مسند اسحاق بن راهويه
كتاب أحوال الاخرة
احوال آخرت کا بیان
روزِ قیامت ساری انسانیت کا خفزدہ رہنا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کا بیان
حدیث نمبر: 946
أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ الْقَعْقَاعِ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ بْنِ عَمْرِو بْنِ جَرِيرٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ:" وَضَعْتُ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَصْعَةً مِنْ ثَرِيدٍ فَنَاوَلَ الذِّرَاعَ وَكَانَ أَحَبَّ الشَّاةِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَهَشَ نَهْشَةً، فَقَالَ: أَنَا سَيِّدُ وَلَدِ آدَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ"، فَلَمَّا رَأَى أَنَّ أَصْحَابَهُ لَا يَسْأَلُوهُ قَالَ: ((أَلَا تَقُولُونَ كَيْفَهْ؟)) فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ كَيْفَهْ؟، قَالَ: ((يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ، يُسْمِعُهُمُ الدَّاعِي وَيُنْفِذُهُمُ الْبَصَرُ، وَتَدْنُوا الشَّمْسُ مِنْ رُؤُوسِهِمْ فَيَشْتَدُّ عَلَيْهِمْ حَرْقًا وَيَشُقُّ عَلَيْهِمْ دُنُوُّهَا مِنْهُمْ))، قَالَ:" فَيَنْطَلِقُونَ مِنَ الضَّجَرِ وَالْجَزَعِ مِمَّا هُمْ فِيهِ فَيَأْتُونَ آدَمَ فَيَقُولُونَ: يَا آدَمُ، أَنْتَ أَبُو الْبَشَرِ، خَلَقَكَ اللَّهُ بِيَدِهِ، وَأَمَرَ الْمَلَائِكَةَ فَسَجَدُوا لَكَ، فَاشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، أَلَا تَرَى مَا نَحْنُ فِيهِ مِنَ الشَّرِّ؟، فَيَقُولُ آدَمُ: إِنَّ رَبِّي غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ، وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ، وَإِنَّهُ كَانَ أَمَرَنِي بِأَمْرٍ فَعَصَيْتُهُ وَأَطَعْتُ الشَّيْطَانَ، نَهَانِي عَنِ الشَّجَرَةِ، فَعَصَيْتُهُ فَأَخَافُ أَنْ يَطْرَحَنِي فِي النَّارِ فَانْطَلِقُوا إِلَى غَيْرِي، نَفْسِي نَفْسِي، فَيَنْطَلِقُونَ إِلَى نُوحٍ، فَيَقُولُونَ: يَا نُوحُ أَنْتَ نَبِيُّ اللَّهِ وَأَوَّلُ رُسُلِ اللَّهِ، اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ أَلَا تَرَى مَا نَحْنُ فِيهِ مِنَ الشَّرِّ؟، فَيَقُولُ نُوحٌ: إِنَّ رَبِّي غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ، وَإِنَّهُ كَانَتْ لِي دَعْوَةٌ فَدَعَوْتُ بِهَا عَلَى قَوْمِي فَأُهْلِكُوا، وَإِنِّي أَخَافُ أَنْ يَطْرَحَنِي فِي النَّارِ، انْطَلِقُوا إِلَى غَيْرِي، نَفْسِي نَفْسِي، قَالَ: فَيَنْطَلِقُونَ فَيَأْتُونَ إِبْرَاهِيمَ، فَيَقُولونَ: يَا إِبْرَاهِيمُ أَنْتَ خَلِيلُ اللَّهِ، قَدْ سَمِعَ بِخُلَّتِكُمَا أَهْلُ السَّمَوَاتِ وَأَهْلُ الْأَرْضِ، اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، أَلَا تَرَى مَا نَحْنُ فِيهِ مِنَ الشَّرِّ؟، فَيَقُولُ إِبْرَاهِيمُ: إِنَّ رَبِّي غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ، وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ"، وَذَكَرَ الْكَوَاكِبَ، قَوْلَهُ: ((إِنَّهُ رَبِّي))، وَقَوْلَهُ لِآلِهَتِهِمْ: ((هَذَا كَبِيرُهُمْ)) وَقَوْلَهُ:" إِنِّي سَقِيمٌ، وَإِنِّي أَخَافُ أَنْ يَطْرَحَنِي فِي النَّارِّ انْطَلِقُوا إِلَى غَيْرِي نَفْسِي نَفْسِي، قَالَ: فَيَنْطَلِقُونَ حَتَّى يَأْتُوا مُوسَى فَيَقُولُونَ: يَا مُوسَى أَنْتَ نَبَيُّ اللَّهِ اصْطَفَاكَ اللَّهُ بِرِسَالَاتِهِ وَكَلَّمَكَ تَكْلِيمَا، اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ أَلَا تَرَى مَا نَحْنُ فِيهِ مِنَ الشَّرِّ؟، فَقَالَ مُوسَى: إِنَّ رَبِّي غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ، وَإِنِّي قَتَلْتُ نَفْسَا لَمْ أُؤْمَرْ بِهَا، فَأَخَافُ أَنْ يَطْرَحَنِي فِي النَّارِّ انْطَلِقُوا إِلَى غَيْرِي نَفْسِي نَفْسِي، قَالَ: فَيَنْطَلِقُونَ حَتَّى يَأْتُوا عِيسَى فَيَقُولُونَ: يَا عِيسَى أَنْتَ نَبِيُّ اللَّهِ وَكَلِمَتُهُ وَرُوحُهُ أَلْقَاهَا عَلَى مَرْيَمَ وَرُوحٌ مِنْهُ، اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ أَلَا تَرَى مَا نَحْنُ فِيهِ مِنَ الشَّرِّ؟، فَيَقُولُ عِيسَى: إِنَّ رَبِّي غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ، وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ"، قَالَ عُمَارَةُ: وَلَا أَعْلَمُ ذَكَرَ ذَنْبًا، قَالَ:" إِنِّي أَخَافُ أَنْ يَطْرَحَنِي فِي النَّارِّ، انْطَلِقُوا إِلَى غَيْرِي نَفْسِي نَفْسِي، قَالَ: فَيَنْطَلِقُونَ فَيَأْتُونَ فَيَقُولُونَ: يَا مُحَمَّدُ أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ وَخَاتَمُ النَّبِيِّينَ قَدْ غَفَرَ اللَّهُ لكَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ، اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، قَالَ: فَأَنْطَلِقُ فَآتِي تَحْتَ الْعَرْشِ فَأَقَعُ سَاجِدًا لِرَبِّي فَيُقِيمُنِي رَبُّ الْعَالَمِينَ مَقَامًا لَمْ يَقُمْهُ أَحَدٌ قَبْلِي، فَيَقُولُ يَا مُحَمَّدُ: اشْفَعْ تُشَفَّعْ، وَسَلْ تُعْطَهْ: فَأَقُولُ يَا رَبِّ أُمَّتِي أُمَّتِي، فَيَقُولُ اللَّهُ لَهُ: أَدْخِلْ مَنْ لَا حِسَابَ عَلَيْهِ مِنْ أُمَّتِكَ الْبَابَ الْأَيْمَنَ وَهُمْ شُرَكَاءُ النَّاسِ فِي الْأَبْوَابِ الْأُخَرِ، وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، مَا بَيْنَ الْبَابِ إِلَى الْبَابِ كَمَا بَيْنَ مَكَّةَ وَهَجَرَ أَوْ مَكَّةَ وَبُصْرَى"، قَالَ: لَا أَدْرِي أَيَّهُمَا قَالَ.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ثرید کا ایک پیالہ رکھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دستی کا گوشت لے لیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بکری کا دستی کا گوشت بہت ہی مرغوب تھا، پس آپ نے دستی کی ہڈی کا گوشت دانتوں سے نوچ کر کھایا تو فرمایا: ”میں قیامت کے دن آدم علیہ السلام کی اولاد کا سردار ہوں گا۔“ پس جب آپ نے دیکھا کہ آپ کے اصحاب آپ سے سوال نہیں کر رہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم کیوں نہیں کہتے، کس طرح؟“ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کس طرح؟ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سارے لوگ پروردگار عالم کے حضور کھڑے ہوں گے، دیکھنے والا انہیں دیکھتا ہو گا اور آواز دینے والے کی آواز سنی جائے گی، سورج ان کے سروں کے قریب ہو جائے گا، اس کی گرمی اور تپش ان پر بہت ہی سخت ہو گی، اور اس کا ان کے قریب ہونا ان پر گراں گزرے گا۔“ فرمایا: ”پس وہ اس تکلیف اور پریشانی کے عالم میں ہوں گے تو اسی حالت میں آدم علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کریں گے: آدم! آپ ابوالبشر ہیں، اللہ نے اپنے ہاتھ سے آپ کو پیدا فرمایا، فرشتوں کو حکم فرمایا تو انہوں نے آپ کو سجدہ کیا، اپنے رب سے ہمارے سفارش کریں، کیا آپ دیکھ نہیں رہے کہ ہم کس بری حالت سے دوچار ہیں؟ پس آدم علیہ السلام فرمائیں گے: میرا پروردگار آج اس قدر غصے میں ہے کہ وہ اتنا غصے میں کبھی ہوا تھا نہ آئندہ ہو گا، پس اس نے مجھے ایک حکم دیا تھا تو میں نے اس کی نافرمانی کی اور میں نے شیطان کی بات مان لی تھی، اس نے مجھے درخت سے منع کیا تھا، تو میں اس میں کوتاہی کر بیٹھا، مجھے تو اندیشہ ہے کہ وہ مجھے جنہم میں نہ پھینک دے، پس تم میرے علاوہ کسی اور کے پاس جاؤ، مجھے تو اپنی ہی پڑی ہے۔ پس وہ نوح علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوں گے، تو عرض کریں گے: اے نوح! آپ اللہ کے نبی اور اللہ کے پہلے رسول ہیں، اپنے رب کے حضور ہماری سفارش کریں، کیا آپ دیکھ نہیں رہے کہ ہم کس قدر تکلیف میں ہیں؟ تو نوح علیہ السلام فرمائیں گے: میرا رب جس قدر آج غصے میں ہے اس قدر وہ آج سے پہلے غصے میں تھا نہ اس قدر اس کے بعد غصے میں ہو گا، مجھے ایک دعا کرنے کا حق دیا گیا تھا تو میں نے وہ دعا اپنی قوم پر بددعا کے لیے استعمال کر لی تو وہ ہلاک ہو گئے، مجھے تو اندیشہ ہے کہ وہ مجھے آگ میں نہ پھینک دے، تم میرے علاوہ کسی اور کے پاس جاؤ، مجھے تو اپنی جان کی فکر ہے۔“ فرمایا:”پس وہ چل کر ابراہیم علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے: اے ابراہیم! آپ اللہ کے خلیل ہیں، آسمان والے اور زمین والے تم دونوں کی خلت (دوستی) کے متعلق سن چکے ہیں، اپنے رب سے ہماری سفارش کریں، کیا آپ دیکھ نہیں رہے کہ ہم کس قدر تکلیف میں ہیں؟ ابراہیم علیہ السلام فرمائیں گے: میرا رب جس قدر آج غصے میں ہے، وہ اس قدر اس سے پہلے کبھی غصے میں آیا ہے نہ وہ اس کے بعد اس قدر غصے میں آئے گا، انہوں نے کواکب (ستاروں) کے بارے میں اپنا قول ذکر کیا، کہ وہ میرا رب ہے، اور ان کے معبودوں کے بارے میں اپنا قول: یہ ان سب سے بڑا ہے، اور اپنی یہ بات کہ میں بیمار ہوں (یاد کریں گے) مجھے تو اندیشہ ہے کہ وہ مجھے جہنم میں نہ ڈال دے، پس تم میرے علاوہ کسی اور کے پاس چلے جاؤ، مجھے اپنی جان کی فکر ہے۔“ فرمایا: ”پس وہ جائیں گے حتیٰ کہ موسیٰ علیہ السلام کے پاس آئیں گے تو کہیں گے: اے موسیٰ! آپ اللہ کے نبی ہیں، اللہ نے اپنی رسالت کے لیے آپ کو چن لیا، آپ سے کلام فرمایا، اپنے رب سے ہماری سفارش کریں، کیا آپ دیکھتے نہیں کہ ہم کس قدر تکلیف میں ہیں؟ موسیٰ علیہ السلام فرمائیں گے: میرا رب جس قدر آج غضبناک ہے وہ اس قدر اس سے پہلے کبھی غضبناک ہوا نہ اس کے بعد قدر غضبناک ہو گا، میں نے ایک شخص کو ناحق قتل کر دیا تھا، مجھے تو اندیشہ ہے کہ وہ مجھے آگ میں نہ پھینک دے، میرے علاوہ کسی اور کے پاس چلے جاؤ، مجھے تو اپنی جان کی فکر ہے۔“ فرمایا: ”پس وہ چل کر عیسیٰ علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے: اے عیسیٰ! آپ اللہ کے نبی اور اس کا کلمہ ہیں اور اس کی روح ہیں جسے اس نے مریم علیہ السلام کی طرف القا کیا تھا، اپنے رب سے ہماری سفارش کریں، کیا آپ دیکھ نہیں رہے کہ ہم کس تکلیف میں ہیں؟ عیسیٰ علیہ السلام فرمائیں گے: میرا رب جس قدر آج غضبناک ہے وہ اس قدر اس سے پہلے غضبناک ہوا نہ اس قدر اس کے بعد غضبناک ہو گا۔ عمارہ (راوی) نے کہا: میں نہیں جانتا کہ انہوں نے کسی لغزش کا ذکر کیا، مجھے تو اندیشہ ہے کہ وہ مجھے جہنم میں نہ پھینک دے، میرے علاوہ کسی اور کے پاس جاؤ، مجھے اپنی جان کی فکر ہے۔ پس وہ چل کر میرے پاس آئیں گے تو کہیں گے: محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )! آپ اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں، اللہ نے آپ کی اگلی پچھلی تمام لغزشیں معاف فرما دی ہیں، اپنے رب سے ہماری سفارش کریں۔ فرمایا: پس میں چلوں گا اور عرش کے نیچے آ کر اپنے رب کے حضور سجدہ ریز ہو جاؤں گا، پس پروردگار عالم مجھے ایسی جگہ کھڑا کرے گا جہاں مجھ سے پہلے کوئی کھڑا نہیں ہوا ہو گا، فرمائے گا: محمد، شفاعت کریں آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی، سوال کریں آپ کا سوال پورا کیا جائے گا۔ میں عرض کروں گا: پروردگار! میری امت کو بچا لے، میری امت کو بچا لے، تو اللہ مجھ سے فرمائے گا: آپ اپنی امت میں سے ایسے افراد کو جن کے ذمے کوئی حساب نہیں، باب ایمن سے داخل فرمائیں۔ اور وہ دیگر ابواب میں لوگوں کے حصے دار ہیں، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے! ایک دروازے سے دوسرے دروازے تک اتنا فاصلہ ہے جتنا مکہ اور ہجر کے درمیان یا مکہ اور بصری کے درمیان فاصلہ ہے۔“ راوی نے کہا: میں نہیں جانتا کہ دونوں میں سے کیا فرمایا۔
تخریج الحدیث: «بخاري، كتاب التفسير، باب سورة الاسراء، رقم: 4712. مسلم، كتاب الايمان، باب ادني اهل الجنة منزلة فيها، رقم: 194. سنن ترمذي، رقم: 2434.»