Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

مسند اسحاق بن راهويه
كتاب المرضٰي و الطب
مریضوں اور ان کے علاج کا بیان
حسن اخلاق کا بیان
حدیث نمبر: 685
اَخْبَرَنَا سُفْیَانُ، عَنْ زِیَادِ بْنِ عَلَاقَةَ اَنَّهٗ سَمِعَهٗ مِنْ اُسَامَةَ بْنِ شَرِیْكٍ، وَشَهِدْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَالْاَعْرَابُ یَسْأَلُوْنَهٗ: ہَلْ عَلَیْنَا جُنَاحٌ فِیْ کَذَا؟ هَلْ عَلَیْنَا جُنَاحٌ فِیْ کَذَا؟ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عِبَادَ اللّٰهِ، رَفَعَ اللّٰهُ الْحَرَجَ، اِلَّا اِمْرَئًا اِقْتَرَضَ مِنْ عِرْضِ اَخِیْهِ شَیْئًا، فَذٰلِكَ الَّذِیْ خَرَجَ وَهَلَكَ۔ فَقَالُوْا: یَا رَسُوْلَ اللّٰهِ، اَنَتَدَاوَی؟ قَالَ: تَدَاوُوْا، فَاِنَّ اللّٰهَ لَمْ یَنْزِلْ دَاءً اِلَّا اَنْزَلَ لَهٗ دَوَاءً اِلَّا الْمَوْتَ، قَالُوْا: یَا رَسُوْلَ اللّٰهِ فَمَا اَفْضَلُ مَا اُعْطِیَ الْعَبْدُ؟ فَقَالَ: خُلُقٌ حَسَنٌ۔.
سیدنا اسامہ بن شریک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: جب اعرابی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوالات کر رہے تھے میں اس وقت موجود تھا: کیا فلاں کام کرنے میں ہم پر کوئی حرج ہے؟ کیا فلاں کام کرنے میں ہم پر کوئی گناہ ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کے بندو! اللہ نے حرج / تنگی کو دور کر دیا ہے مگر جس نے اپنے بھائی کی عزت میں سے کوئی حصہ کاٹ لیا، پس یہی شخص ہے جس نے گناہ کیا اور وہ ہلاک ہوا۔ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا ہم علاج معالجہ کر لیا کریں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: علاج معالجہ کیا کرو، اللہ نے جو بھی اتاری ہے، اس کے لیے دوائی بھی اتاری ہے، سوائے موت کے۔ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! بندے کو سب سے بہتر کیا چیز عطا ہوئی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اچھا اخلاق۔

تخریج الحدیث: «سنن ابوداود، كتاب الطب، باب الرجل يتداوي، رقم: 3855. سنن ترمذي، ابواب الطب، باب ماجاء فى الدواء والحث عليه، رقم: 2038. سنن ابن ماجه، رقم: 3436. قال الشيخ الالباني: صحيح. مسند احمد: 278/4. صحيح ابن حبان، رقم: 6061.»

مسند اسحاق بن راہویہ کی حدیث نمبر 685 کے فوائد و مسائل
   الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 685  
فوائد:
مذکورہ حدیث سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حسن اخلاق ثابت ہوتا ہے۔ علماء کو بھی چاہیے کہ جاہل، کم علم لوگ اگر عجیب وغریب سوال کریں تو خندہ پیشانی سے برداشت کریں۔ اور نہایت ہی اچھے انداز سے ان کے سوالوں کا جواب دیں۔ معلوم ہوا دین اسلام کے احکامات آسان اور انسانی فطرت کے مطابق ہیں۔
معلوم ہوا کسی کو اچھا اخلاق مل جانا بہت بڑا اللہ ذوالجلال کا انعام ہے، کیونکہ ایسا خوش نصیب قیامت کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے زیادہ قریبی ہوگا، جیسا کہ سیّدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے تم میں سے سب سے زیادہ محبوب اور روز قیامت مجلس کے لحاظ سے میرے سب سے زیادہ قریبی وہ لوگ ہوں گے جو تم میں سے اخلاق کے لحاظ سے بہت عمدہ ہوں گے۔ (سلسلة الصحیحة، رقم: 791)
   مسند اسحاق بن راھویہ، حدیث/صفحہ نمبر: 685