ پڑتا ہے۔ سواری آرام دہ ہو تو انسان اطاعت کے کام بطریق احسن انجام دے سکتا ہے، اسی طرح عزیز و اقارب کے ساتھ صلہ رحمی میں بھی آسانی ہوتی ہے۔
(۲) ایک روایت میں مذکورہ تین چیزوں کے علاوہ ایک اور چیز کا ذکر بھی ہے اور وہ ہے نیک بیوی۔ گویا دنیا میں اگر کسی مسلمان کے پاس یہ چار چیزیں ہوں تو وہ بلاشبہ سعادت مند ہے۔ دنیا جہان کی نعمتیں ہوں مگر ہمسایہ برا ہو۔ بیوی بری ہو، گھر تنگ ہو اور سواری صحیح نہ ہو تو انسان کا جینا دو بھر ہو جاتا ہے۔
(۳) انسان کے اچھا یا برا ہونے میں بڑی حد تک معاشرتی ماحول اثر انداز ہوتا ہے۔ انسان ذہنی طور پر پرسکون ہو اور اس کا اٹھنا بیٹھنا نیک لوگوں کے ساتھ ہو تو نیکی کی رغبت پیدا ہوتی ہے۔ اور برائی میں واقع ہونے کے امکانات بڑی حد تک کم ہو جاتے ہیں۔
(۴) کھلا گھر اور اچھی سواری بلاشبہ انسان کی سعادت ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ کروڑوں، اربوں روپے مٹی میں لگا دیے جائیں اور نت نئی گاڑیوں پر مال ضائع کیا جائے۔ یہ خوش بختی نہیں بلکہ بدبختی ہے کہ انسان ان فضول مشاغل میں پڑ کر اپنی عاقبت کو برباد کرتا رہے۔
ایک روایت میں ہے کہ مسلمان کو کسی اچھے کام میں مال خرچ کرنے پر ضرور اجر ملتا ہے، سوائے اس مال کے جو وہ مٹی پر خرچ کرتا ہے۔ (سنن ابن ماجة، الزهد، حدیث:۴۱۶۳)
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 116