مسند اسحاق بن راهويه
كتاب الامارة
امارت کے احکام و مسائل
مسلمان حکمرانوں یا جماعت کی اطاعت ترک کرنے کا بیان
حدیث نمبر: 884
أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، نا مَعْمَرٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ غَيْلَانَ بْنِ جَرِيرٍ، عَنْ زِيَادِ بْنِ رَبَاحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((مَنْ خَرَجَ مِنَ الطَّاعَةِ، وَفَارَقَ الْجَمَاعَةَ، فَمَاتَ مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً، وَمَنْ خَرَجَ عَلَى أُمَّتِي بِسَيْفِهِ يَضْرِبُ بَرَّهَا وَفَاجِرَهَا لَا يَتَحَاشَى مُؤْمِنًا لِإِيمَانِهِ وَلَا يَفِي لِذِي عَهْدٍ بِعَهْدِهِ فَلَيْسَ مِنْ أُمَّتِي، وَمَنْ قُتِلَ تَحْتَ رَايَةٍ عِمِّيَّةٍ يَغْضَبُ لِلْعَصَبِيَّةِ وَيُقَاتِلُ لِلْعَصَبِيَّةِ وَيَدْعُو لِلْعَصَبِيَّةِ فَمَاتَ مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً)).
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اطاعت سے نکل کر جماعت سے الگ ہو جائے تو وہ جاہلیت کی موت مرتا ہے اور جو شخص تلوار لے کر میری امت کے خلاف خروج کرتا ہے کہ اس کے نیک و بد کی وجہ سے بچاتا ہے اور نہ کسی عہد والے کے عہد کی پاسداری کرتا ہے، وہ میری امت سے نہیں ہے، اور جو اندھے جھنڈے تلے قتل ہو جاتا ہے کہ وہ عصٰبت کی خاطر غصہ دکھاتا ہے اور عصیبت کی خاطر قتال کرتا ہے اور عصیبت کی دعوت دیتا ہے، پس وہ مر جاتا ہے تو وہ جاہلیت کی موت مرتا ہے۔“
تخریج الحدیث: «السابق»
مسند اسحاق بن راہویہ کی حدیث نمبر 884 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 884
فوائد:
(1).... مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا مسلمان حکمرانوں کی اطاعت ترک نہیں کرنی چاہیے، بلکہ ان کی اطاعت میں زندگی بسر کرنی چاہیے اور جو بندہ جاہلیت کی طرح اطاعتِ امیر سے فرار اختیار کرتے ہوئے مر گیا تو گویا وہ جاہلیت کی موت مرا۔
ایک دوسری حدیث میں ہے، سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”(حکمرانوں کی بات) سنو اور اطاعت کرو اگرچہ تم پر کسی حبشی غلام ہی کو حاکم مقرر کر دیا جائے، گویا کہ اس کا سر انگور ہے (یعنی انگور کی طرح چھوٹا سا ہے جس سے انسان بڑا عجیب سالگتا ہے)۔“ (بخاري، کتاب الاحکام، باب السمع والطاعة للامام، رقم:7152)
(2).... معلوم ہوا مسلمانوں کی جماعت سے الگ رہنا بھی بہت بڑا جرم ہے اور جماعت سے مراد اہل السنۃ والجماعۃ ہیں۔ جن کا عقیدہ توحید ہے اور وہ سنت کے پیروکار ہیں۔ ایک دوسری حدیث میں ہے، سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے جماعت سے بالشت بھر بھی علیحدگی اختیار کی، اس نے اسلام کی رسی کو اپنے گلے سے اتار پھینکا۔“ (سنن ابي داود، رقم: 4758)
(3).... معلوم ہوا گمراہی کے جھنڈے کے نیچے لڑنا بہت بڑا جرم ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بغیر تحقیق کیے ہوئے کسی جماعت کے ساتھ ہو کر دوسری جماعت سے لڑنا یا آدمی صرف اپنے خاندان یا دوستی یا اپنی پارٹی کی وجہ سے لڑ رہا ہے تو ایسا گروہ اگر حق پر بھی ہو، پھر بھی مرنے والا جاہلیت کی موت مرے گا، کیونکہ اس کی نیت حق کا ساتھ دینا نہ تھا بلکہ اپنی پارٹی کا ساتھ دینا تھا۔ کیونکہ اسلام سے قبل لوگ اپنی برادریوں قبیلوں کی خاطر لڑتے تھے حق ناحق کی پہچان نہیں کرتے تھے اسلام نے ایسی لڑائیوں کو ناجائز قرار دیا ہے۔
مسند اسحاق بن راھویہ، حدیث/صفحہ نمبر: 884