Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

الادب المفرد
كِتَابُ الْجَارِ
كتاب الجار
60. بَابُ مَنْ أَغْلَقَ الْبَابَ عَلَى الْجَارِ
جس نے پڑوسی سے بھلائی روک لی
حدیث نمبر: 111
حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلاَمِ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ‏:‏ لَقَدْ أَتَى عَلَيْنَا زَمَانٌ، أَوْ قَالَ‏:‏ حِينٌ، وَمَا أَحَدٌ أَحَقُّ بِدِينَارِهِ وَدِرْهَمِهِ مِنْ أَخِيهِ الْمُسْلِمِ، ثُمَّ الْآنَ الدِّينَارُ وَالدِّرْهَمُ أَحَبُّ إِلَى أَحَدِنَا مِنْ أَخِيهِ الْمُسْلِمِ، سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ‏:‏ ”كَمْ مِنْ جَارٍ مُتَعَلِّقٌ بِجَارِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَقُولُ‏:‏ يَا رَبِّ، هَذَا أَغْلَقَ بَابَهُ دُونِي، فَمَنَعَ مَعْرُوفَهُ.“
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ لوگوں پر ایک ایسا زمانہ یا دور بھی گزرا ہے کہ درہم و دینار کا سب سے زیادہ مستحق مسلمان بھائی کو سمجھا جاتا تھا، پھر اب ایسا زمانہ آ گیا ہے کہ درہم و دینار مسلمان بھائی سے زیادہ محبوب ہو گئے ہیں۔ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے:کتنے پڑوسی ایسے ہیں جو قیامت کے روز اپنے پڑوسیوں سے چمٹے ہوئے کہیں گے: اے میرے رب! اس نے اپنا دروازہ مجھ پر بند کر لیا تھا، اور مجھے اپنے حسن سلوک سے محروم رکھا۔

تخریج الحدیث: «حسن لغيره: الصحيحة: 2646 - أخرجه المروزي فى البر و الصلة: 252 و هناد فى الزهد: 1045 و ابن أبى الدنيا فى مكارم الاخلاق: 346»

قال الشيخ الألباني: حسن لغيره

الادب المفرد کی حدیث نمبر 111 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 111  
فوائد ومسائل:
(۱)حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اسلام کے ابتدائی دور کا تذکرہ فرمایا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اس قدر ایثار و جذبہ اور زہد تھا کہ مسلمان مال کو کوئی اہمیت نہیں دیتے تھے۔ وہ مسلمانوں کی ضرورت پورا کرنا اپنی سعادت سمجھتے تھے۔ ان کے نزدیک ان کی دولت میں دوسرے مسلمان برابر کے شریک تھے۔ اس کی روشن مثال انصار کا وہ رویہ ہے جو انہوں نے اپنے مہاجر بھائیوں کے ساتھ برتا کہ انہیں اپنے مالوں میں برابر کا شریک قرار دے لیا اور خود بھوکے رہ کر دوسروں کی ضرورت کو پورا کرنا بھی اسی زریں دور کی طرزِ عمل ہے۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دولت کی فراوانی ہوتی چلی گئی اور اس کی محبت بھی لوگوں کے دلوں میں پیدا ہونے لگی اور لوگوں کو اپنی ضرورتیں دوسروں کی ضرورتوں سے عزیز لگنے لگیں۔ جذبہ خیر خواہی رفتہ رفتہ کم ہوتا چلا گیا اور ابن عمر رضی اللہ عنہما کے دور ہی میں وہ جذبہ ایثار نظر نہیں آتا تھا جو اوائل دور میں تھا۔
(۲) ابن عمر رضی اللہ عنہما نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور اپنے دور کا موازنہ کیا تو یہ تأثر دیا جبکہ ان کے دور میں بھی بہت خیر اور بھلائی تھی۔ اگر وہ ہمارا دور دیکھ لیتے، جب ہر مسلمان جذبہ خیر خواہی سے عاری ہوچکا ہے اور دوسرے کا مال بھی ہتھیانے کی کوشش میں ہے، تو ان کا تأثر کیا ہوتا۔ اللہ کے حضور دعا کرنی چاہیے کہ وہ مال و دولت کی ہوس سے محفوظ رکھے۔
(۳) اس میں پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید ہے کیونکہ جس طرح رشتہ داروں کے حقوق اور صلہ رحمی کے متعلق باز پرس ہوگی اسی طرح ہمسایوں کے متعلق بھی باز پرس ہوگی۔ رشتہ داروں کی طرح اگر پڑوسی بھی زیادتی کریں تو ان سے حسن سلوک ہی کا حکم ہے کیونکہ زیادتی کرنے والے سے حسن سلوک ہی دراصل نیکی ہے۔
   فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 111