الادب المفرد
كِتَابُ الْوَالِدَيْنِ
كتاب الوالدين
2. بَابُ بِرِّ الأُمِّ
والدہ کے ساتھ حسن سلوک کا بیان
حدیث نمبر: 4
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ أَبِي كَثِيرٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّهُ أَتَاهُ رَجُلٌ فَقَالَ: إِنِّي خَطَبْتُ امْرَأَةً، فَأَبَتْ أَنْ تَنْكِحَنِي، وَخَطَبَهَا غَيْرِي، فَأَحَبَّتْ أَنْ تَنْكِحَهُ، فَغِرْتُ عَلَيْهَا فَقَتَلْتُهَا، فَهَلْ لِي مِنْ تَوْبَةٍ؟ قَالَ: أُمُّكَ حَيَّةٌ؟ قَالَ: لاَ، قَالَ: تُبْ إِلَى اللهِ عَزَّ وَجَلَّ، وَتَقَرَّبْ إِلَيْهِ مَا اسْتَطَعْتَ. فَذَهَبْتُ فَسَأَلْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ: لِمَ سَأَلْتَهُ عَنْ حَيَاةِ أُمِّهِ؟ فَقَالَ: إِنِّي لاَ أَعْلَمُ عَمَلاً أَقْرَبَ إِلَى اللهِ عَزَّ وَجَلَّ مِنْ بِرِّ الْوَالِدَةِ.
حضرت عطاء بن یسار رحمہ اللہ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بیان کرتے ہیں کہ ان کے پاس ایک آدمی آیا اور اس نے کہا کہ میں نے ایک عورت کو پیغام نکاح بھیجا تو اس نے مجھ سے نکاح کرنے سے انکار کر دیا۔ پھر میرے علاوہ کسی اور نے نکاح کا پیغام بھیجا تو اس نے رضا مندی کا اظہار کر دیا۔ مجھے اس پر غیرت آ گئی اور میں نے اسے قتل کر دیا۔ کیا میرے لیے توبہ کی کوئی صورت ہے؟ (سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے) فرمایا: کیا تمہاری والدہ زندہ ہے؟ اس نے کہا: نہیں۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: اللہ سے توبہ کر اور جتنا ہو سکتا ہے (اعمال صالحہ وغیرہ سے) اللہ کا قرب حاصل کر، (راوی حدیث حضرت عطاء رحمہ اللہ کہتے ہیں) میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس گیا اور ان سے عرض کی: آپ نے اس سے اس کی ماں کے زندہ ہونے کا سوال کیوں کیا؟ تو انہوں نے فرمایا: میرے علم میں والدہ کے ساتھ حسن سلوک سے بڑھ کر کوئی عمل اللہ کا قرب حاصل کرنے کا ذریعہ نہیں ہے۔
تخریج الحدیث: «صحيح: الصحيحة: 2799»
قال الشيخ الألباني: صحیح
الادب المفرد کی حدیث نمبر 4 کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 4
فوائد ومسائل:
۱۔ غیرت انسان کی فطرت میں شامل ہے اور بسااوقات یہ ممدوح ہوتی ہے جس طرح آدمی کا اپنا اہل و عیال پر غیرت کرنا، اور اگر نہ کرے تو وہ دیوث ہوجاتا ہے لیکن بسااوقات مذموم اور قابل سزا ہوتی ہے جیسا کہ اس حدیث میں ذکر کیاگیا ہے، اس لیے کہ عورت کواختیار ہے کہ جس کا چاہے پیغامِ نکاح قبول کرے اور جس کا چاہے ردّ کردے اور ایسا بغیر وجہ کے بھی کیا جاسکتا ہے۔
۲۔ اس حدیث سے غیرت کے خطرناک نتائج کا بھی علم ہوتا ہے کہ یہ انسان کو غیبت، حسد، کینہ اور بغض جیسے گناہوں میں ملوث کردیتی ہے حتی کہ انسان قتل جیسا قبیح فعل بھی کر بیٹھتا ہے۔
۳۔ قتل گناہ کبیرہ ہے لیکن اگر کسی انسان سے سرزد ہوجائے تو اس کے لیے توبہ کا دروازہ کھلا ہے، اگر وہ سچے دل سے توبہ کرنا چاہتا ہے۔ اور توبہ کا مطلب یہ ہے وہ اپنے کیے پر نادم اور شرمندہ ہو لیکن یاد رہے کہ دیت بہر صورت ادا کرنا پڑے گی الاَّ یہ کہ ورثاء معاف کردیں۔
۴۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بڑے سے بڑا گناہ بھی ہوجائے تو اللہ سے ناامید نہیں ہونا چاہیے بلکہ فوراً معافی مانگ لینی چاہیے، اللہ اپنی بے پایاں رحمت سے معاف فرمادے گا۔
۵۔ عالم کو چاہیے کہ سائل کو کبھی مایوس نہ کرے بلکہ اسے توبہ کا بہترین رستہ بتائے اور کسی ایسے عمل کی طرف رہنمائی کرے جو اس کے اس گناہ کا کفارہ بن جائے۔ اس لیے کہ اگر وہ ناامید ہوگیا تو ممکن ہے وہ مزید سرکشی اور گناہ میں مبتلا ہوجائے جیسا کہ بنی اسرائیل کے سو آدمیوں کے قاتل کا واقعہ ہے کہ ننانوے قتل کرکے جب اس نے کسی آدمی سے پوچھا تو اس نے جواب دیا: تیری کوئی توبہ نہیں۔ تو اس نے اسے بھی قتل کردیا۔ (بخاری)
۶۔ اعمال صالحہ گناہوں کو ختم کردیتے ہیں، جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿اِنَّ الْحَسَنَاتِ یُذْهِبْنَ السَّیِّئَاتِ﴾
لیکن علماء میں یہ مسئلہ مختلف فیہ ہے کہ کبیرہ گناہ بھی ختم ہوجاتے ہیں یا اس کے لیے الگ سے توبہ کی ضرورت ہوتی ہے؟ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے جواب سے معلوم ہوتا ہے کہ محض نیک کام ہی کبیرہ گناہوں کو بھی ختم کردیتے ہیں اس لیے کہ جو آدمی نیک اعمال کرتا ہے وہ یقینا اپنے گناہ پر نادم ہوتا ہے اور ندامت خود توبہ ہے اور اس کا نیک اعمال کرنا بھی توبہ کا ایک طریقہ ہے۔
۷۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ والدہ کے ساتھ حسن سلوک بھی ان اعمال میں سے ہے جو کبیرہ گناہوں کا کفارہ بن جاتے ہیں۔
۸۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کے فرمان: لَا أَعْلَمُ ....سے ان کی تواضع اور انکساری کا اظہار ہوتا ہے۔ انھوں نے یہ نہیں کہا: کوئی عمل اس سے بڑھ کر نہیں بلکہ یوں کہا کہ میرے علم میں کوئی عمل ایسا نہیں۔ اسے علماء کو اپنا شیوہ بنانا چاہیے اور دعویٰ کمال سے اجتناب کرنا چاہیے۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 4