Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

الادب المفرد
كِتَابُ الْوَالِدَيْنِ
كتاب الوالدين
19. بَابُ بِرِّ الْوَالِدَيْنِ بَعْدَ مَوْتِهِمَا
والدین کے ساتھ ان کی موت کے بعد حسن سلوک کرنا
حدیث نمبر: 39
حَدَّثَنَا يَسَرَةُ بْنُ صَفْوَانَ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ رَجُلاً قَالَ‏:‏ يَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّ أُمِّي تُوُفِّيَتْ وَلَمْ تُوصِ، أَفَيَنْفَعُهَا أَنْ أَتَصَدَّقَ عَنْهَا‏؟‏ قَالَ‏:‏ ”نَعَمْ‏.‏“
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، ایک آدمی نے کہا: یا رسول اللہ! بے شک میری ماں فوت ہو گئی ہے اور اس نے کوئی وصیت نہیں کی۔ اگر میں اس کی طرف سے صدقہ کروں تو اسے نفع دے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں۔

تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، الوصايا: 2756 و الترمذي: 669 و أبوداؤد: 2882 و النسائي: 3654»

قال الشيخ الألباني: صحیح

الادب المفرد کی حدیث نمبر 39 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 39  
فوائد ومسائل:
(۱)اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آدمی اگر کسی بھلائی کے کام کی وصیت کرنا چاہتا ہے تو اسے وصیت لکھ کر اپنے پاس رکھنی چاہیے کیونکہ موت کسی بھی وقت انسان کو آسکتی ہے۔
(۲) صحیح بخاری وغیرہ میں ہے کہ وہ اچانک فوت ہوگئی، بعض روایات میں ہے کہ اگر اسے موقع ملتا تو وہ صدقہ کرتی۔ اس سے معلوم ہوا کہ انسان کو فوت ہونے سے پہلے کچھ نہ کچھ مال اللہ کے راستے میں ضرور صدقہ کرنا چاہیے۔ زیادہ سے زیادہ تہائی ۳؍۱ مال کی وصیت جائز ہے، باقی وارثوں کا حق ہے۔ صدقہ کرنے سے انسان کے گناہ مٹ جاتے ہیں اور گناہوں کے مٹنے کی وجہ سے فرسودہ روح میں تازگی آجاتی ہے۔
(۳) فوت شدگان کی طرف سے صدقہ و خیرات کرنا جائز ہے اور اس کے لیے نیت ہی کافی ہے کہ اس کا ثواب اللہ تعالیٰ فلاں شخص کو دے۔ ایصال ثواب کا مروجہ طریقہ محل نظر ہے۔ اس بارے قاعدہ یہی ہے کہ مرنے کے بعد انسان کے اعمال کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے البتہ شرعی نص سے جن جن چیزوں کا میت کی طرف سے کرنے کا ثبوت ہے، وہ جائز ہیں۔ ان میں سے ایک صدقہ بھی ہے۔ ان چیزوں پر قرآن خوانی اور دیگر رسومات کو قیاس کرنا ہر صورت ناجائز ہے۔
جائز صورتیں درج ذیل ہیں:
٭ والدین اولاد کی ہر نیکی میں شریک ہیں اور اس کے لیے نیت کی بھی ضرورت نہیں کیونکہ اولاد والدین کی کمائی ہے۔
٭ اولاد والدین کے لیے دعا کرے، ان کی طرف سے صدقہ و خیرات کرے، حج کرے، جائز ہے۔ یہ کام کوئی دوسرا شخص بھی فوت شدہ کی طرف سے کرسکتا ہے۔ اولاد میں سے کوئی فوت ہو جائے تو والدین اس کی طرف سے صدقہ و خیرات کریں۔
٭ کسی کے ذمے نذر کے روزے ہوں تو اس کا قریبی اس کی طرف سے یہ روزے رکھے گا۔
٭ مالی قرض ادا کیا جاسکتا ہے بلکہ کرنا چاہیے۔
جہاں تک نماز کا تعلق ہے تو وہ کسی دوسرے کی طرف سے ادا نہیں کی جاسکتی۔ اسی طرح قرآن خوانی، مرنے کے بعد اس کے گھر استغفار کا ورد اور دیگر بدعات کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
(۴) اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کسی چیز کے ثواب ہونے کا تعین کرنا، صرف اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اختیار ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اسی منہج پر کاربند تھے کہ کوئی بھی کام کرنے سے پہلے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے راہنمائی لیتے تھے۔ جیسا کہ اس صحابی نے اپنے دل میں خواہش پیدا ہونے پر عمل نہیں کیا بلکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں دریافت کرنا ضروری سمجھا۔ گویا کسی چیز کے ثواب یا گناہ کے تعین کا اختیار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی نہیں تھا۔
(۵) والدین کے فوت ہونے کے بعد ان کی طرف سے صدقہ کرنا، ان سے حسن سلوک ہے۔ والدین کی زندگی میں بھی ان سے حسن سلوک کرنا چاہیے۔ بعض لوگ والدین کی زندگی میں انہیں اذیت دیتے رہتے ہیں اور فوت ہونے کے بعد ان کے دل میں ان سے حسن سلوک کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔
(۶) کوئی بھی کام نیکی کے جذبے سے کرنے سے پہلے یہ دریافت کر لینا ضروری ہے، آیا یہ کام شریعت کی نظر میں نیکی ہے؟
(۷) والدین یا کوئی مسلمان اگر کسی نیکی میں کوتاہی کرے اور دنیا سے چلا جائے تو اس کے بارے میں حسن ظن رکھنا چاہیے کہ کسی وجہ سے وہ سر انجام نہیں دے سکا ورنہ اس کا جذبہ تو اچھا تھا۔
   فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 39