مسند اسحاق بن راهويه
كتاب الزهد
زہد کے فضائل
چغل خوری حرام ہے
حدیث نمبر: 925
وَبِهَذَا، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ لَهُمْ: ((أَتَدْرُونَ مَا النَّمِيمَةُ؟)) فَقَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: ((نَقْلُ حَدِيثِ النَّاسِ بَعْضِهِمْ إِلَى بَعْضٍ لِيُفْسِدَ بَيْنَهُمْ))وَقَالَ: لَوْ أَنَّ لِابْنِ آدَمَ وَادِيَيْنِ مِنْ مَالٍ لَابْتَغَى وَادِيًا ثَالِثًا، وَلَا يَمْلَأُ نَفْسَ بَنِي آدَمَ إِلَّا التُّرَابُ، وَيَعْفُوا اللَّهُ عَنْ مَنْ يَشَاءُ".
اسی (سابقہ) سند سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا: ”کیا تم جانتے ہو کہ «نميمه» کیا ہے؟“ انہوں نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول بہتر جاتے ہیں، آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگوں کی بات کو دوسرے لوگوں تک پہنچانا تاکہ وہ ان کے درمیان بگاڑ پیدا کرے۔“ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر انسان کے پاس مال کی دو وادیاں ہوں تو وہ تیسری وادی تلاش کرے گا، انسان کے نفس کو (قبر کی) مٹی ہی گھرے گی، اور اللہ جس سے چاہتا ہے درگزر فرماتا ہے۔“
تخریج الحدیث: «بخاري، كتاب الرقاق، باب ما يتقي من فتنة المال، رقم: 6436. مسلم، كتاب الزكاة، باب لو ان لابن آدم وادين لا بتغي ثالثا، رقم: 1049. سنن ترمذي، رقم: 2337.»
مسند اسحاق بن راہویہ کی حدیث نمبر 925 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 925
فوائد:
(1).... مذکورہ حدیث سے چغل خوری کا مفہوم واضح ہوتا ہے، فساد پھیلانے کے لیے ایک دوسرے کی بات آگے منتقل کرنا، ایسے لوگوں کے متعلق (صحیح مسلم، رقم: 105) میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لَا یَدْخُلُ الجَنَّةَ نَمَّامٌ۔)).... ”چغل خور جنت میں نہیں جائے گا۔“
اس سے معلوم ہوا کہ چغلی حرام ہے اور اللہ ذوالجلال نے کفار کی صفات میں ایک صفت بیان فرمائی ہے: ﴿هَمَّازٍ مَّشَّآءٍ مبِنَمِیْمٍ﴾ (القلم: 11).... ”بہت طعنے دینے والا، بہت زیادہ چغل خور۔“
اتنی سخت وعید شریعت نے کیوں فرمائی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ چغلی سے باہمی محبت والفت کی جڑ کٹ جاتی ہے اور چغل خور معاشرے کو برباد کر کے رکھ دیتا ہے۔
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم دو قبروں کے پاس سے گزرے تو فرمایا: ”ان دونوں کو عذاب ہو رہا ہے اور کسی بڑے (مشکل) کام کی وجہ سے عذاب نہیں ہو رہا، ان میں سے ایک تو اپنے پیشاب سے پرہیز نہیں کرتا تھا۔ اور دوسرا ”فَکَانَ یَمْشِیْ بِالنَّمِیْمَۃِ“ ”چغل خور“ تھا۔“ (صحیح بخاري، رقم: 218)
(2).... مذکورہ بالا حدیث میں انسان کی دنیا کے مال کی حرص کا تذکرہ ہے۔ مال کی محبت کوئی بری چیز نہیں ہے، کیونکہ یہ فطری طور پر موجود ہے، لیکن جب اتنی دلچسپی ہو کہ دین سے مال کی محبت غافل کر دے تو یہ کیفیت باعث ہلاکت ہے۔
اگر مال ہے تو اس سے زکوٰۃ و صدقات دئیے جائیں اور فخر وغرور نہ کیا جائے، بلکہ اللہ ذوالجلال کا شکر ادا کیا جائے لیکن اگر مال کو حاصل کرنے کا مقصد لوگوں پر فخر کرنا ہے، تو ایسی محبت مال سے جائز نہیں ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اَلْهٰکُمُ التَّکَاثُرُ﴾ (التکاثر: 1) ”تمہیں ایک دوسرے سے زیادہ مال حاصل کرنے کی حرص نے غافل کر دیا۔“
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دو بھوکے بھیڑئیے، جو بھیڑ بکریوں میں چھوڑ دئیے جائیں، انہیں اتنا فساد نہیں کرتے جتنا آدمی کے مال اور شرف (اونچا ہونے) کی حرص اس کے دین کو خراب کرتی ہے۔“ (سنن ترمذي، رقم: 2376۔ شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس کو صحیح کہا ہے)
مذکورہ بالاحدیث کے آخر میں ہے کہ انسان کے نفس کو مٹی ہی بھرے گی، مطلب یہ کہ ساری زندگی انسان کا دل سیر نہیں ہوتا جب یہ قبر میں دفن ہوگا تب اس کی حرص ختم ہوگی۔
مسند اسحاق بن راھویہ، حدیث/صفحہ نمبر: 925