Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

مسند اسحاق بن راهويه
كتاب الفرائض
وراثت کے احکام و مسائل
ماموں کے وارث ہونے کا بیان
حدیث نمبر: 736
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ مُحَمَّدٍ، وَيَحْيَى بْنُ آدَمَ، قَالَا: نا شَرِيكٌ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ أَبِي هُبَيْرَةَ، وَهُوَ يَحْيَى بْنُ عَبَّادٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((الْخَالُ وَارِثٌ)).
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ماموں وارث ہوتا ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ترمذي، ابواب الفرائض، باب ميراث الخال، رقم: 2104 قال الالباني: صحيح. سنن ابن ماجه، رقم: 2737. سلسلة صحيحه، رقم: 1848. مسند احمد: 28/1. صحيح ابن خزيمه، رقم ((((يهاں دهندلا هے))))»

مسند اسحاق بن راہویہ کی حدیث نمبر 736 کے فوائد و مسائل
   الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 736  
فوائد:
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ ((اَلْخَالُ وَارِثٌ مَّنْ لَا وَارِثَ لَهٗ)).... یعنی جس کا وارث (اصحاب الفروض یا عصبات میں سے) نہ ہو، ماموں اس کا وارث ہو گا۔
مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا ذوالارحام بھی وارث بنتے ہیں، ورثا کی تین اقسام ہیں:
(1) اصحاب الفروض۔ (2)عصبہ رشتہ دار۔ (3)ذوالارحام۔ اصحاب الفروض وہ ورثاء جن کا حصہ قرآن وحدیث میں مقرر کر دیا گیا ہے، یہ کل بارہ افراد ہیں: چار مرد اور آٹھ عورتیں: (1)خاوند۔ (2)باپ۔ (3)دادا۔ (4) مادری بھائی۔ (1) بیوی۔ (2)ماں۔ (3)دادی ونانی۔ (4) بیٹی۔ (5)پوتی، پڑپوتی۔ (6)حقیقی بہن۔ (7)پدری بہن، (8)مادری بہن وغیرہ۔
عصبہ: میت کے وہ قریبی رشتہ دار جن کے حصے متعین نہیں ہیں، بلکہ اصحاب الفروض سے بچا ہوا ترکہ لیتے ہیں، نیز ان کا تعلق میت سے کسی عورت کے واسطے سے نہیں ہوتا۔ مثلاً چچا، بھتیجا، چچا زاد بھائی۔
ذوی الارحام: میت کے وہ قریبی رشتے دار جو اصحاب الفروض یا عصبات میں سے نہ ہوں اور ان کا تعلق عورت کے واسطے سے ہو مثلاً ماموں، بھانجا، نواسا۔ اور عصبہ کی عدم موجودگی میں یہ وارث بنیں گے۔ اہل علم کے مابین ذوی الارحام کی وراثت کے متعلق اختلاف ہے۔
امام ابوحنیفہ اور امام احمد; نے کہا ہے کہ اصحاب الفروض اور عصبہ رشتہ داروں کی غیر موجودگی میں ذوالارحام وارث بنیں گے۔ سیدنا عمر، سیدنا علی، سیدنا ابن مسعود، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہم کا بھی یہی موقف ہے۔
امام مالک اور امام شافعی; نے کہا ہے کہ اصحاب الفروض اور عصبہ رشتہ داروں کی عدم موجودگی میں ذوی الارحام وارث نہیں بنیں گے۔ (کتاب الام: 4؍ 74۔ المغنی: 7؍ 82۔ المحلی: 9؍ 322)
تاہم حدیث کی روشنی میں راجح موقف پہلا ہے۔
   مسند اسحاق بن راھویہ، حدیث/صفحہ نمبر: 736