مسند اسحاق بن راهويه
كتاب البر و الصلة
نیکی اور صلہ رحمی کا بیان
مسلمان کا کسی مسلمان پر ظلم کرنے کا انجام
حدیث نمبر: 797
أَخْبَرَنَا كُلْثُومٌ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((الْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ لَا يَظْلِمُهُ وَلَا يَخْذُلُهُ))، ثُمَّ أَشَارَ بِيَدِهِ إِلَى صَدْرِهِ فَقَالَ: ((التَّقْوَى هَاهُنَا)).
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”طاقتور وہ نہیں جو لوگوں پر غالب آ جائے، طاقتور وہ ہے جو اپنے نفس پر قابو رکھے۔“
تخریج الحدیث: «بخاري، كتاب الظلم، باب لا بظلم المسلم ولا يخذله.. رقم: 2442. مسلم، كتاب البروالصلة، باب تحريم الظلم، رقم: 2580. سنن ابوداود، رقم: 4839. سنن ترمذي، رقم: 1426. مسند احمد: 68/2.»
مسند اسحاق بن راہویہ کی حدیث نمبر 797 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 797
فوائد:
(1).... معلوم ہوا کوئی مسلمان نہ کسی مسلمان پر ظلم کرے اور نہ ہی ظالم کو اس پر ظلم کرنے دے کیونکہ ظلم کا انجام برا ہے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے ((اَلظُّلْمُ ظُلُمَاتٌ یَوْمَ الْقِیَامَةِ)) (بخاري، رقم: 2447.... ”ظلم کی وجہ سے روزِ قیامت اندھیرے ہی اندھیرے ہوں گے۔“
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص نے اپنے بھائی پر کوئی ظلم کیا ہو وہ اس سے معاف کروا لے، کیونکہ وہاں درہم ودینار نہیں۔ اس سے پہلے کہ اس کے بھائی کے لیے اس کی نیکیاں لے لی جائیں، اگر نیکیاں نہ ہوئیں تو اس کے بھائی کی برائیاں لے کر اس پر ڈال دی جائیں۔“ (بخاري، رقم: 2449۔ 6534)
(2).... ایک دوسری حدیث میں ہے، سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((اِنَّ اللّٰهَ لَا یَنْظُرُ اِلٰی اَجْسَادِکُمْ َوَلا اِلٰی صُوَرِکُمْ وَاَمْوَالِکُمْ وَلٰکِنْ اِنَّمَا یَنْظُرُ اِلٰی قُلُوْبِکُمْ وَاَشَارَ بِاَصَابِعِهٖ اِلٰی صَدْرِهٖ وَاَعْمَالِکُمْ)) (مسلم، رقم: 2564۔ سلسلة الصحیحة، رقم: 2656)
”بیشک اللہ تعالیٰ تمہارے جسموں، شکلوں اور مالوں کی طرف نہیں دیکھتا، وہ تو صرف تمہارے دلوں اور عملوں کو دیکھتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلی سے اپنے سینے کی طرف اشارہ فرمایا۔“
خوبصورتی یا بدصورتی، مال کا ہونا یا نہ ہونا، یہ بندے کے اختیار میں نہیں۔ بلکہ اللہ ذوالجلال جسے چاہے دے، اصل دل کی طہارت اور اعمال صالحہ ہیں۔ قرآن مجید میں ہے کہ اللہ ذوالجلال نے ارشاد فرمایا: ﴿اِِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقَاکُمْ﴾ (الحجرات: 13).... ”بے شک تم میں سب سے باعزت اللہ کے ہاں تم میں سے زیادہ تقویٰ والا ہے۔“
دل پاک نہ ہو تو انساں پاک ہو نہیں سکتا
ابلیس کو بھی آتے تھے وضو کے فرائض بہت
مسند اسحاق بن راھویہ، حدیث/صفحہ نمبر: 797