حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ أَبِي الضُّحَى، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ:" كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِي رُكُوعِهِ وَسُجُودِهِ: سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِكَ، اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي".
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4293
حدیث حاشیہ:
یعنی تو پاک ہے اے خدا! ہمارے مالک تیری تعریف کرتے ہیں ہم یا اللہ مجھ کو بخش دے۔
حدیث سے نکلا کہ رکوع یا سجدے میں دعا کرنا منع نہیں ہے۔
اس حدیث کا تعلق باب سے یوں ہے کہ اس حدیث کے دوسرے طریق میں یوں مذکور ہے کہ جب آپ پر سورۃ اذا جاءنصر اللہ نازل ہوئی یعنی فتح مکہ کے بعد تو آپ ہر نماز میں رکوع اور سجدے میں یوں ہی فرمانے لگے۔
اس سورت میں اللہ نے یہ حکم دیا إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ (النصر: 3)
پس سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِكَ، اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي اسی کی تعلیم ہے۔
آنحضرت ﷺ کا آخری عمل یہی تھا کہ آپ رکوع اور سجدے میں بکثرت اس کو پڑھا کرتے تھے۔
لہذا اور دعاؤں پر اس کو فوقیت حاصل ہے۔
ضمنی طور پر اس میں بھی فتح مکہ کا ذکر ہے اور باب میں یہی مطا بقت ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4293
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 4293
باب اور حدیث میں مناسبت
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 4293 کا باب: «بَابُ مَنْزِلُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْفَتْحِ:»
امام بخاری رحمہ اللہ ترجمہ الباب میں فتح مکہ کے بعد کا ذکر فرما رہے ہیں، مگر تحت الباب جو امی عائشہ رضی اللہ عنھا سے روایت نقل فرمائی ہے اس میں فتح مکہ کا کوئی ذکر موجود نہیں ہے، بلکہ رکوع اور سجود کی تسبیح کا ذکر ہے، لہٰذا بظاہر باب سے حدیث کی مناسبت دکھلائی نہیں دیتی، دراصل امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی عادت کے مطابق اسی حدیث کے دوسرے طرق کی طرف اشارہ فرمایا ہے، جس سے باب اور حدیث میں واضح مناسب ظاہر ہوتی ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
«ووجه دخوله هنا ما سيأتي فى التفسير بلفظ ”ما صلى النبى صلى الله عليه وسلم صلاة بعد أن أنزلت عليه (اذا جاء نصر الله والفتح) [النصر: 1] الا يقول فيها .» [فتح الباري لابن حجر: 18/8]
”ترجمہ الباب کے تحت اس حدیث کو شامل کرنے کی مناسبت یوں ہے کہ دوسرے طریق کتاب التفسیر میں یہ الفاظ موجود ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر نماز میں یہ دعا پڑھا کرتے تھے، (رکوع اور سجدوں میں) جب یہ آیت (فتح مکہ کے روز) نازل ہوئی، «اذا جاء نصر الله والفتح .» “
لہٰذا مذکورہ حدیث کا تعلق فتح مکہ کے روز سے ہے لہٰذا مناسبت کا پہلو اسی مقام پر موجود ہے۔
علامہ عبدالحق الہاشمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«فيقال: كأن البخاري بيض له، فلم يتفق له وقوع ما يناسبه، ثم هذه الأحاديث الأربعة التى أوردها فى هذا الباب مناسبة لقصة الفتح كما لايخفي» [لب اللباب فى اللتراجم والأبواب 297/3]
”یعنی علامہ عبدالحق صاحب کے بیان کے مطابق تحت الباب جو احادیث امام بخاری رحمہ اللہ نے نقل فرمائی ہیں ان کی مناسبت فتح مکہ کے واقعہ کے ساتھ ہے جو کہ مخفی نہیں ہے، یعنی کہیں نہ کہیں فتح کا ذکر احادیث میں موجود ہے۔“
محمد زکریا کاندھلوی فرماتے ہیں:
”(بغیر ترجمۃ) «ذكر فيه الأحاديث المتفرقة التى فيها ذكر فتح مكة .» “ [الابواب والتراجم لصحيح البخاري 624/4]
”(باب بغیر ترجمہ کے) تحت الباب متفرق چار احادیث کا ذکر فرمایا ہے، جس سے باب میں مناسبت فتح مکہ کے بیان سے ہے۔“
عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 55
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4293
حدیث حاشیہ:
1۔
سورہ نصر میں ہے:
”آپ اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کریں اور بخشش طلب کریں۔
“ رسول اللہ ﷺ اس حکم کی تعمیل کرتے ہوئے مذکورہ دعا پڑھتے تھے۔
2۔
اس سورت میں فتح سے مراد فتح مکہ ہے۔
اس سورت کے نازل ہونے کے بعد جب بھی آپ نماز پڑھتے تو یہ دعا ضر ور پڑھتے تھے۔
امام بخاری ؒ نے اسی مناسبت سے اس حدیث کو یہاں بیان کیاہے۔
(فتح الباري: 26/8۔
)
حدیث میں بھی اس کی صراحت ہے کہ فتح مکہ کے بعد آپ رکوع وسجود میں اسے ضرور پڑھتے تھے۔
(صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4967۔
)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4293
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 231
´نماز کی صفت کا بیان`
«. . . وعن عائشة رضي الله عنها قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يقول في ركوعه وسجوده: «سبحانك اللهم ربنا وبحمدك اللهم اغفر لي» . متفق عليه. . . .»
”. . . سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع و سجود میں «سبحانك اللهم ربنا وبحمدك اللهم اغفرلي» ” تو پاک ہے اے اللہ! اے ہمارے پروردگار! اپنی حمد و ثنا کے ساتھ۔ اے اللہ! مجھے بخش دے۔“ پڑھا کرتے۔ (بخاری و مسلم) . . .“ [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/باب صفة الصلاة: 231]
لغوی تشریح:
«وَبِحَمْدِكَ» اس میں ”واؤ“ عاطفہ ہے۔ میں تیری پاکی بیان کرتا ہوں اور تیری حمد و توصیف میں محو ہوتا ہوں۔ اور اس کا بھی احتمال ہے کہ ”واؤ“ حالیہ ہو۔ اس صورت میں معنی یہ ہوں گے کہ تیری پاکی بیان کرتا ہوں اس حال میں کہ میں تیری حمد وثنا میں محو ہونے والا ہوں۔ رکوع و سجود کے لیے متعدد اذکار اور دعائیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں۔ نمازی ان میں سے جسے چاہے منتخب کر سکتا ہے۔
فائدہ:
یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ رکوع میں «سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيْم» اور سجدے میں «سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلٰي» کے علاوہ مذکورہ بالا دعا بھی پڑھی جا سکتی ہے بلکہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ «اِذَا جَآءَ نَصْرُ اللهِ وَالْفَتْحُ» نازل ہونے کے بعد آپ ہمیشہ رکوع و سجود میں یہ دعا پڑھتے تھے۔ [صحيح البخاري، التفسير، حديث، 9467، و مسند أحمد: 2306] نمازی ان مسنون دعاؤں میں وقتاً فوقتاً جسے چاہے پڑھ سکتا ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 231
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 877
´رکوع اور سجدے میں دعا کرنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رکوع اور سجدوں میں کثرت سے «سبحانك اللهم ربنا وبحمدك اللهم اغفر لي» کہتے تھے اور قرآن کی آیت «فسبح بحمد ربك واستغفره» (سورة النصر: ۳) کی عملی تفسیر کرتے تھے۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 877]
877۔ اردو حاشیہ:
➊ اس دعا کا پس منظر یہ ہے کہ جب سورہ «إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّـهِ» نازل ہوئی تو اس میں یہ ارشاد ہوا کہ «فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ ۚ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا» ”سو اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کیجئے اور اس سے استغفار کیجئے، بے شک وہ توبہ قبول کرنے والا ہے۔“ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ دعا کو رکوع اور سجدے میں اپنا معمول بنا لیا۔
➋ اس دعا میں تسبیح، تحمید اور دعا تینوں چیزیں جمع ہیں۔ اور سابقہ حدیث میں جو آیا ہے کہ رکوع میں اپنے رب کی عظمت اور سجدے میں دعا خوب کیا کرو، تو ان دونوں احادیث کو جمع کرنے سے معلوم ہوا کہ رکوع میں تسبیح و تحمید کے ساتھ ساتھ دعا جائز ہے اور ایسے ہی سجدے میں دعا کے ساتھ تسبیح و تحمید بھی۔ ➌ اس کی دوسری توجیح یہ بھی بیان ہوئی ہے کہ رکوع میں تعظیم رب اور سجدے میں کثرت دعا افضل و اولیٰ ہے اور اس مقصد کے لئے ماثور کلمات کا انتخاب ہی ارجح ہے، نوافل میں حسب مطلب بھی دعا جائز ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 877
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1048
´رکوع کی ایک اور دعا (ذکر) کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع اور سجدے میں «سبحانك ربنا وبحمدك اللہم اغفر لي» ”اے ہمارے رب تیری ذات پاک ہے، اور تیری حمد کے ساتھ ہم تیری تسبیح بیان کرتے ہیں، اے اللہ تو مجھے بخش دے“ کثرت سے پڑھتے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب التطبيق/حدیث: 1048]
1048۔ اردو حاشیہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کو تعلیم دینے کے لیے یہ دعائیں پڑھتے تھے ورنہ آپ تو گناہوں سے معصوم تھے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1048
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1123
´سجدہ کی ایک اور دعا کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رکوع اور سجدے میں «سبحانك اللہم ربنا وبحمدك اللہم اغفر لي ”اے اللہ! ہمارے رب! تو پاک ہے اور ہم تیری تعریف کے ساتھ تیری تسبیح بیان کرتے ہیں، اے اللہ تو مجھے بخش دے“ کہہ رہے تھے، آپ قرآن کی عملی تفسیر فرما رہے تھے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب التطبيق/حدیث: 1123]
1123۔ اردو حاشیہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کے آخری زمانے میں سورۃ النصر اتری جس میں اشارہ فرمایا گیا کہ آپ جس مقصد کے لیے تشریف لائے تھے، وہ پورا ہو چکا۔ اب آپ ساری توجہ اپنے رب کی تسبیح و تحمید کی طرف مبذول فرمائیں اور بخشش طلب کریں۔ آپ کی وفات قریب ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان ہدایات کے پیش نظر رکوع اور سجدے میں مندرجہ بالا دعا کثرت سے شروع فرمائی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے الفاظ: «يَتَأَوَّلُ الْقُرْآنَ» ”آپ قرآن پر عمل کرتے تھے۔“ میں اسی کی طرف اشارہ ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1123
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1124
´(مذکورہ دعا کی) ایک اور سند کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع اور سجدے میں «سبحانك اللہم ربنا وبحمدك اللہم اغفر لي» ”اے اللہ ہمارے رب! تو پاک ہے اور ہم تیری تعریف کے ساتھ تیری تسبیح بیان کرتے ہیں، اے اللہ تو مجھے بخش دے“ کہہ رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کی عملی تفسیر فر مار ہے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب التطبيق/حدیث: 1124]
1124۔ اردو حاشیہ: بعض نسخوں میں اس دعا میں آخری لفظ «اللھم اغفرلی» نہیں ہے۔ اس لحاظ سے یہ پچھلی حدیث کی دعا سے مختلف ہے۔ ہمارے نسخے کے لحاظ سے دونوں میں کوئی فرق نہیں جب کہ فرق ہونا چاہیے تاکہ ”اور قسم کی دعا“ بن سکے۔ واللہ اعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1124
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث889
´رکوع اور سجدہ میں پڑھی جانے والی دعا (تسبیح) کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کی عملی تفسیر کرتے ہوئے اکثر اپنے رکوع میں «سبحانك اللهم وبحمدك اللهم اغفر لي» ”اے اللہ! تو پاک ہے، اور سب تعریف تیرے لیے ہے، اے اللہ! تو مجھے بخش دے“ پڑھتے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 889]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
رکوع اور سجدے میں بہت سے اذکار مروی ہیں۔
ان میں سے ایک یہ بھی ہے۔
نمازی کو چاہیے کہ کبھی کوئی دعا پڑھ لے۔
کبھی کوئی۔
(2)
سورۃ نصر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔
﴿فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ ۚ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا﴾ (النصر: 3)
”اپنے رب کی تعریف کے ساتھ اس کی پاکیزگی بیان کیجئے۔
اور اس سے مغفرت کا سوال کیجئے۔
بے شک وہ توبہ قبول کرنے والا ہے۔“
رسول اللہ ﷺنے اس حکم کی تعمیل اس طرح کی کہ رکوع اور سجدے میں مذکورہ بالا دعا بار بار پڑھتے رہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 889
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1085
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ آپﷺ اپنے رکوع اور سجدہ میں بکثرت یہ کلمات کہا کرتے تھے: ”اے اللہ! ہمارے رب! ہم تیری حمد کے ساتھ تیری تسبیح بیان کرتے ہیں، اے اللہ! مجھے بخش دے۔“ آپ (یہ کلمات کہ کر) قرآن مجید کے حکم کی تعمیل کرتے تھے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:1085]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
سورہ نصر میں آپﷺ کو یہ حکم دیا گیاہے:
﴿فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ﴾ آپ اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کریں۔
اوراس سے مغفرت طلب کریں اس حکم کی تعمیل آپﷺ رکوع اور سجدے میں یہ کلمات کہہ کر کیا کرتے تھے،
اور آپﷺ کی اقتدا اور پیروی میں ہمیں بھی یہ کلمات سجدہ اوررکوع میں کہنے چائیں۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1085
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1088
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ بکثرت فرماتے: ”اللہ تو اپنی حمد کے ساتھ پاک ہے، میں اللہ سے بخشش کا طالب ہوں اور اس کی طرف رجوع کرتا ہوں۔“ تو میں نے آپﷺ سے پوچھا: اے اللہ کے رسولﷺ!میں آپ کو دیکھتی ہوں کہ آپ بکثرت دعا کرتے ہیں: سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ أَسْتَغْفِرُ اللهَ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ، تو آپﷺ نے فرمایا: ”میرے رب نے مجھے خبر دی ہے کہ میں جلد ہی اپنی امت میں ایک نشانی دیکھوں گا۔ اور جب میں اس کو دیکھ لوں تو بکثرت کہوں: سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ أَسْتَغْفِرُ... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:1088]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو استغفار بخشش طلب کرنے کا حکم دیا ہے،
کیونکہ اس سے عبدیت کا اظہار ہوتا ہے اور پتہ چلتا ہے کہ ہر انسان بلکہ سید ولد آدم بھی اللہ کا محتاج ہے اور بندہ سمجھتا ہے کہ عبدیت کا حق ایسا ہے کہ حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہیں ہوا۔
اور اس میں درحقیقت امت کو حکم دینا ہے کہ وہ ہر وقت اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ رکھیں اور کسی وقت بھی اس کی یاد سے غافل نہ ہوں اور کبھی یہ نہ سمجھیں کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کا حق بندگی ادا کر دیا ہے انسان کے کام میں ہر صورت میں کمی اور کوتاہی رہ جاتی ہے۔
اس لیے اس کو بکثرت استغفار اور تسبیح وتحمید کرنا چاہیے اور فتح مکہ کے بعد لوگوں کا بکثرت مسلمان ہونا،
یہی فتح ونصرت کی علامت تھی اور آپﷺ کی موت کے قرب کی طرف بھی اشارہ تھا اس لیے آپﷺ کو بکثرت تسبیح وتحمید اور استغفار کا حکم دیا گیا ہے،
اور آپﷺ اس حکم کی تعمیل میں یہ کام کرنے لگے جو ایک طرح سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے فریضہ رسالت کی ادائیگی کی توفیق اور آپﷺ کے لائے ہوئے دین کی وسعت کی نعمت کا شکرانہ بھی تھا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1088
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 794
794. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ رکوع اور سجدے میں یہ دعا پڑھتے تھے: (سبحانك اللهم ربنا وبحمدك اللهم اغفرلي) [صحيح بخاري، حديث نمبر:794]
حدیث حاشیہ:
رکوع اور سجدہ میں جو تسبیح پڑھی جاتی ہے اس میں کسی کا بھی کوئی اختلاف نہیں۔
البتہ اس حدیث کے پیش نظر کہ ”رکوع میں اپنے رب کی تعظیم کرو اور بندہ سجدہ کی حالت میں اپنے رب سے سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے، اس لیے سجدہ میں دعا کیا کرو کہ سجدہ کی دعا مقبول ہونے کی زیادہ امید ہے۔
“ بعض ائمہ نے سجدہ کی حالت میں دعا جائز قرار دی ہے اور رکوع میں دعا کو مکروہ کہا ہے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ مذکورہ حدیث میں دعا کا ایک مخصوص ترین وقت حالت سجدہ کو بتایا گیا ہے۔
اس میں رکوع میں دعا کرنے کی کوئی ممانعت نہیں ہے بلکہ حدیث سے ثابت ہے کہ نبی کریم ﷺ رکوع اور سجدہ دونوں حالتوں میں دعا کرتے تھے۔
امیر الحاج نے تمام دعائیں جماعت تک میں اس شرط پر جائز قرار دی ہیں کہ مقتدیوں پر اس سے کوئی گراں باری نہ ہو۔
(تفہیم البخاری)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 794
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 817
817. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ بکثرت اپنے رکوع اور سجدے میں یہ دعا پڑھا کرتے تھے سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِكَ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي اس طرح آپ قرآنی حکم کی تعمیل کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:817]
حدیث حاشیہ:
سورۃ ﴿إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ﴾ میں ہے ﴿فَسَبِّح بِحَمدِرَبِّکَ وَاستَغفِرہُ﴾ (اپنے رب کی پاکی بیان کر اور اس سے بخشش مانگ)
اس حکم کی روشنی میں آپ ﷺ سجدہ میں مذکورہ دعا پڑھا کرتے تھے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ یا اللہ میں تیری حمد کے ساتھ تیری پاکی بیان کرتا ہوں اے اللہ تو مجھ کو بخش دے۔
اس دعا میں تسبیح اور تحمید اور استغفار تینوں موجود ہیں اس لیے رکوع اور سجدہ میں اس کا پڑھنا افضل ہے علاوہ ازیں رکوع میں سُبحَانَ رَبیِّ العَظِیم اور سجدہ میں سُبحَانَ رَبیِّ الاَعلٰی مسنونہ دعائیں بھی آیات قرآنیہ ہی کی تعمیل ہیں جیسا کہ مختلف آیات میں حکم ہے۔
ایک روایت میں ہے کہ سورہ اِذَا جَآئَ نَصرُ اللّٰہِ کے نزول کے بعد آپ ہمیشہ رکوع وسجود میں اس دعا کو پڑھتے رہے یعنی سُبحَانَك اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمدِکَ اَللّٰھُمَّ اغفِرلِی علامہ امام شوکانی ؒ اس کا مطلب یوں بیان فرماتے ہیں بتوفیقك لي وھدایتك وفضلك علی سبحنك لا بحولي وقوتي۔
یعنی یا اللہ میں محض تیری توفیق اور ہدایت اور فضل سے تیری پاکی بیان کرتا ہوں اپنی طرف سے اس کار عظیم کے لیے مجھ میں کوئی قوت نہیں ہے۔
بعض روایات میں رکوع وسجدہ میں یہ دعا پڑھنی بھی آنحضرت ﷺ سے ثابت ہے سُبُّوح قُدُّوس رَبُّ المَلَائِکَة وَالرُّوحِ (احمد مسلم وغیرہ)
یعنی میرا رکوع یا سجدہ اس ذات واحد کے لیے ہے جو جملہ نقائص اور شرکاء سے پاک ہے وہ مقدس ہے وہ فرشتوں کا اور جبرئیل کا بھی پروردگار ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 817
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4967
4967. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: سورہ (إِذَا جَآءَ نَصْرُ ٱللَّـهِ وَٱلْفَتْحُ) کے نازل ہونے کے بعد رسول اللہ ﷺ نے کوئی نماز ایسی نہیں پڑھی جس میں آپ یہ دعا نہ پڑھتے ہوں: ”تیری ذات پاک ہے، اے ہمارے رب! اور تیرے ہی لیے تعریف ہے۔ اے اللہ! میری مغفرت فرما دے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4967]
حدیث حاشیہ:
یہ سورت مدنی ہے اس میں تین آیات ہیں۔
یہ سورت یوم النحر کو حجۃ الوداع کے موقع پر منٰی میں نازل ہوئی۔
اس سورت کے نازل ہونے کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اکیاسی دن زندہ رہے۔
(فتح الباری)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4967
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4968
4968. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ اپنے رکوع اور سجدوں میں بکثرت یہ دعا پڑھا کرتے تھے: ”پاک ہے تیری ذات اے اللہ! اے ہمارے رب! اور تیرے ہی لیے تعریف ہے۔ اے اللہ! میری مغفرت فرما دے۔“ اس طرح آپ قرآن کے حکم پر عمل کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4968]
حدیث حاشیہ:
اب مسنون یہی ہے کہ رکوع اور سجدہ میں یہی دعا پڑھی جائے جیسا کہ اہل حدیث کا عمل ہے یعنی سُبْحَانَكَ رَبَّنَا وَبِحَمْدِكَ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي گو درسری ماثور دعاؤں کا پڑھنا بھی جائز ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4968
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:794
794. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ رکوع اور سجدے میں یہ دعا پڑھتے تھے: (سبحانك اللهم ربنا وبحمدك اللهم اغفرلي) [صحيح بخاري، حديث نمبر:794]
حدیث حاشیہ:
(1)
رکوع میں دعا کرنے کے متعلق اختلاف ہے۔
امام مالک کہتے ہیں کہ رکوع میں دعا کرنا مکروہ ہے۔
ان کی دلیل یہ حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”رکوع میں اپنے رب کی تعظیم کرو۔
بندہ سجدے کی حالت اپنے رب کے سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے، اس لیے سجدے میں دعا کیا کرو کیونکہ بحالت سجدہ دعائیں قبول ہونے کی زیادہ امید ہے۔
“ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث: 1074(479)
امام بخارى ؒ کا مقصود مذکورہ موقف کی تردید کرنا ہے۔
پیش کردہ حدیث میں دعا کے لیے ایک مخصوص وقت کی تعیین کی گئی ہے، اس میں بحالت رکوع دعا کرنے کی کوئی ممانعت نہیں۔
امام بخاری نے حدیث سے ثابت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ رکوع اور سجدہ دونوں حالتوں میں دعا کرتے تھے۔
جیسا کہ سجدے میں اللہ کی تعظیم کی جا سکتی ہے اسی طرح رکوع میں دعا کرنے کی بھی کوئی ممانعت نہیں۔
(صحیح البخاري، الصلاة، حدیث: 817)
واللہ أعلم۔
(2)
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ مذکورہ دعا پڑھنے میں قرآن مجید پر عمل کرتے تھے۔
(فتح الباري: 364/2)
سورۂ نصر میں ہے:
﴿فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ ۚ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا ﴿٣﴾ ) (النصر3: 110)
”آپ اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کیجئے اور اس سے مغفرت طلب کیجیے۔
بےشک وہ بہت زیادہ توبہ قبول کرنے والا ہے۔
“ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ اس سورت کے نازل ہونے کے بعد رسول اللہ ﷺ نماز میں مذکورہ دعا پڑھتے تھے۔
(فتح الباري: 387/2)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 794
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:817
817. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ بکثرت اپنے رکوع اور سجدے میں یہ دعا پڑھا کرتے تھے سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِكَ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي اس طرح آپ قرآنی حکم کی تعمیل کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:817]
حدیث حاشیہ:
(1)
صحیح مسلم کی ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”بندہ اپنے رب کے بہت زیادہ قریب بحالت سجدہ ہوتا ہے، لہذا تم اس حالت میں بکثرت دعا کیا کرو۔
“ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث: 1083 (482)
ایک روایت میں ہے کہ سجدے میں کوشش سے دعا کیا کرو کیونکہ یہ اس لائق ہے کہ تمہاری دعا قبول کر لی جائے۔
(صحیح مسلم، الصلاة، حدیث: 1074 (479)
ان روایات کی وجہ سے شاید کہا جا سکے کہ سجدے میں دعا ہی کرنی چاہیے۔
اس میں تسبیح وغیرہ نہ پڑھی جائے۔
امام بخاری ؒ نے تنبیہ فرمائی کہ سجدے میں تسبیح پڑھنا اور دعا کرنا دونوں ثابت ہیں۔
مذکورہ حدیث سے ثابت ہے کہ رکوع میں دعا اور سجدے میں تسبیح پڑھی جا سکتی ہے اور جس روایت میں ہے کہ رکوع میں اپنے رب کی تعظیم کرو اور سجدے میں کوشش سے دعا کرو۔
یہ روایت مذکورہ حدیث کے معارض نہیں۔
(فتح الباري: 388/2) (2)
رسول اللہ ﷺ سے دوران نماز میں متعدد مقامات میں دعائیں کرنا ثابت ہیں۔
ان میں سے کچھ مندرجہ ذیل ہیں:
٭ تکبیر تحریمہ کے بعد قراءت سے پہلے ٭ رکوع کی حالت میں ٭ قومے کی حالت میں ٭ سجدے کی حالت میں ٭ دونوں سجدوں کے درمیان ٭ تشہد کے بعد سلام سے قبل۔
فرائض میں دوران جماعت چونکہ مقتدی حضرات کی رعایت کرتے ہوئے تخفیف کا حکم ہے، اس لیے فرائض میں اگر مقتدی حضرات پر گرانی نہ ہو تو بکثرت دعائیں کی جا سکتی ہیں۔
واللہ أعلم۔
(3)
سورۂ نصر میں رسول اللہ ﷺ کو استغفار کا حکم ہوا تھا، یہ اسی قرآنی حکم کی تعمیل تھی کہ آپ کثرت کے ساتھ رکوع اور سجدے میں اس دعا کو پڑھا کرتے تھے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 817
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4968
4968. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ اپنے رکوع اور سجدوں میں بکثرت یہ دعا پڑھا کرتے تھے: ”پاک ہے تیری ذات اے اللہ! اے ہمارے رب! اور تیرے ہی لیے تعریف ہے۔ اے اللہ! میری مغفرت فرما دے۔“ اس طرح آپ قرآن کے حکم پر عمل کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4968]
حدیث حاشیہ:
1۔
قرآن کریم میں یہ حکم ہے:
”آپ اپنے پروردگار کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کریں اور اس سے بخشش طلب کریں، یقیناً وہ ہمیشہ سے بہت توبہ قبول کرنے والا ہے۔
“ (النصر3/110)
اس آیت میں آپ کو ہدایت کی گئی ہے کہ اپنے پروردگار کے اتنے بڑے احسانات کے شکریے کے طور پر اب پہلے سے زیادہ اللہ کی تسبیح و تحمید کریں اور آپ کی زندگی میں دین کی سربلندی کے لیے کوئی لغزش ہوگئی ہو تو اس کے لیے استغفار کریں۔
2۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس حکم پر عمل کرتے ہوئے مذکورہ دعا کثرت سے پڑھا کرتے تھے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4968