الادب المفرد
كِتَابُ صِلَةِ الرَّحِمِ
كتاب صلة الرحم
25. بَابُ وُجُوبِ وصِلَةِ الرَّحِمِ
صلہ رحمی کے وجوب کا بیان
حدیث نمبر: 47
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ: حَدَّثَنَا ضَمْضَمُ بْنُ عَمْرٍو الْحَنَفِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا كُلَيْبُ بْنُ مَنْفَعَةَ قَالَ: قَالَ جَدِّي: يَا رَسُولَ اللهِ، مَنْ أَبَرُّ؟ قَالَ: ”أُمَّكَ وَأَبَاكَ، وَأُخْتَكَ وَأَخَاكَ، وَمَوْلاَكَ الَّذِي يَلِي ذَاكَ، حَقٌّ وَاجِبٌ، وَرَحِمٌ مَوْصُولَةٌ.“
کلیب بن منفعہ کا بیان ہے کہ ان کے دادا (بکر بن حارث انصاری) نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں کس سے حسن سلوک کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنی ماں سے، اپنے باپ سے، اپنی بہن سے اور اپنے بھائی سے حسن سلوک کرو۔ اور ان کے علاوہ جو عزیز و اقارب ہیں ان سے حسن سلوک کرو۔ یہ حق واجب ہے اور رشتہ داری کو نبھانا اور صلہ رحمی کرنا لازم ہے۔“
تخریج الحدیث: «ضعيف: أخرجه أبوداؤد، الأدب، باب فى بر الوالدين: 5140 و الطبراني فى الكبير: 310/22 و البخاري فى التاريخ الكبير: 230/7، الإرواء: 837، 2163»
قال الشيخ الألباني: ضعیف
الادب المفرد کی حدیث نمبر 47 کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 47
فوائد ومسائل:
یہ روایت اس سیاق سے ضعیف ہے (دیکھیے، الارواء حدیث: ۸۳۷)سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے صحیح مسلم میں مروی حدیث میں اس طرح ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب پوچھا گیا کہ حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے تو آپ نے تین بار والدہ کا نام لیا اور آخری بار فرمایا: پھر تیرا باپ اور اس کے بعد جو جتنا قریبی ہے اس کے ساتھ اس لحاظ سے حسن سلوک کرو۔ (صحیح مسلم، البر والصلة والأدب، حدیث: ۲۵۴۸)
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 47