مسند اسحاق بن راهويه
كتاب النكاح و الطلاق
نکاح اور طلاق کے احکام و مسائل
شادی بیاہ میں دف بجانے کی اجازت
حدیث نمبر: 605
أَخْبَرَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ، نا حَمَّادٌ وَهُوَ ابْنُ سَلَمَةَ، نا خَالِدٌ أَبُو الْحَسَنِ، عَنِ الرُّبَيِّعِ بِنْتِ مُعَوِّذِ ابْنِ عَفْرَاءَ قَالَتْ: دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ عُرْسِي، فَقَعَدَ عَلَى مَوْضِعِ فِرَاشِي، وَعِنْدِي جَارِيَتَانِ تَضْرِبَانِ بِدُفٍّ وَتَنْدُبَانِ آبَائِي الَّذِينَ قُتِلُوا بِبَدْرٍ، فَقَالَتَا فِيمَا يَقُولَانِ: وَفِينَا نَبِيُّ يَعْلَمُ مَا فِي الْيَوْمِ وَفِي غَدٍ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((أَمَّا هَذَا فَلَا تَقُولُوهُ)).
سیدہ ربیع بنت معوذ بن عفراء رضی اللہ عنہا نے بیان کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری شادی کے دن میرے ہاں تشریف لائے تو آپ میرے بستر کی جگہ پر بیٹھ گئے، جبکہ دو لڑکیاں میرے پاس دف بجا رہی تھیں، اور وہ (شعروں میں) میرے ان بزرگوں کا ذکر کر رہی تھیں جو غزوہ بدر میں شہید ہو گئے تھے انہوں نے اپنے اشعار میں یہ بھی کہا: ہم میں ایک نبی ہیں جو آج اور آنے والے کل کے حالات جانتے ہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جہاں تک اس بات کا تعلق ہے تو یہ نہ کہو۔“
تخریج الحدیث: «بخاري، كتاب النكا ح، باب ضرب الدف فى النكا ح والوليمة، رقم: 5147. سنن ابوداود، كتاب الادب، باب فى النهي عن الغناء، رقم: 4922. سنن ترمذي، رقم: 1090. مسند احمد: 359/6.»
مسند اسحاق بن راہویہ کی حدیث نمبر 605 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 605
فوائد:
مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا شادی کے موقع پر چھوٹی بچیوں کا گیت گانا اور دف بجانا جائز ہے۔ دف ایک ایسا آلہ ہے۔ جس کی ایک جانب کھلی ہوتی ہے جس پر چوٹ لگائی جائے تو کوئی سُرپیدا نہیں ہوتی، لیکن اس پر قیاس کرتے ہوئے ڈھول ڈھمکے، بینڈ باجوں اور آلات ساز کو مباح قرار دینا جائز نہیں ہے، جن سے سر پیدا ہوتی ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: ایک دن نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر تشریف لائے اس وقت میرے پاس (انصار کی) دو لڑکیاں جنگ بعاث کے قصوں کی نظمیں پڑھ رہی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بستر پر لیٹ گئے اور اپنا چہرہ دوسری طرف پھیر لیا۔ اس کے بعد سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے اور مجھے ڈانٹا اور فرمایا: یہ شیطانی باجہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں! آخر نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ”جانے دو، خاموش رہو“ پھر جب سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ دوسرے کام میں لگ گئے تو میں نے انہیں اشارہ کیا اور وہ چلی گئیں۔ (بخاري، رقم: 949)
مذکورہ بالا حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مسلمانوں کے جرنیلوں کا تذکرہ کرنا مستحب ہے۔ مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف، نعت گوئی کرنا مبارک عمل ہے، لیکن مبالغہ آرائی کرنا جائز نہیں ہے۔ مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق علم غیب کی نسبت والا عقیدہ درست نہیں ہے۔
مسند اسحاق بن راھویہ، حدیث/صفحہ نمبر: 605