صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي
کتاب: غزوات کے بیان میں
49. بَابُ أَيْنَ رَكَزَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الرَّايَةَ يَوْمَ الْفَتْحِ:
باب: فتح مکہ کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جھنڈا کہاں گاڑا تھا؟
حدیث نمبر: 4286
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ قَزَعَةَ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ:" أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ مَكَّةَ يَوْمَ الْفَتْحِ وَعَلَى رَأْسِهِ الْمِغْفَرُ، فَلَمَّا نَزَعَهُ جَاءَ رَجُلٌ، فَقَالَ ابْنُ خَطَلٍ: مُتَعَلِّقٌ بِأَسْتَارِ الْكَعْبَةِ، فَقَالَ: اقْتُلْهُ، قَالَ مَالِكٌ: وَلَمْ يَكُنِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَا نُرَى، وَاللَّهُ أَعْلَمُ يَوْمَئِذٍ مُحْرِمًا".
ہم سے یحییٰ بن قزعہ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے مالک نے بیان کیا ‘ ان سے ابن شہاب نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ فتح مکہ کے موقع پر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں داخل ہوئے تو سر مبارک پر خود تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اتارا ہی تھا کہ ایک صحابی نے آ کر عرض کیا کہ ابن خطل کعبہ کے پردہ سے چمٹا ہوا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے (وہیں) قتل کر دو۔ امام مالک رحمہ اللہ نے کہا جیسا کہ ہم سمجھتے ہیں آگے اللہ جانے ‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس دن احرام باندھے ہوئے نہیں تھے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4286 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4286
حدیث حاشیہ:
ابن خطل اسلام سے پھر کر مرتد ہو گیا تھا۔
ایک آدمی کا قاتل بھی تھا اور رسول کریم ﷺ کی ہجو کے گیت گایا کرتا تھا۔
چنانچہ اس موقع پر وہ کعبہ کے پردوں سے باہر نکالا گیا اور زمزم اور مقام ابراہیم کے درمیان اس کی گردن ماری گئی۔
آنحضرت ﷺ نے آئندہ کے لیے اس طرح کر نے سے منع فرمایا کہ اب قریش کا آدمی اس طرح بے بس کرکے نہ مارا جائے۔
خود لو ہے کا کن ٹوپ جسے جنگ میں سر کی حفاظت کے لیے اوڑھ لیا جاتا تھا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4286
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4286
حدیث حاشیہ:
1۔
ابن خطل کانام عبداللہ تھا۔
یہ اسلام لانے کے بعد مرتد ہوگیا، نیزاس نے ایک آدمی کو ناحق قتل بھی کیا تھا۔
اس کی دولونڈیاں تھیں جو رسول اللہ ﷺ کی ہجو میں گایا کرتی تھیں۔
اس مردود کو چاہِ زمزم(زمزم کے کنویں)
اور مقام ابراہیم کے درمیان کھڑا کرکے قتل کردیا گیا۔
(فتح الباري: 21/8۔
)
2۔
رسول اللہ ﷺ اس وقت محرم نہیں تھے کیونکہ دیگر روایات سے بھی یہی پتہ چلتا ہے، چنانچہ حضرت جابر ؓ بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ مکے میں داخل ہوئے تو آپ کے سر پر کالی پگڑی تھی۔
(مسند أحمد: 363/3)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4286
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1103
´(جہاد کے متعلق احادیث)`
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں داخل ہوئے تو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر ” خود“ تھا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سر سے اتارا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی آیا، اس نے کہا کہ ابن خطل کعبہ کے پردوں کے ساتھ چمٹا ہوا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” اسے قتل کر دو۔“ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 1103»
تخریج: «أخرجه البخاري، الجهاد، باب قتل الأسير وقتل الصبر، حديث:3044، ومسلم، الحج، باب جواز دخول مكة بغير إحرام، حديث:1357.»
تشریح:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مرتد اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں توہین آمیز رویہ رکھنے والے کی سزا قتل ہے اگرچہ وہ بیت اللہ کے پردے میں چھپا ہوا ہو۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1103
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2870
´مکہ میں بغیر احرام باندھے داخل ہونے کا بیان۔`
انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم (فتح مکہ کے موقع پر) خود پہنے ہوئے مکہ میں داخل ہوئے، تو آپ سے کہا گیا کہ ابن خطل کعبہ کے پردوں سے لپٹا ہوا ہے، تو آپ نے فرمایا: ”اسے قتل کر دو“ ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2870]
اردو حاشہ:
(1) ”خود تھا“ بعض روایات میں ہے کہ سیاہ پگڑی تھی۔ (صحیح مسلم، الحج، حدیث: 1358) ممکن ہے ایک وقت میں خود ہو، دوسرے وقت میں پگڑی ہو۔ یا خود کے اوپر پگڑی باندھ رکھی ہو یا پگڑی کے اوپر خود ہو۔ جو بھی صورت ہو، یہ ثابت ہوتا ہے کہ نبیﷺ محرم نہیں تھے کیونکہ آپ حج یا عمرہ کرنے کی نیت سے نہیں آئے تھے۔ احرام اس شخص پر فرض ہے جو حج یا عمرے کی نیت سے مکہ مکرمہ میں داخل ہو جبکہ احناف کا خیال ہے کہ جو شخص بھی مکہ مکرمہ میں داخل ہونا چاہے، وہ میقات سے گزرتے وقت لازماً احرام باندھے۔ یہ روایت ان کے موقف کے خلاف ہے۔
(2) ”ابن خطل“ نام عبداللہ تھا۔ مسلمان ہونے کے بعد ایک آدمی کو قتل کر کے مرتد ہوگیا تھا۔ رسول اللہﷺ کی ہجو گوئی شروع کر دی تھی۔ چونکہ قصاصاً یہ شخص واجب القتل تھا، ارتداد کے جرم میں بھی اس کا قتل لازم تھا، رسول اللہﷺ کی ہجو گوئی بھی قتل کی سزا کا موجب تھی، اس لیے آپ نے فتح مکہ کے موقع پر اس کے قتل کا حکم صادر فرمایا تھا۔ اس نے بچنے کے لیے کعبہ کا غلاف پکڑ لیا، مگر ایسے ملعون کو معافی کیسے مل سکتی تھی۔
(3) ”قتل کر دو“ ویسے تو حرم میں قتل منع ہے۔ مجرم کو باہر لے جا کر سزا دینی چاہیے مگر فتح مکہ کے موقع پر رسول اللہﷺ کے لیے خصوصی طور پر کچھ دیر کے لیے حرم میں قتل کی اجازت تھی، پھر قیامت تک کے لیے حرام کر دیا گیا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2870
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2685
´قیدی پر اسلام پیش کئے بغیر اسے قتل کر دینے کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں فتح مکہ کے سال داخل ہوئے، آپ کے سر پر خود تھا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اتارا تو ایک شخص آیا اور کہنے لگا: ابن خطل کعبہ کے غلاف سے چمٹا ہوا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کو قتل کر دو“ ۱؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں: ابن خطل کا نام عبداللہ تھا اور اسے ابوبرزہ اسلمی نے قتل کیا۔ [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2685]
فوائد ومسائل:
1۔
رسول اللہ ﷺ کا خود پہنے مکہ میں داخل ہونا دلیل ہے کہ حج عمرے کے علاوہ حسب احوال انسان بغیر حرام کے مکہ میں داخل ہوسکتا ہے۔
2۔
ابن خطل پہلے مسلمان ہوگیا تھا۔
اس کو رسول اللہ ﷺ نے کسی کام سے بھیجا اور ایک انصاری کو بطور خادم اس کے ساتھ روانہ کیا۔
اس سے کوئی تقصیر (غلطی) ہوئی تو اس نے اس انصاری کو قتل کرڈالا۔
اور اس کا مال لوٹ لیا اور مرتد ہوگیا۔
سو اسی وجہ سے اس کو رسول اللہﷺ نے امان نہ دی۔
اور قتل کرنے کا حکم دیا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2685
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1693
´خود کا بیان۔`
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے سال مکہ داخل ہوئے تو آپ کے سر پر خود تھا، آپ سے کہا گیا: ابن خطل ۱؎ کعبہ کے پردوں میں لپٹا ہوا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”اسے قتل کر دو۔“ [سنن ترمذي/كتاب الجهاد/حدیث: 1693]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
ابن خطل کا نام عبداللہ یا عبدالعزی تھا،
نبی اکرم ﷺ جب مکہ میں داخل ہوئے تو آپﷺ نے فرمایا:
”جو ہم سے قتال کرے اسے قتل کردیاجائے“،
اس کے بعد کچھ لوگوں کا نام لیا،
ان میں ابن خطل کا نام بھی تھا،
آپ نے ان سب کے بارے میں فرمایا کہ یہ ”جہاں کہیں ملیں انہیں قتل کردیا جائے خواہ خانہ کعبہ کے پردے ہی میں کیوں نہ چھپے ہوں“،
ابن خطل مسلمان ہوا تھا،
رسول اللہ ﷺ نے اسے زکاۃ وصول کرنے کے لیے بھیجا،
ایک انصاری مسلمان کو بھی اس کے ساتھ کردیا،
ابن خطل کا ایک غلام جو مسلمان تھا،
اس کی خدمت کے لیے اس کے ساتھ تھا،
اس نے اپنے مسلمان غلام کو ایک مینڈھا ذبح کرکے کھانا تیار کرنے کے لیے کہا،
اتفاق سے وہ غلام سو گیا،
اور جب بیدار ہوا تو کھانا تیار نہیں تھا،
چنانچہ ابن خطل نے اپنے اس مسلمان غلام کو قتل کر دیا،
اور مرتد ہو کر مشرک ہوگیا،
اس کے پاس دو گانے بجانے والی لونڈیاں تھیں،
یہ آپ ﷺ کی شان میں گستاخیاں کیا کرتی تھیں،
یہی وجہ ہے کہ آپﷺ نے اسے قتل کردینے کا حکم دیا۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1693
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1246
1246- سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: فتح مکہ کے موقع پر جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں داخل ہوئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر ”خود“ (فولادی ٹوپی) موجود تھا۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1246]
فائدہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ اپنی حفاظت کے لیے وسائل استعمال کرنا درست ہے۔ یہ توکل کے خلاف نہیں ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1244
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3308
امام یحییٰ رحمۃ اللہ علبہ کہتے ہیں میں نے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا، کیا آپ کو ابن شہاب نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ روایت سنائی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فتح کے سال مکہ میں اس حال میں داخل ہوئے تھے کہ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر خود تھا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اتارا، تو ایک شخص نے آ کر بتایا، ابن خطل کعبہ کے پردوں سے لٹکا ہوا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے قتل کر دو۔“ امام... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:3308]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سرپر خود تھا،
اگلی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر سیاہ عمامہ تھا،
اصل بات یہ ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم داخل ہوئے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر خود تھا۔
پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اتار لیا،
تو پھر سر پر سیاہ پگڑی باندھ لی اور بغیر احرام کے داخل ہونے کا باعث یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمرہ کرنا مقصود نہ تھا،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو فتح مکہ کے لیے نکلے تھے،
مسئلہ گزرچکا ہے،
اور ابن خطل کو اس لیے قتل کروا دیا،
کیونکہ وہ اسلام لانے کے بعد مرتد ہو گیا تھا اور اپنے مسلمان خادم کو قتل کر دیا تھا نیز وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کرتا تھا،
اور اس نے دو لونڈیاں رکھی تھیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور مسلمانوں کو بُرا بھلا کہتی تھیں،
اور اس حدیث سے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ،
اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ،
نے حد قائم کرنے کے جواز پر استدلال کیا ہے،
لیکن دوسروں کے نزدیک اس کو ارتداد کی بنا پر قتل کیا تھا،
قصاص کے طور پر قتل نہیں کیا تھا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3308
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3044
3044. حضرت انس بن مالک ؓسے روایت ہے، کہ رسول اللہ ﷺ فتح مکہ کے دن جب شہر میں داخل ہوئے تو آپ نے اپنے سر مبارک پر خود پہن رکھا تھا۔ جب آپ اسے اتار رہے تھے تو ایک شخص نے آکر آپ کو خبر دی کہ ابن خطل غلاف کعبہ سے لٹکا ہوا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اسے (وہیں) قتل کردو۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3044]
حدیث حاشیہ:
یہ عبداللہ بن خطل کم بخت مرتد ہو کر ایک مسلمان کا خون کر کے کافروں میں مل گیا تھا اور آنحضرتﷺ کی اور مسلمانوں کی ہجو رنڈیوں سے گواتا۔
یہ حدیث اس حدیث کی مخصص ہے کہ جو شخص مسجد حرام میں آ جائے وہ بے خوف ہے اور اس سے یہ نکلا کہ مسجد حرام میں حد قصاص لیا جا سکتا ہے، خود‘ لوہے کا ٹوپ جو میدان جنگ میں سر کے بچانے کے لئے استعمال ہوتا تھا جس طرح لوہے کا کرتہ زرہ نامی سے باقی بدن کو بچایا جاتا تھا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3044
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1846
1846. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ فتح کے سال جب رسول اللہ ﷺ مکہ میں داخل ہوئے تو آپ کے سر پر خود تھا۔ جس وقت آپ نے اسے اتارا تو ایک شخص نے آپ کو مطلع کیا کہ ابن خطل کعبہ کے پردوں سے چمٹا ہوا ہے، آپ نے فرمایا: ”اسے قتل کردو۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1846]
حدیث حاشیہ:
ابن خطل کا نام عبداللہ تھا یہ پہلے مسلمان ہو گیا تھا۔
آپ ﷺ نے ایک صحابی کو زکوۃ وصول کرنے کے لیے بھیجا، جس کے ساتھ ایک مسلمان غلام بھی تھا۔
ابن خطل نے اس مسلمان غلام کو کھانا تیار کرنے کا حکم دیا اور خود سو رہا، پھر جاگا تو اس مسلمان غلام نے کھانا تیار نہیں کیا تھا، غصہ میں آکر اس نے اس غلام کو قتل کر ڈالا اور خود اسلام سے پھر گیا۔
دوگانے والی لونڈیاں اس نے رکھی تھیں اور ان سے آنحضرت ﷺ کی ہجو کے گیت گوایا کرتا تھا۔
یہ بدبخت ایسا ازلی دشمن ثابت ہوا کہ اسے کعبہ شریف کے اند رہی قتل کر دیا گیا۔
ابن خطل کو قتل کرنے والے حضرت ابوبرزہ اسلمی ؓ تھے بعض نے حضرت زبیر کو بتلایا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1846
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1846
1846. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ فتح کے سال جب رسول اللہ ﷺ مکہ میں داخل ہوئے تو آپ کے سر پر خود تھا۔ جس وقت آپ نے اسے اتارا تو ایک شخص نے آپ کو مطلع کیا کہ ابن خطل کعبہ کے پردوں سے چمٹا ہوا ہے، آپ نے فرمایا: ”اسے قتل کردو۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1846]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ کا مقصد ہے کہ جو لوگ حج و عمرے کا ارادہ رکھتے ہیں ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ مکہ میں احرام کے ساتھ داخل ہوں۔
ان کے علاوہ جو لوگ اپنی ذاتی ضروریات یا کسی ہنگامی غرض کے پیش نظر مکہ میں آئے ان پر احرام کی پابندی لگانا درست نہیں، چنانچہ رسول اللہ ﷺ فتح مکہ کے وقت مکہ میں احرام کے بغیر داخل ہوئے کیونکہ آپ کے سر مبارک پر خود تھا۔
اگر بحالت احرام ہوتے تو آپ کا سر ننگا ہوتا۔
اس بنا پر کسی ہنگامی ضرورت کے پیش نظر مکے میں داخل ہونے والا احرام سے مستثنیٰ ہے۔
(2)
واضح رہے کہ ابن خطل نے ایک مسلمان کو قتل کر دیا تھا۔
اس کے بعد وہ مرتد ہو گیا تو رسول اللہ ﷺ نے حرم پاک میں اسے قتل کرنے کا حکم دیا، چنانچہ حضرت ابو برزہ اسلمی ؓ نے اسے کیفر کردار تک پہنچایا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1846
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3044
3044. حضرت انس بن مالک ؓسے روایت ہے، کہ رسول اللہ ﷺ فتح مکہ کے دن جب شہر میں داخل ہوئے تو آپ نے اپنے سر مبارک پر خود پہن رکھا تھا۔ جب آپ اسے اتار رہے تھے تو ایک شخص نے آکر آپ کو خبر دی کہ ابن خطل غلاف کعبہ سے لٹکا ہوا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اسے (وہیں) قتل کردو۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3044]
حدیث حاشیہ:
1۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ قیدیوں کو قتل کرنا جائز نہیں۔
امام بخاری ؒنے ثابت کیا ہے کہ حالات اگر تقاضا کریں تو ایسا کرنا جائز ہے بلکہ اسے باندھ کر بھی مارا جا سکتا ہے چنانچہ ابن خطل کے ساتھ یہی برتاؤ کیا گیا۔
وہ بدبخت مسلمان ہونے کے بعد مرتد ہوا پھر وہ ایک مسلمان کا نا حق خون کر کے کافروں سے جا ملا اور اپنی لونڈیوں سے رسول اللہ ﷺ کی توہین کراتا تھا۔
2۔
رسول اللہ ﷺ نے اسے حرم ہی میں قتل کردینے کا حکم دیا۔
اگرچہ حرم میں آنے والا امن کا حق دار ہے لیکن اس حدیث کے مطابق ابن خطل کا قتل مخصوص ہے نیز رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”مجھے کچھ وقت کے لیے حرم میں لڑائی کی اجازت دی گئی۔
اس کے بعد قیامت تک کسی کو حرم کی حرمت پامال کرنے کی اجازت نہیں۔
“ (صحیح البخاري، جزاء الصید، باب: 1834)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3044