مسند اسحاق بن راهويه
كتاب المرضٰي و الطب
مریضوں اور ان کے علاج کا بیان
بھوکوں کا کھانا کھلانا اور مریض کی عیادت کا بیان
حدیث نمبر: 666
أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - مِثْلَهُ، وَقَالَ: لَوْ عُدْتَهُ لَوَجَدْتَنِي عِنْدَهُ.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی سابقہ حدیث کی مثل روایت کیا اور اس طرح بیان کیا: ”اگر تم اس کی عیادت کرتے تو مجھے اس کے پاس پاتے۔“
تخریج الحدیث: «تقديم تخريجة: 28.»
مسند اسحاق بن راہویہ کی حدیث نمبر 666 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 666
فوائد:
مذکورہ حدیث میں بھوکوں، پیاسوں کو کھلانے پلانے اور بیماروں کی عیادت کی ترغیب دی گئی ہے۔ اس سے اس بات کا بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم وہدایت میں ان معاشرتی اعمال اور حاجت مندوں کی خدمت واعانت کی کس قدر اہمیت ہے۔
(1).... مذکورہ حدیث سے کھانا کھلانے کی فضیلت کا اثبات ہوتا ہے۔
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا، اسلام کی کون سی بات زیادہ بہتر ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”تم (بھوکے کو) کھلاؤ اور ہر شخص کو سلام کہو چاہے تم اسے پہچانو یا نہ پہچانو۔ “ (بخاري، رقم: 12۔ مسلم، رقم: 39)
(2).... مذکورہ حدیث سے پانی پلانے والوں کی بھی فضیلت ثابت ہوتی ہے، ایک دوسری حدیث میں ہے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک آدمی جا رہا تھا، اسے شدید پیاس لگی، اس نے ایک کنویں میں اتر کر پانی پیا، پھر باہر آیا تو دیکھا کہ ایک کتا ہانپ رہا ہے اور (شدت) پیاس کی وجہ سے کیچڑ چاٹ رہا ہے اس نے کہا: یہ بھی اس وقت ایسی پیاس میں مبتلا ہے جیسے ابھی مجھے لگی ہوئی تھی، اپنے چمڑے کے موزے کو (پانی سے) بھرا اور (اس) کتے کو پانی پلایا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس کے اس عمل کو قبول کیا اور مغفرت فرما دی۔“ (بخاري، رقم: 2363) ایک کتے کو پانی پلانے والے کی مغفرت ہو سکتی ہے تو کیا انسان کو پلانے والے کی نہیں ہو سکتی؟
(3).... بیمار پرسی کی بھی فضیلت کا اثبات ہوتا ہے۔ بیمار پرسی کرنا ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر حق بھی ہے۔ (صحیح مسلم، کتاب السلام باب من حق المسلم للمسلم، رقم: 2162) تیمارداری کرنے والوں کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیمار کا حال پوچھنے والا اس کے مکان پر جا کر جنت کے باغ میں ہے، جب تک وہ نہ لوٹے۔“ (مسلم، کتاب البروالصلة، باب فضل عیادة المریض، رقم: 2568)
مذکورہ بالاحدیث میں ہے کہ میں کیسے تجھے کھلاتا، پلاتا یا تیمارداری کرتا، مطلب یہ ہے کہ کھانا کھانا، پانی پینا، بیمار ہونا یہ تو ضرورت اور عاجزی کی علامات ہیں جبکہ تو ضرورت مند اور عاجز نہیں، بلکہ تو قادر، قاہر، قوی، متین ہے۔
مسند اسحاق بن راھویہ، حدیث/صفحہ نمبر: 666