Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

مسند اسحاق بن راهويه
كتاب المرضٰي و الطب
مریضوں اور ان کے علاج کا بیان
دُم کٹے اور دو لکیروں والے سانپوں کو مارنے کا حکم
حدیث نمبر: 675
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، نا عُبَيْدُ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ سَائِبَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ((نَهَى عَنْ قَتْلِ الْحَيَّاتِ الَّتِي تَكُونُ فِي الْبُيُوتِ إِلَّا الْأَبْتَرَ وَذَا الطُّفْيَتَيْنِ فَإِنَّهُمَا يَخْطَفَانِ الْبَصَرَ وَيَطْرَحَانِ أَوْلَادَ النِّسَاءِ فَمَنْ تَرَكَهُمَا فَلَيْسَ مِنِّي)).
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دم کٹے اور دو لکیروں والے سانپ کے علاوہ ان سانپوں کو مار ڈالنے سے منع فرمایا جو کہ گھروں میں ہوتے ہیں، کیونکہ وہ دونوں بینائی ضائع کر دیتے ہیں اور خواتین کا حمل گرا دیتے ہیں، پس جس نے ان دونوں کو (مارے بغیر) چھوڑ دیا تو وہ ہم میں سے نہیں۔

تخریج الحدیث: «بخاري، كتاب بدء الخلق، باب قوله تعالىٰ (وسث فيها من كل دابه) رقم: 3297. مسلم، كتاب السلام، باب قتل الحبات وغيرها. سنن ابوداود، رقم: 5352. سنن ترمذي، رقم: 1483. سنن ابن ماجه، رقم: 3535.»

مسند اسحاق بن راہویہ کی حدیث نمبر 675 کے فوائد و مسائل
   الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 675  
فوائد:
مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا دو لکیروں والے اور دم کٹے سانپ کو قتل کردینا چاہیے، کیونکہ یہ دونوں بڑے زہریلے ہیں۔ دُم کٹے سے مراد وہ سانپ ہے جس کی دم دوسرے سانپوں کی طرح مخروطی نہیں ہوتی بلکہ اس طرح معلوم ہوتی ہے جیسا کہ اس کی دم کاٹ دی گئی ہو۔ اور دو لکیروں والے سانپ سے مراد ایک خاص قسم کا سانپ ہے جس کی پیٹھ پر دو لکیریں ہوتی ہیں۔ سانپوں کی بہت سی قسمیں ہیں اور بڑے بڑے زہریلے سانپ ہیں۔ جنوب مغربی فرانس میں واقع سانپوں کے مرکز سے ایک زہریلے سانپ کے بارے میں بعض معلومات شائع ہوئی ہیں جن کے مطابق یہ ڈیڑھ میٹر لمبا سانپ اپنے زہر سے بیک وقت پانچ آدمیوں کو ہلاک کرسکتا ہے۔ (اردو نیوز جدہ، 17؍ اگست 1999ء)
کہتے ہیں: انڈونیشیا کا تھوک پھینکنے والا زہریلا سانپ 2 میٹر لمبا ہوتا ہے اور یہ تین میٹر کے فاصلے سے انسان کی آنکھ میں پچکاری کی طرح زہر پھینکتا ہے جس سے انسان فوراً مر جاتا ہے۔
گھر میں اگر سانپ نظر آئے تو اس کو تین مرتبہ تنبیہ کرے یعنی اس کو کہنا چاہیے: چلا جا، اگر نہ جائے، تو تیسری مرتبہ کہنے کے بعد قتل کردیں۔ (مسلم، رقم: 2236۔ سنن ابي داود، رقم: 5257) اس روایت کی حکمت کی سمجھ اس حدیث سے معلوم ہوتی ہے۔ سیدنا ابوسائب بیان کرتے ہیں میں سیّدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی خدمت میں آیا۔ میں ان کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ میں نے ان کی چارپائی کے نیچے کسی چیز کی سرسراہٹ محسوس کی، میں نے دیکھا تو وہ سانپ تھا۔ چنانچہ میں اٹھ کر کھڑا ہوگیا تو سیّدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے پوچھا: کیا ہے؟ میں نے کہا کہ یہاں سانپ ہے۔ انہوں نے کہا: تو کیا چاہتے ہو؟ میں نے کہا کہ اسے مارتا ہوں، تو انہوں نے اپنے گھر کے سامنے ایک مکان کی طرف اشارہ کیا اور کہا: بے شک میرا چچا زاد اسی مکان میں رہتا تھا۔ جنگ احزاب کے دن اس نے اپنے گھر آنے کی اجازت مانگی جب کہ اس کی نئی نئی شادی ہوئی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو اجازت دے دی اور فرمایا کہ مسلح ہو کر جانا، وہ اپنے گھر آیا تو دیکھا کہ اس کی بیوی گھر کے دروازے پر کھڑی ہے۔ چنانچہ اس نے نیزے سے اس کی طرف اشارہ کیا (مارنے لگا) تو اس نے کہا: جلدی مت کرو۔ پہلے دیکھ لو کہ مجھے کس چیز نے باہر نکالا ہے؟ چنانچہ وہ گھر کے اندر گیا تو دیکھا کہ وہاں ایک بدصورت سانپ تھا۔ چنانچہ اس نے اپنا نیزہ اسی میں چبھو دیا اور اسی طرح چبھوئے ہوئے باہر لے آیا اور سانپ نیزے کے ساتھ تڑپ رہا تھا۔ انہوں نے کہا: مجھے نہیں معلوم کہ ان میں سے پہلے کون مراد وہ آدمی یا سانپ۔ چنانچہ اس کی قوم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئی اور انہوں نے کہا: دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے اس آدمی کو واپس (زندہ) کردے۔ آپ نے فرمایا: اپنے ساتھی کے لیے بخشش کی دعا کرو۔ پھر فرمایا: مدینہ میں کچھ جن مسلمان ہوئے ہیں، جب تم ان میں سے کسی کو دیکھو تو اسے تین بار خبردار کرو، اس کے بعد اگر مار دینے کا خیال ہو تو تیسری بار کے بعد مار ڈالو۔ (مسلم، کتاب السلام، رقم: 2236۔ سنن ابي داود، رقم: 5257)
   مسند اسحاق بن راھویہ، حدیث/صفحہ نمبر: 675