Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

الادب المفرد
كِتَابُ صِلَةِ الرَّحِمِ
كتاب صلة الرحم
26. بَابُ صِلَةِ الرَّحِمِ
صلہ رحمی کا بیان
حدیث نمبر: 49
حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَوْهَبٍ قَالَ‏:‏ سَمِعْتُ مُوسَى بْنَ طَلْحَةَ يَذْكُرُ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ الأَنْصَارِيِّ، أَنَّ أَعْرَابِيًّا عَرَضَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَسِيرِهِ، فَقَالَ‏:‏ أَخْبِرْنِي مَا يُقَرِّبُنِي مِنَ الْجَنَّةِ، وَيُبَاعِدُنِي مِنَ النَّارِ‏؟‏ قَالَ‏:‏ ”تَعْبُدُ اللَّهَ وَلاَ تُشْرِكْ بِهِ شَيْئًا، وَتُقِيمُ الصَّلاَةَ، وَتُؤْتِي الزَّكَاةَ، وَتَصِلُ الرَّحِمَ‏.‏“
سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک سفر میں ایک اعرابی (دیہاتی) سامنے آیا اور عرض کی: آپ مجھے ایسا عمل بتایئے جو جنت کے قریب کر دے اور جہنم سے دور کر دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، نماز قائم کرو، زکاۃ ادا کرو، اور (رشتہ داروں کے ساتھ) صلہ رحمی کرو۔

تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، الزكاة، باب وجوب الزكاة: 1396 و مسلم: 13 و النسائي: 468، صحيح الترغيب والترهيب: 747، 2523»

قال الشيخ الألباني: صحیح

الادب المفرد کی حدیث نمبر 49 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 49  
فوائد ومسائل:
(۱)حضرت ابو ایوب انصاری رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جلیل القدر بدری صحابی ہیں آپ کا نام خالد بن یزید ہے، تقریباً تمام غزوات میں شامل ہوئے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کے بعد اپنا گھر بنانے تک مدینہ طیبہ میں انہی کے ہاں مقیم رہے۔ غزوہ قسطنطنیہ میں ۵۵ ہجری کو فوت ہوئے اور دشمن کے قلعے کی دیوار کے ساتھ حسب وصیت دفن کیے گئے۔ رضی اللہ عنہ۔
(۲) جنت میں داخلہ اور جہنم سے آزادی بہت بڑی بات ہے! لیکن اللہ تعالیٰ جس کے لیے آسان کر دے اسے راہ مستقیم پر لگا دیتا ہے، تاہم انسان کو ایسے امور کا علم ہونا چاہیے جو جنت کے حصول میں معاون اور جہنم سے بچنے کے لیے کارگر ثابت ہوں۔ کئی صحابہ کرام نے اس طرح کے سوالات کیے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سائل کے حالات و ظروف کے مطابق جواب دیا۔
(۳) دیہات کے رہنے والے کو اعرابی کہتے ہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی خواہش ہوئی تھی کہ کوئی دیہاتی آئے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرے تاکہ ہمیں بھی علم ہوسکے۔ یہ سادہ لوح لوگ تھے اور بعض اوقات اس طرح کے سوالات بھی کرلیتے تھے جو عام شہری صحابہ کرنے سے ڈرتے تھے کیونکہ وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت زیادہ تکریم کرتے تھے۔ یہ دیہاتی صحابیٔ رسول چونکہ تفصیلی سوالات کرنے سے قاصر تھے اس لیے انہوں نے مجمل سوال کیا۔
(۴) أخبرني ما یُقربني سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا یہ عقیدہ تھا کہ عمل صالح کے بغیر جنت میں داخل ہونا ناممکن ہے۔ پھر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی صحابی کے سوال پر انکار نہیں کیا بلکہ اسے ایسے اعمال کے متعلق خبر دی جو جنت کے قریب کر دیتے ہیں۔ اس لیے عمل کے بغیر جنت کا طلب گار ہونا اپنے آپ کو دھوکا دینا ہے۔ اللہ کی رحمت کے بغیر حصول جنت ممکن نہیں۔ جیسا کہ دوسری احادیث میں ہے لیکن آپ نے سائل کو یہ نہیں کہا کہ تم اللہ کی رحمت کے ساتھ جنت میں چلے جاؤ گے جس سے معلوم ہوا کہ ہم نیک اعمال کرنے کے پابند ہیں اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی رحمت کے ساتھ ہی جنت میں جائیں گے۔ اعمال، اسباب ہیں جنہیں اختیار کرنے کا ہمیں حکم ہے۔
((إنه لَغَفَّارٌ لِمَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اهْتَدٰی))
وہ ذات باری بہت زیادہ معاف کرنے والی ہے اس شخص کو جس نے (اللہ کی طرف)رجوع کیا اور ایمان لایا اور عمل صالح کیے اور پھر اس رستے پر گامزن رہا۔
اس آیت سے واضح معلوم ہوتا ہے کہ حصول رحمت باری تعالیٰ کے لیے نیک اعمال کرنے ضروری ہیں۔ اگر اعمال کی کوئی حیثیت نہ ہوتی تو پیغمبروں اور رسولوں کو کم از کم اس سے ضرور مستثنیٰ قرار دیا جاتا۔
(۵) ہر قول و فعل، اس کا تعلق ظاہر سے ہو یا باطن سے، جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہو اس کو بجا لانا عبادت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی پسند اور ناپسند کا دارومدار انسانی عقل نہیں بلکہ اس کا انحصار وحی الٰہی پر ہے۔ حصول جنت کی پہلی سیڑھی اللہ تعالیٰ کی عبادت ہے۔ لیکن عبادت اس وقت قبول ہوتی ہے جب خالص اللہ کے لیے ہو اس میں شرک کا شائبہ نہ ہو۔ اس لیے ساتھ ہی حکم دے دیا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا کیونکہ شرک سے ساری ریاضتیں برباد ہو جاتی ہیں۔ عبادت ظاہری کی عملی تصویر نماز ہے جس کے بغیر تصور ایمان بھی دھندلا جاتا ہے۔ قابل توجہ بات یہ ہے کہ اقامت صلاۃ کا حکم دیا ہے اور قرآن مجید یا احادیث میں اکثر مقامات پر نماز قائم کرنے ہی کا حکم ہے۔ ان الفاظ میں پڑھنے سے زیادہ مفہوم ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز کسی خاص ہیئت کا نام ہے جس کے مطابق اسے ادا کرنا ضروری ہے۔ تعدیل ارکان اور اس کی محافظت اس کے مفہوم میں بنیادی طور پر شامل ہیں۔ نماز کو صحیح طریقے، جیسے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے، کے مطابق نہ پڑھنا اسی طرح کبھی پڑھ لینا اور کبھی ترک کر دینا اقامت صلاۃ نہیں ہے۔
(۶) زکاۃ ادا کرنے سے جہاں اللہ تعالیٰ کا قرب نصیب ہوتا ہے اور انسان جنت کا مستحق بن جاتا ہے وہاں مال کی بڑھوتری کے ساتھ ساتھ دنیا کی محبت بھی انسان کے دل میں گھر نہیں کرتی۔ نفس کی پاکیزگی کے لیے توحید اور نماز کا ذکر کیا اور مال ہی کے ساتھ انسان کا جسم بڑھتا ہے اس لیے مال کا پاک ہونا بھی ضروری ہے بصورت دیگر عبادات نہ صرف بے اثر ہو جاتی ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں درجہ قبولیت بھی حاصل نہیں کرسکتیں۔ اس مال کی طہارت کے لیے زکاۃ کا ذکر کیا۔
(۷) زکاۃ کی ادائیگی کے بعد آپ نے اسے حکم دیا کہ صلہ رحمی کرو۔ الرحم، کا اطلاق نسبی رشتہ داروں پر ہوتا ہے اس میں وارث، غیر وارث اسی طرح محرم اور غیر محرم شامل ہیں۔
تعلق داری دو طرح کی ہے:
٭ دین کی بنیاد پر، اسے نبھانا، باہمی محبت، خیر خواہی، عدل و انصاف اور واجب اور غیر واجب حقوق ادا کرنا۔
٭ رشتہ داری کی بنیاد پر، اس میں مذکورہ بالا چیزوں کے ساتھ ساتھ قریبی عزیزوں پر خرچ کرنا، ان کی خبر گیری کرنا اور ان کی لغزشوں سے درگزر کرنا شامل ہے۔
دوسرے معنوں میں جس قدر ممکن ہو عزیز و اقارب کا بھلا کرنا اور مصائب میں ان کے کام آنا صلہ رحمی ہے لیکن یہ بہت دل گردے کی بات ہے۔
صلہ رحمی کبھی مال سے ہوتی ہے، کبھی ملاقات سے، کبھی مدد ونصرت سے، کبھی دعا کے ذریعے سے اور خندہ پیشانی سے ملنا بھی صلہ رحمی ہوتی ہے۔
کافر اور فاسق رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی یہ ہے کہ انہیں ہر ممکن اسلام کی دعوت دی جائے اور اگر وہ انکار کریں تو ان سے دلی تعلق نہ رکھے۔ البتہ دین کی دعوت پیش کرنے کے لیے گاہے گاہے ملاقات کرنے میں کوئی حرج نہیں تاہم ان کی ہدایت کی دعا کرتا رہے۔ (صحیح الادب المفرد)
   فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 49