مسند اسحاق بن راهويه
كتاب الوصايا
وصیت کے احکام و مسائل
وصیت میں برابری کو ملحوظ رکھنے کا بیان
حدیث نمبر: 741
أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، نا مَعْمَرٌ، عَنِ الْأَشْعَثِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ الرَّجُلَ لَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ سَبْعِينَ سَنَةً، حَتَّى إِذَا كَانَ فِي آخِرِ عُمُرِهِ أَوْصَى فَحَافَ فِي وَصِيَّتِهِ، فَيُخْتَمُ لَهُ بِعَمَلِ أَهْلِ الشَّرِّ فَيَدْخُلُ النَّارَ، وَإِنَّ الرَّجُلَ لَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ الشَّرِّ سَبْعِينَ سَنَةً حَتَّى إِذَا كَانَ فِي آخِرِ عُمُرِهِ أَوْصَى فَيَعْدِلُ فِي وَصِيَّتِهِ فَيَخْتِمُ اللَّهُ لَهُ بِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَيَدْخُلُ الْجَنَّةَ، ثُمَّ قَرَأَ أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: ﴿وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ﴾ [النساء: 13] إِلَى قَوْلِهِ: ﴿وَلَهُ عَذَابٌ مُهِينٌ﴾ [النساء: 14]".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آدمی ستر سال تک جنتیوں والے عمل کرتا رہتا ہے حتیٰ کہ جب وہ اپنی عمر کے آخری حصے میں ہوتا ہے اور وصیت کرتا ہے تو اپنی وصیت میں برابری کو ملحوظ نہیں رکھتا تو اس کا خاتمہ اہل شر کے عمل سے ہوتا ہے اور وہ جہنم میں داخل ہو جاتا ہے، آدمی ستر سال تک اہل شر کے سے عمل کرتا ہے حتیٰ کہ جب وہ اپنی عمر کے آخری حصے میں ہوتا ہے تو وہ وصیت کرتا ہے اور اپنی وصیت میں انصاف کرتا ہے، اللہ اس کا جنتیوں کے عمل سے خاتمہ کرتا ہے تو وہ جنت میں داخل ہو جاتا ہے۔“ پھر سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے یہ آیت پڑھی: ”جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا وہ اسے جنت میں داخل فرمائے گا اس کے نیچے نہریں جاری ہوں گی۔۔۔ آیت کے آخر تک کہ اس کے لیے رسوا کن عذاب ہے۔“
تخریج الحدیث: «طبراني اوسط، رقم: 2448. ضلال الجنة، رقم: 217. قال الشيخ الباني: صحيح.»
مسند اسحاق بن راہویہ کی حدیث نمبر 741 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 741
فوائد:
مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ انسان کو نیک عمل کرتے ہوئے اللہ ذوالجلال سے ڈرتے رہنا چاہیے اور نیکیاں کر کے فخر محسوس نہیں کرنا چاہیے اور نہ ہی کسی وقت اپنی زبان سے غلط جملے کہے، بلکہ استقامت کی اللہ ذوالجلال سے توفیق مانگتا رہے اور یہ دعائیں پڑھتا رہے۔
((اَللّٰهُمَّ مُصَّرِّفَ الْقُلُوبِ صَرِّفْ قَلْبِیْ عَلٰی طَاعَتِكَ)) (مسلم، کتاب القدر: 2654)
﴿رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ هَدَیْتَنَا وَ هَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةً اِنَّكَ اَنْتَ الْوَهَّابُ﴾ (آل عمران: 8)
”اے ہمارے رب! ہمیں ہدایت دینے کے بعد ہمارے دل ٹیڑھے نہ کر دے اور ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا فرما یقینا تو ہی بہت بڑی عطا دینے والا ہے۔“
((یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ قَلْبِیْ عَلٰی دِیْنِكَ)) (سنن ترمذي، رقم: 3522) ”اے دلوں کو پھیرنے والے! میرے دل کو اپنے دین پر ثابت رکھ۔“
معلوم ہوا کہ انسان نیک عمل کر کے اپنے آپ کو دھوکہ نہ دے کہ میں بخشا گیا ہوں، بلکہ دعا کرتے رہنا چاہیے جیسا کہ سیدنا یوسف علیہ السلام نے کی تھی: ﴿فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ اَنْتَ وَلِیّٖ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ تَوَفَّنِیْ مُسْلِمًا وَّ اَلْحِقْنِیْ بِالصّٰلِحِیْنَ﴾ (یوسف: 101).... ”اے آسمان وزمین کے پیدا کرنے والے تو ہی دنیا وآخرت میں میرا ولی (دوست) اور کارساز ہے تو مجھے اسلام کی حالت میں فوت کر اور نیکوکاروں سے ملا دے۔“
اور اسی طرح اگر کوئی گناہ گار ہے تو اس کو مایوس نہیں ہونا چاہیے، بلکہ اللہ ذوالجلال کی طرف رجوع کرے اور اپنے گناہوں کی معافی مانگے۔ معلوم ہوا کہ مرتے وقت تک انسان کو نیک عمل کرتے رہنا چاہیے اور کوشش کرے کوئی ایسا کام نہ کرے جس سے اللہ ذوالجلال کی نافرمانی ہوتی ہے۔
مسند اسحاق بن راھویہ، حدیث/صفحہ نمبر: 741