صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي
کتاب: غزوات کے بیان میں
49. بَابُ أَيْنَ رَكَزَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الرَّايَةَ يَوْمَ الْفَتْحِ:
باب: فتح مکہ کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جھنڈا کہاں گاڑا تھا؟
حدیث نمبر: 4288
حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا:" أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا قَدِمَ مَكَّةَ أَبَى أَنْ يَدْخُلَ الْبَيْتَ وَفِيهِ الْآلِهَةُ، فَأَمَرَ بِهَا، فَأُخْرِجَتْ، فَأُخْرِجَ صُورَةُ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ فِي أَيْدِيهِمَا مِنَ الْأَزْلَامِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" قَاتَلَهُمُ اللَّهُ، لَقَدْ عَلِمُوا مَا اسْتَقْسَمَا بِهَا قَطُّ"، ثُمَّ دَخَلَ الْبَيْتَ فَكَبَّرَ فِي نَوَاحِي الْبَيْتِ، وَخَرَجَ وَلَمْ يُصَلِّ فِيهِ".تَابَعَهُ مَعْمَرٌ، عَنْ أَيُّوبَ، وَقَالَ وُهَيْبٌ: حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
مجھ سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے عبدالصمد نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے میرے والد عبدالوارث نے بیان کیا ‘ ان سے ایوب سختیانی نے بیان کیا ‘ ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ آئے تو بیت اللہ میں اس وقت تک داخل نہیں ہوئے جب تک اس میں بت موجود رہے بلکہ آپ نے حکم دیا تو بتوں کو باہر نکال دیا گیا۔ انہیں میں ایک تصویر ابراہیم اور اسماعیل علیہما السلام کی بھی تھی اور ان کے ہاتھوں میں (پانسہ) کے تیر تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ ان مشرکین کا ناس کرے ‘ انہیں خوب معلوم تھا کہ ان بزرگوں نے کبھی پانسہ نہیں پھینکا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللہ میں داخل ہوئے اور اندر چاروں طرف تکبیر کہی پھر باہر تشریف لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اندر نماز نہیں پڑھی تھی۔ عبدالصمد کے ساتھ اس حدیث کو معمر نے بھی ایوب سے روایت کیا اور وہیب بن خالد نے یوں کہا ‘ ہم سے ایوب نے بیان کیا ‘ انہوں نے عکرمہ سے ‘ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4288 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4288
حدیث حاشیہ:
1۔
بیت اللہ کے اندر حضرت ابراہیم ؑ، حضرت اسماعیل ؑ، حضرت عیسیٰ ؑ اور حضرت مریم ؑ کی تصاویر تھیں جبکہ بیت اللہ کےباہر بے شمار مجسمے نصب تھے۔
رسول اللہ ﷺ اپنی کمان کے کنارے سے اشارہ کرتے تو بت گرجاتے تو حتی کہ تمام مجسمے زمین بوس ہوگئے۔
2۔
رسول اللہ ﷺ وادی بطحاء میں تھے کہ آپ نے حضرت عمر ؓ کو حکم دیا کہ وہ بیت اللہ جائیں اور وہاں جو بھی تصویر ہواسے مٹادیں، جب تک ان تصویروں کو ختم نہیں کیا گیا رسول اللہ ﷺ بیت اللہ میں داخل نہیں ہوئے، چنانچہ حضرت عمر ؓ نے ان تصویروں کو مٹانے کا فریضہ سرانجام دیا۔
(سنن أبي داود، اللباس، حدیث: 4156، وفتح الباري: 22/8۔
)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4288
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2027
´کعبہ کے اندر نماز کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ آئے تو آپ نے کعبہ میں داخل ہونے سے انکار کیا کیونکہ اس میں بت رکھے ہوئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تو وہ نکال دیئے گئے، اس میں ابراہیم اور اسماعیل علیہما السلام کی تصویریں بھی تھیں، وہ اپنے ہاتھوں میں فال نکالنے کے تیر لیے ہوئے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ انہیں ہلاک کرے، اللہ کی قسم انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ ان دونوں (ابراہیم اور اسماعیل) نے کبھی بھی فال نہیں نکالا“، وہ کہتے ہیں: پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللہ میں داخل ہوئے تو اس ک۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 2027]
فوائد ومسائل:
1۔
پانسے کے تیر یوں تھے کہ لکڑیاں سی ہوتیں۔
اور ان میں سے کچھ پر لکھا ہوتا تھا۔
(افعل) کام کرلو۔
اور کچھ پر لکھا ہوا تھا۔
(لاتفعل) مت کرو۔
اورکچھ خالی ہوتی تھیں۔
لوگ کسی اہم سفر یا کام کے موقع پر مجاور کعبہ کے پاس آتے۔
اور اس سے اپنا کام نہ کرنے یا کرنے کے متعلق پوچھتے تو وہ ان لکڑیوں کو ڈبے میں ڈال کرہلاتا اور کوئی ایک نکال کر جواب دیتا۔
کہ کرو یا نہ کرو۔
اگر خالی تیر نکلتا تودوباہ کرتا حتیٰ کہ کوئی جواب نکل آتا۔
سورۃ المائدہ میں ہے۔
(وَأَن تَسْتَقْسِمُوا بِالْأَزْلَامِ) (المائدہ۔
3) یہ بھی حرام ہے۔
کہ پانسوں سے قسمت معلوم کرو۔
دوسری جگہ فرمایا۔
<قرآن> (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ)(المائدہ۔
90) اے ایمان والو! شراب۔
جوا۔
بت۔
پانسے یہ سب ناپاک شیطانی عمل ہیں۔
سو ان سے بچتے رہنا تاکہ نجات پائو
2۔
کعبہ کے اندر نماز پڑھنا حضر ت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بیان سے ثابت ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی کریمﷺ کےساتھ نہیں تھے۔
حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک روایت کی بھی نفی ہے۔
مگرحضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بیان میں اثبات ہے۔
اور حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نفی کی توجیہ یہ ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو دعا تکبیر میں دیکھا تو خود بھی ایک طرف اسی عمل میں لگ گئے۔
جبکہ رسول اللہ ﷺ نماز پڑھنے لگے۔
اور انہوں نے دھیان نہیں کیا۔
جبکہ بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی کریمﷺ کے تمام اعمال کا جائزہ لیتے رہے نیز کمرے میں دروازہ بند ہونے کی وجہ سے اندھیرا بھی تھا تو اس لئے بھی صورت حال مخفی رہی۔
واللہ اعلم۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2027
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1601
1601. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ جب مکہ مکرمہ تشریف لائے تو آپ نے کعبہ کے اندر داخل ہونے سے انکار کردیا۔ کیونکہ اندر بت رکھے ہوئے تھے، پھر آپ کے حکم سے انھیں نکال دیا گیا اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسماعیل ؑ کی وہ تصوریریں بھی نکال دیں جن کے ہاتھوں میں پانسے کے تیر تھے۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ ان (مشرکوں) کو تباہ کرے!انھیں بخوبی معلوم ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسماعیل ؑ نے تو کبھی پانسوں سے قرعہ اندازی نہیں کی۔“ اس کے بعد آپ بیت اللہ کے اندر داخل ہوئے اور اس کے اطراف میں اللہ أکبر کہا لیکن نماز نہیں پڑھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1601]
حدیث حاشیہ:
مشرکین مکہ نے خانہ کعبہ میں حضرت ابراہیم ؑ وحضرت اسماعیل ؑ کے بتوں کے ہاتھوں میں تیر دے رکھے تھے اور ان سے فال نکالا کرتے۔
اگر افعل (اس کام کو کر)
والا تیر نکلتا تو کرتے اگر لا تفعل (نہ کر)
والا ہوتا تو وہ کام نہ کرتے۔
یہ سب کچھ حضرات انبیاؑ پر ان کا افتراء تھا۔
قرآن نے اس کو رِجس مِن عَملِ الشیطانِ کہا کہ یہ گندے شیطانی کام ہیں۔
مسلمانوں کو ہرگز ہر گز ایسے ڈھکو سلوں میں نہ پھنسنا چاہیے۔
آنحضرت ﷺ نے فتح مکہ میں کعبہ کو بتوں سے پاک کیا۔
پھر آپ اندر داخل ہوئے اور خوشی میں کعبہ کے چاروں کونوں میں آپ نے نعرہ تکبیر بلند فرمایا:
﴿جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ﴾ (بني إسرائیل: 81)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1601
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3352
3352. حضرت ابن عباس ؓہی سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے جب بیت اللہ میں تصویریں دیکھیں تو اندر داخل نہ ہوئے حتی کہ آپ کے حکم سے وہ مٹادی گئیں۔ پھر آپ اندر گئے تو حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسماعیل ؑ کے ہاتھوں میں تیر دیکھے تو فرمایا: ”اللہ تعالیٰ قریش کو برباد کرے، اللہ کی قسم! ان حضرات نے کبھی قسمت آزمائی کے لیے تیر نہیں پھینکے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3352]
حدیث حاشیہ:
یعنی ان بزرگوں نے فال نکالنے کے لیے کبھی تیر استعمال نہیں کئے، وہ ایسی بیہودہ حرکات سے خود ہی بیزار تھے۔
ایسے ہی وہ بزرگ بھی ہیں جن کی قبروں پر ڈھول تاشے بجائے جارہے ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3352
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1601
1601. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ جب مکہ مکرمہ تشریف لائے تو آپ نے کعبہ کے اندر داخل ہونے سے انکار کردیا۔ کیونکہ اندر بت رکھے ہوئے تھے، پھر آپ کے حکم سے انھیں نکال دیا گیا اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسماعیل ؑ کی وہ تصوریریں بھی نکال دیں جن کے ہاتھوں میں پانسے کے تیر تھے۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ ان (مشرکوں) کو تباہ کرے!انھیں بخوبی معلوم ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسماعیل ؑ نے تو کبھی پانسوں سے قرعہ اندازی نہیں کی۔“ اس کے بعد آپ بیت اللہ کے اندر داخل ہوئے اور اس کے اطراف میں اللہ أکبر کہا لیکن نماز نہیں پڑھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1601]
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ کے موقع پر کعبے کو بتوں سے پاک کیا، پھر اندر تشریف لے گئے اور خوشی سے نعرہ تکبیر بلند کیا بلکہ کعبہ کے چاروں کونوں میں اللہ کی کبریائی کا اعلان کیا۔
(2)
اس روایت میں حضرت ابن عباس ؓ نے کعبہ میں نماز پڑھنے کی نفی کی ہے جبکہ حضرت بلال ؓ نے اس کا اثبات کیا ہے۔
امام بخاری ؓ نے ایک مقام پر حضرت بلال کی روایت کو ترجیح دی ہے کیونکہ اس میں اثبات ہے اور نماز نہ پڑھنے کی روایت کو مرجوح قرار دیا ہے کیونکہ یہ ایک نفی ہے اور اصولی لحاظ سے اثبات نفی پر مقدم کیا جاتا ہے۔
اس کے برعکس حضرت ابن عباس ؓ نے تکبیر کا اثبات کیا ہے اور حضرت بلال ؓ نے اس کی نفی نہیں کی۔
امام بخاری ؒ نے اس مقام پر اسے بطور حجت پیش کیا ہے کیونکہ اس میں اضافہ ہے۔
اس اضافے کے باعث آپ نے اس عنوان کو ثابت کیا ہے۔
دراصل حضرت ابن عباس ؓ فتح مکہ کے وقت رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ نہیں تھے۔
وہ نماز کی نفی کو اپنے بھائی فضل بن عباس ؓ سے بیان کرتے ہیں لیکن وہ بھی رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ نہیں تھے۔
ممکن ہے کہ انہوں نے حضرت اسامہ ؓ سے اس نفی کو بیان کیا ہو۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جب حضرت بلال اور حضرت اسامہ ؓ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ بیت اللہ میں داخل ہوئے تو دعا میں مصروف ہو گئے۔
اس اثناء میں رسول اللہ ﷺ نے نماز پڑھ لی، جس کے متعلق حضرت اسامہ ؓ کو معلوم نہ ہو سکا، اس بنا پر انہوں نے نماز کی نفی کر دی۔
بہرحال امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے بیت اللہ کے اندر نعرہ تکبیر بلند کرنے کو ثابت کیا ہے، اور اس کا اثبات اظہر من الشمس ہے۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1601
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3352
3352. حضرت ابن عباس ؓہی سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے جب بیت اللہ میں تصویریں دیکھیں تو اندر داخل نہ ہوئے حتی کہ آپ کے حکم سے وہ مٹادی گئیں۔ پھر آپ اندر گئے تو حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسماعیل ؑ کے ہاتھوں میں تیر دیکھے تو فرمایا: ”اللہ تعالیٰ قریش کو برباد کرے، اللہ کی قسم! ان حضرات نے کبھی قسمت آزمائی کے لیے تیر نہیں پھینکے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3352]
حدیث حاشیہ:
1۔
دور جاہلیت میں لوگ تیروں کے ذریعے سے جوا کھیلتے اورفال نکالتے تھے، اسے قرآنی اصطلاح میں (الاستسقام بالأزلام)
کہا گیا ہے۔
مشرکین عرب نے حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسماعیل ؑ کی تصویریں بنا کر ان کے ہاتھوں میں قسمت آزمائی کا تیردے دیا تھا تاکہ لوگوں کو یہ تآثر دیا جائے کہ ہمارے بزرگ بھی فال نکالنے کے لیے تیر استعمال کرتے تھے۔
یہ حرکت دیکھ کر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
پانسہ بنانا، اس سے جوا کھیلنا یافال نکالنا کسی بھی پیغمبر کے شایان شان نہیں ہے۔
وہ ایسی بے ہودہ حرکات سے خود ہی بے زارتھے، ایسے ہی وہ بزرگ جن کی قبروں پر آج ڈھول تاشے بجائے جاتے ہیں۔
2۔
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بطور معبود کسی بت کو پوجاجائے یا کسی نبی، ولی کی قبر یا تصویر یامجسمے کو، شرک میں دونوں ایک جیسے ہیں۔
اب جو لوگ کہتے ہیں کہ قرآن کریم میں جس شرک کی مذمت بیان کی گئی ہے اس سے مراد بت پرستی ہے۔
اس کہانی کی کیا حیثیت باقی رہ جاتی ہے۔
3۔
امام بخاری ؒنے ان احادیث سے سیدنا ابراہیم ؑ کی سیرت بیان کی ہے کہ ان کاتیروں کے ذریعے سے قسمت آزمائی کرناکفار مکہ کی طرف سے ان پر بے بنیاد افترا ہے۔
آپ اس قسم کہ آلائش سے پاک تھے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3352