مسند اسحاق بن راهويه
كتاب أحوال الاخرة
احوال آخرت کا بیان
قیامت کے دن بغیر حساب کے جنت میں داخل ہونے والوں کا بیان
حدیث نمبر: 956
أَخْبَرَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، نا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِسْحَاقَ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ يَزِيدَ الْعَبْسَمِيَّةِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" يُحْشَرُ النَّاسُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِي صَعِيدٍ وَاحِدٍ، فَيُسْمِعُهُمُ الدَّاعِي وَتُبْعِدُهُمُ الْبَصَرُ، ثُمَّ يَقُومُ مُنَادِي فَيُنَادِي يَقُولُ: سَيُعْلَمُ أَهْلُ الْجَمْعِ الْيَوْمَ مَنْ أَوْلَى بِالْكَرَمِ، فَيَقُولُ: أَيْنَ الَّذِينَ يَحْمَدُونَ اللَّهَ فِي السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ، فَيَقُومُونَ: وَهُمْ قَلِيلُونَ، فَيُدْخَلُونَ الْجَنَّةَ بِغَيْرِ حِسَابٍ، ثُمَّ يَعُودُ فَيُنَادِي: أَيْنَ الَّذِينَ ﴿لَا تُلْهِيهِمُ تِجَارَةٌ وَلَا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ﴾ [النور: 37] الْآيَةَ، فَيَقُومُونَ وَهُمْ قَلِيلُونَ فَيُدْخَلُونَ الْجَنَّةَ بِغَيْرِ حِسَابٍ، ثُمَّ يَعُودُ فَيُنَادِي فَيَقُولُ: أَيْنَ الَّذِينَ تَتَجَافَى جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ , فَيَقُومُونَ وَهُمْ قَلِيلُونَ فَيُدْخَلُونَ الْجَنَّةَ بِغَيْرِ حِسَابٍ، ثُمَّ سَائِرَ النَّاسِ فَيُحَاسَبُونَ".
سیدہ اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت کے دن لوگ ایک میدان میں آئیں گے، داعی انہیں آواز سنا سکے گا، نظر انہیں دیکھ پائے گی، پھر ایک منادی کھڑا ہو گا تو وہ اعلان کرے گا: آج سب کو معلوم ہو جائے گا کہ کرم کا سب سے زیادہ حقدار کون ہے، پس وہ کہے گا: وہ لوگ کہاں ہیں جو خوش حالی اور تنگ حالی میں اللہ کی حمد کیا کرتے تھے، تو وہ کھڑے ہوں گے اور وہ کم ہی ہوں گے، پس وہ بغیر حساب جنت میں داخل ہوں گے، پھر وہ اعلان کرے گا: وہ لوگ کہاں ہیں؟ جنہیں ان کی تجارت اور لین دین کے معاملات اللہ کے ذکر سے غافل نہیں کرتے، پس وہ کھڑے ہوں گے اور وہ کم ہوں گے، پس وہ حساب کے بغیر جنت میں داخل ہوں گے، پھر وہ دوبارہ اعلان کرے گا تو کہے گا وہ کہاں ہیں؟، جن کے پہلو بستروں سے الگ رہتے تھے۔ تو وہ کھڑے ہوں گے اور وہ کم ہوں گے، پس وہ بھی بغیر حساب جنت میں داخل ہوں گے، پھر باقی لوگوں کا حساب ہو گا۔“
تخریج الحدیث: «مسند عبد بن حميد، رقم: 1581. شعب الايمان، رقم: 693. مصنف عبدالرزاق، رقم: 20578. اسناده ضعيف.»