Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

مسند اسحاق بن راهويه
كتاب البر و الصلة
نیکی اور صلہ رحمی کا بیان
ہر چیز پانی سے پیدا کی گئی ہے
حدیث نمبر: 759
أَخْبَرَنَا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ، نا هَمَّامُ بْنُ يَحْيَى، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ هِلَالِ بْنِ أَبِي مَيْمُونَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي إِذَا رَأَيْتُكَ طَابَتْ نَفْسِي وَقَرَّتْ عَيْنِي فَأَنْبِئْنِي عَنْ كُلِّ شَيْءٍ، فَقَالَ: ((كُلُّ شَيْءٍ خُلِقَ مِنَ الْمَاءِ))، فَقُلْتُ لَهُ: أَخْبِرْنِي بِشَيْءٍ إِذَا عَمِلْتُ بِهِ دَخَلْتُ الْجَنَّةَ، فَقَالَ: ((أَفْشِ السَّلَامَ وَأَطْعِمِ الطَّعَامَ، وَصِلِ الْأَرْحَامَ وَقُمْ بِاللَّيْلِ وَالنَّاسُ نِيَامٌ وَادْخُلِ الْجَنَّةَ بِسَلَامٍ)).
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا، اللہ کے رسول! جب میں آپ کی زیارت کرتا ہوں تو میرا دل خوش ہو جاتا ہے اور آنکھیں ٹھنڈی ہو جاتی ہیں، آپ مجھے ہر چیز کے متعلق بتا دیں، آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر چیز پانی سے پیدا کی گئی ہے۔ میں نے عرض کیا: آپ مجھے کسی ایسی چیز (عمل) کے متعلق بتا دیں کہ جب میں اسے بجا لاؤں تو میں جنت میں داخل ہو جاؤں، آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سلام کو عام کرو، کھانا کھلاؤ، صلہ رحمی کرو، رات کو قیام کرو (تہجد پڑھو) جبکہ لوگ سو رہے ہوں تو سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤ۔

تخریج الحدیث: «مسند احمد: 295/2. قال الشيخ شعيب الارناوط: اسناده صحيح. مستدرك حاكم: 144/4.»

مسند اسحاق بن راہویہ کی حدیث نمبر 759 کے فوائد و مسائل
   الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 759  
فوائد:
مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار کر کے خوشی محسوس کرتے تھے۔
(1).... مذکورہ حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ہر چیز کو اللہ ذوالجلال نے پانی سے پیدا کیا ہے۔ قرآن مجید میں ہے: ﴿وَ جَعَلْنَا مِنَ الْمَآءِ کُلَّ شَیْئٍ حَیٍّ﴾ (الانبیاء: 30).... ہر زندہ چیز کو ہم نے پانی سے پیدا کیا۔
تو اس سے مراد اگر بارش اور چشموں کا پانی ہے، تب بھی واضح ہے کہ اس سے روئیدگی ہوتی اور ہر ذی روح کو حیات نو ملتی ہے۔
(2).... اور اگر مراد نطفہ ہے تو اس میں بھی کوئی اشکال نہیں کہ ہر زندہ چیز کے وجود کا باعث وہ قطرہ آب ہے جو نر کی صلب سے نکلتا اور مادہ کے رحم میں جا کر قرار پکڑتا ہے۔ (تفسیر احسن البیان)
جنت میں لے جانے والے اعمال:
(1) سلام کو عام کرنا:.... سلام پھیلانے کا مطلب یہ ہے کہ ہر شخص کو سلام کرے خواہ پہچانتا ہو یا نہ پہچانتا ہو۔ جیسا کہ سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا۔ اَیُّ الْاِسْلَامِ خَیْرٌ، اسلام کی کون سی چیزیں سب سے اچھی ہیں؟ فرمایا یہ کہ تو کھانا کھلائے اور سلام کو عام کہے اس کو جس کو تو پہچانتا ہے اور جس کو تو نہیں پہچانتا۔ (بخاري، کتاب الایمان، رقم: 12)
اسی طرح سلام اتنی آواز سے کہے کہ دوسرا اس کو سن لے۔ جیسا کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے: ((اِذَا سَلَّمْت فَاسْمَعْ فَاِنَّهَا تَحِیَّةٌ مِّنْ عِنْدَ اللّٰهِ)).... جب سلام کہو تو سنا کر کہو، کیونکہ یہ اللہ کی طرف سے تحفہ ہے۔
(2) کھانا کھلانا:.... سب سے پہلے ان کو جن کی کفالت اس کے ذمے ہے، جیسا کہ نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((وَابْدَاُ بِمَنْ تَعُوْلْ)).... ابتدا ان کے ساتھ کرو جو تمہارے عیال ہیں۔
اور فرمایا: ((کَفٰی بِالْمَرْءِ اِثْمًا اَنْ یَّضِیْعَ مَنْ یَّقُوْتُ)).... آدمی کو گناہ گار ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ ان افراد کو ضائع کرے جن کی خوراک اس کے ذمے ہے۔
علاوہ ازیں مہمان، سائل، مسکین، یتیم اور قیدی وغیرہ کو کھانا کھلانا بھی آدمی کے ذمے ان لوگوں کا حق ہے۔
(3) صلہ رحمی سے مراد: رشتہ داروں سے اچھا سلوک ہے اور رشتہ داری کے کئی مراتب ہیں۔
(1).... پہلا یہ کہ آپس میں ایسی رشتہ داری ہو جس سے باہمی نکاح حرام ہو جاتا ہے۔
(2).... دوسرا یہ کہ وہ ایک دوسرے کے وارث بنتے ہوں، صاف ظاہر ہے کہ جو قرابت وارث کو حاصل ہوتی ہے غیر وارث کو حاصل نہیں ہوتی۔
(3).... تیسرا یہ کہ ان دونوں کے علاوہ کسی وجہ سے بھی قرابت حاصل ہو تو صلہ رحمی کا کم از کم درجہ یہ ہے کہ آپس میں سلام وکلام کا سلسلہ قائم رہے، اگر یہ بھی نہیں تو صلہ رحمی نہیں ہے۔ تو ایسے لوگوں کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((لَا یَدْخُلَ الْجَنَّةَ قَاطِعٌ یَعْنِیْ قَاطِعَ رَحِمٍ)) (بخاري، رقم: 5984)
جنت میں کاٹنے والا داخل نہیں ہوگا یعنی رشتہ داری کو کاٹنے والا۔
(4) رات کو نماز پڑھنا:.... اس سے مراد عشاء کی نماز ہے، کیونکہ اس وقت عموماً لوگ سو جاتے ہیں اور رات (تھجد) کے نوافل بھی اسی میں شامل ہیں اور اللہ ذوالجلال نے جنت میں جانے والے متقیوں کی صفتوں کا تذکرہ کیا ہے:
﴿کَانُوْا قَلِیْلًا مِنَ اللَّیْلِ مَا یَهْجَعُوْنَ() وَبِالْاَسْحَارِ هُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ﴾ (الذاریات: 17۔ 18)
اور فرمایا:
﴿تَتَجَافٰی جُنُوْبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ یَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَّ طَمَعًا﴾ (السجدۃ: 16) وہ اپنے پہلوؤں کو بستروں سے الگ رکھتے ہیں اور اپنے رب کو خوف و طبع کرتے ہوئے پکارتے ہیں۔
جنت میں سلامتی سے داخل ہونے سے کیا مراد ہے؟
ظاہر تو یہ ہے کہ مذکورہ بالا اعمال جنت میں داخلے کے اسباب میں سے چند اسباب ہیں، ان کے علاوہ اور بھی کئی چیزیں جنت میں داخلے کے لیے ضروری ہیں۔ مطلب یہ کہ مذکورہ اعمال کرنے والوں کو اللہ ذوالجلال کی طرف سے دوسرے اعمال صالحہ کرنے کی اور برے اعمال سے بچنے کی توفیق ملتی ہے اور اس کا خاتمہ ایمان اور عمل صالح پر ہوتا ہے۔ جس سے وہ عذاب سے محفوظ رہ کر شروع میں ہی جنت میں داخل ہونے کا حق دار بن جاتا ہے۔
   مسند اسحاق بن راھویہ، حدیث/صفحہ نمبر: 759