صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي
کتاب: غزوات کے بیان میں
50. بَابُ دُخُولُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَعْلَى مَكَّةَ:
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا شہر کے بالائی جانب سے مکہ میں داخل ہونا۔
حدیث نمبر: 4291
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ:" دَخَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ الْفَتْحِ مِنْ أَعْلَى مَكَّةَ مِنْ كَدَاءٍ".
ہم سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا ‘ ان سے ہشام نے اور ان سے ان کے والد نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے دن مکہ کے بالائی علاقہ کداء کی طرف سے داخل ہوئے تھے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4291 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4291
حدیث حاشیہ:
1۔
امام بخاری ؒ کا میلان یہ معلوم ہوتا ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر رسول اللہ ﷺ مکہ میں بالائی جانب سے داخل ہوئے تھے اور حافظ ابن حجر ؒ نے بھی اسی موقف کی تائید کی ہے کیونکہ انھوں نے صراحت کی ہے کہ فتح مکہ کے وقت رسول اللہ ﷺ بالائی جانب سے داخل ہوئے تھے،(فتح الباري: 23/8۔
)
حالانکہ اس سے پہلے ایک روایت میں یہ وضاحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت خالد بن ولید ؓ کو بالائی جانب سے داخل ہونے کا حکم دیاتھا اورخود نشیبی طرف سے مکہ میں آئے تھے۔
(صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4280۔
)
2۔
ہمارا رجحان یہ ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر بالائی اور اس کے بعد نشیبی طرف سے داخل ہوئے۔
واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4291
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1581
1581. حضرت عروہ ہی سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ فتح مکہ کے سال مقام کداء سے مکہ میں داخل ہوئے۔ حضرت عروہ مقام کُداء اور کَدا دونوں جانب سے مکہ میں آتے تھے لیکن اکثر وبیشتر کُداء کی جانب سے مکہ میں آتے کیونکہ یہ مقام ان کے گھر سے نزدیک تھا۔ ابو عبداللہ (امام بخاری ؓ) بیان کرتے ہیں کہ کُداء اور کدا مکہ میں دو مقام ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1581]
حدیث حاشیہ:
(1)
مکہ مکرمہ میں تین مقامات تقریبا ہم نام ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:
٭ كَدَاء:
یہ وہ گھاٹی ہے جو جنت معلیٰ کی طرف اترتی ہے اور جنت معلیٰ اہل مکہ کا مشہور قبرستان ہے۔
اسے آج کل حجون کہا جاتا ہے۔
٭ كُدا:
یہ گھاٹی قعیقعان پہاڑ کی جانب، شعب شامیین کے نزدیک باب شبیکہ کے پاس ہے۔
٭ كدی:
یہ وہ مقام ہے جو مکہ سے یمن کی طرف جانے کا راستہ ہے۔
اس طرف سے یمن والے مکہ میں داخل ہوتے تھے۔
(2)
ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مکہ مکرمہ میں ثنیہ علیا کی جانب سے داخل ہونا اور ثنیہ سفلیٰ کی طرف سے نکلنا مستحب ہے۔
اس استحباب میں حج یا عمرہ کرنے والے اور بغیر احرام داخل ہونے والے سب برابر ہیں۔
واضح رہے کہ حضرت عروہ نے جب حدیث بیان کی تو انہوں نے رسول اللہ ﷺ کا عمل بتایا کہ آپ مکہ مکرمہ میں اوپر کی جانب سے داخل ہونا لازمی نہیں، اس لیے عروہ ؒ آسانی اور سہولت کے پیش نظر کداء کی طرف سے مکہ آتے تھے کیونکہ ان کے گھر سے مکہ آنے کے لیے یہ راستہ قریب پڑتا تھا۔
(3)
امام بخاری ؒ نے احادیث بیان کرنے کے بعد آخر میں وضاحت فرمائی ہے کہ کداء اور کدا، دو مقامات کے نام ہیں۔
حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ اس تفسیر کی چنداں ضرورت نہ تھی کیونکہ حدیث کے سیاق ہی سے پتہ چلتا ہے کہ مکہ کے مضافات میں یہ دو الگ الگ مقام ہیں۔
(فتح الباری: 553/3)
شاید امام بخاری ؒ نے لفظی مشاکلت کی وجہ سے یہ وضاحت کرنا ضروری خیال کیا ہو۔
واللہ أعلم۔
(4)
ہشام بن عروہ نے اس حدیث کو مرسل اور موصول دونوں طرح بیان کیا ہے۔
امام بخاری ؒ نے دونوں اسناد اس لیے ذکر کی ہیں کہ مرسل روایت سے موصول روایت میں کوئی نقص لازم نہیں آتا کیونکہ موصول روایت حضرت سفیان بن عیینہ نے بیان کی ہے اور مرسل روایت میں دو ثقہ راویوں عمرو اور حاتم نے اس کی تائید اور متابعت کی ہے۔
متابعت کے طور پر مرسل روایات کو پیش کیا جا سکتا ہے۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1581