Note: Copy Text and to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي
کتاب: غزوات کے بیان میں
49. بَابُ أَيْنَ رَكَزَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الرَّايَةَ يَوْمَ الْفَتْحِ:
باب: فتح مکہ کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جھنڈا کہاں گاڑا تھا؟
حدیث نمبر: 4284
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، حَدَّثَنَا شُعَيْبٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الزِّنَادِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْزِلُنَا إِنْ شَاءَ اللَّهُ إِذَا فَتَحَ اللَّهُ الْخَيْفُ حَيْثُ تَقَاسَمُوا عَلَى الْكُفْرِ".
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم سے شعیب نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم سے ابوالزناد نے بیان کیا ‘ ان سے عبدالرحمٰن نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان شاءاللہ ہماری قیام گاہ اگر اللہ تعالیٰ نے فتح عنایت فرمائی تو خیف بنی کنانہ میں ہو گی۔ جہاں قریش نے کفر کی حمایت کے لیے قسم کھائی تھی۔
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4284 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4284  
حدیث حاشیہ:
خیف اس جگہ کو کہتے ہیں جو معمولی زمین سے اونچی اور پہاڑ سے کچھ نیچی ہو۔
مسجد خیف اسی جگہ واقع ہے۔
کسی وقت کفار مکہ نے اسلام دشمنی پر یہیں قسم کھائی تھی۔
اللہ نے ان کا غرور خاک میں ملا یا اور اسلام کو عظمت عطا فرمائی، قریش نے قسمیں کھائی تھیں کہ وہ رسول کریم ﷺ کو آپ کے پورے خاندان بنو ہاشم اور بنو مطلب کو مکہ سے نکال کر ہی دم لیں گے آخر وہ دن آیا کہ وہ خود ہی نیست ونابود ہو گئے اور اسلام کا جھنڈا مکہ پر لہرایا۔
سچ ہے ﴿ وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا﴾ (بني إسرائیل: 81)
مسلمان اگر آ ج بھی سچے مسلمان بن جائیں تو نصرت خدا وندی ان کی مدد کے لیے حاضر ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4284   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3176  
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہماری قیام گاہ ان شاءاللہ، جب اللہ تعالیٰ نے فتح دی ہے، خیف ہو گی، جہاں انہوں نے آپس میں کفر پر قسمیں اٹھائی تھیں۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:3176]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کی طرف واپسی کے وقت ظہر،
عصر،
شام اور عشاء کی نمازیں وادی مُحَصَّب میں پڑھی تھیں اور پھر وہاں سے صبح سے پہلے روانہ ہو کر بیت اللہ کا طواف وداع فرمایا تھا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3176   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1590  
1590. حضرت ابوہریرۃ ؓ ہی سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے نحر کے اگلے روز فرمایا جبکہ آپ منیٰ میں تشریف فرماتھے: ہم کل خیف بنوکنانہ میں اتریں گے جہاں کفار قریش نے کفر پر ڈٹے رہنے کی قسم کھائی تھی۔ خیف بنو کنانہ سے مراد محصب ہے۔ واقعہ یوں ہے کہ قریش اور کنانہ نے بنو ہاشم اور بنو عبدالمطلب کے خلاف قسم اٹھا کر یہ قرارداد پاس کی تھی کہ ان کے ساتھ رشتہ نکاح نہیں کریں گے اور نہ ان کے ہاتھ کوئی چیز فروخت کریں گے جب تک وہ نبی کریم ﷺ کو ہمارے حوالے نہ کردیں۔ ایک روایت کے مطابق بنو ہاشم اور بنو مطلب کے الفاظ ہیں۔ امام بخاری ؓ فرماتے ہیں کہ بنو مطلب کے الفاظ ہی حقیقت سے قریب تر معلوم ہوتے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1590]
حدیث حاشیہ:
کہتے ہیں ا س مضمون کی ایک تحریری دستاویز مرتب کی گئی تھی۔
اس کو منصور بن عکرمہ نے لکھا تھا۔
اللہ تعالیٰ نے اس کا ہاتھ شل کردیا۔
جب یہ معاہدہ بنی ہاشم اور بنی مطلب نے سنا تو وہ گھبرائے مگر اللہ کی قدرت کہ اس معاہدہ کے کاغذ کو دیمک نے کھالیا۔
جو کعبہ شریف میں لٹکا ہوا تھا۔
کاغذ میں فقط وہ مقام رہ گیا جہاں اللہ کا نام تھا۔
آنحضرت ﷺ نے اس کی خبر ابوطالب کو دی۔
ابو طالب نے ان کافروں کو کہا میرا بھتیجا یہ کہتا ہے کہ جاکر اس کاغذ کو دیکھو اگر اس کا بیان صحیح نکلے تو اس کی ایذا دہی سے باز آؤ، اگر جھوٹ نکلے تو میں اسے تمہارے حوالے کردوں گا پھر تم کو اختیار ہے۔
قریش نے جاکر دیکھا تو جیسا آنحضرت ﷺ نے فرمایا تھا ویسا ہی ہوا تھا کہ ساری تحریر کو دیمک چاٹ گئی تھی، صرف اللہ کا نام رہ گیا تھا۔
تب وہ بہت شرمندہ ہوئے۔
آنحضرت ﷺ جو اس مقام پر جاکر اترے تو آپ نے اللہ کا شکر کیا اور یاد کیا کہ ایک دن تو وہ تھا۔
ایک آج مکہ پر اسلام کی حکومت ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1590   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3882  
3882. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے جب جنگ حنین کا ارادہ کیا تو فرمایا: إن شاءاللہ کل ہمارا قیام بنو کنانہ کے ڈیرے پر ہو گا جہاں مشرکین نے کفر پر قائم رہنے کے لیے قسمیں اٹھائی تھیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3882]
حدیث حاشیہ:
باب اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے کہ مشرکین نے خیف بنی کنانہ میں کفر پر پختگی کا عہد کیا تھاجسے اللہ نے بعد میں پاش پاش کرا دیا اور ان کی نسلیں اسلام میں داخل ہوگئیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3882   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4285  
4285. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے جب حنین کا ارادہ کیا تو فرمایا: ان شاءاللہ کل ہماری قیام گاہ خیف بنو کنانہ ہو گی جہاں کفار مکہ نے کفر پر قائم رہنے کی قسمیں اٹھائی تھیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4285]
حدیث حاشیہ:
یہا ں آپ اس لیے اترے کہ اللہ کا احسان ظاہر ہو کہ ایک دن تو وہ تھا کہ بنو ہاشم قریش کے کافروں سے ایسے مغلوب اور مرعوب تھے یا ایک دم اللہ نے وہ دن دکھلایا کہ سارے قریش کے کافر مغلوب ہوگئے اور اللہ نے اسلام کو غالب کردیا۔
اس سے اہم ترین تاریخی مقامات کو یاد رکھنا بھی ثابت ہوا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4285   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1590  
1590. حضرت ابوہریرۃ ؓ ہی سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے نحر کے اگلے روز فرمایا جبکہ آپ منیٰ میں تشریف فرماتھے: ہم کل خیف بنوکنانہ میں اتریں گے جہاں کفار قریش نے کفر پر ڈٹے رہنے کی قسم کھائی تھی۔ خیف بنو کنانہ سے مراد محصب ہے۔ واقعہ یوں ہے کہ قریش اور کنانہ نے بنو ہاشم اور بنو عبدالمطلب کے خلاف قسم اٹھا کر یہ قرارداد پاس کی تھی کہ ان کے ساتھ رشتہ نکاح نہیں کریں گے اور نہ ان کے ہاتھ کوئی چیز فروخت کریں گے جب تک وہ نبی کریم ﷺ کو ہمارے حوالے نہ کردیں۔ ایک روایت کے مطابق بنو ہاشم اور بنو مطلب کے الفاظ ہیں۔ امام بخاری ؓ فرماتے ہیں کہ بنو مطلب کے الفاظ ہی حقیقت سے قریب تر معلوم ہوتے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1590]
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ ﷺ نے حج سے فراغت کے بعد اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے لیے خیف بنو کنانہ کا انتخاب کیا تھا کیونکہ اسی جگہ کفار مکہ نے رسول اللہ ﷺ کی دعوت کو ناکام کرنے کا معاہدہ کیا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے عزائم خاک میں ملا کر اپنے رسول ﷺ کو کامیاب فرمایا۔
آپ پر وہ وقت بھی آیا کہ آپ انتہائی مجبور تھے، رات کے وقت چھپ کر مکہ سے نکلے تھے، آج اللہ تعالیٰ نے آپ کو مکہ مکرمہ کی حکومت عطا فرمائی تھی۔
(2)
جب کفار قریش کو یہ اطلاع ملی کہ حبشہ کے بادشاہ نے مکہ سے ہجرت کرنے والوں کی بہت عزت افزائی کی ہے تو انہیں سخت تکلیف ہوئی۔
رد عمل کے طور پر بنو ہاشم سے بائیکاٹ کا ایک معاہدہ تحریر کیا کہ وہ ان سے میل جول، خرید وفروخت اور بیاہ شادی نہیں کریں گے جب تک وہ نبی ﷺ کو ہمارے حوالے نہ کر دیں، پھر انہوں نے اس دستاویز کو کعبہ کے اندر لٹکا دیا اور نبوت کے ساتویں سال اس بائیکاٹ کے نتیجے میں بنو ہاشم شعب ابی طالب میں بند ہو کر رہ گئے۔
بنو مطلب بھی ابو طالب کے پاس اس وادی میں چلے گئے۔
تین سال تک ان کے ہاں تاجروں کا آنا جانا بند رہا حتی کہ وہ سخت مشقت میں پڑ گئے۔
اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو بذریعہ وحی خبر دی کہ صحیفے کی ظلم و ستم پر مشتمل باتوں کو دیمک چاٹ گئی ہے، صرف اللہ کا نام باقی ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے اپنے چچا ابو طالب سے اس کا تذکرہ کیا تو اس نے کفار قریش سے کہا کہ تم اپنے معاہدے کو دیکھو۔
اگر وہ صحیح سالم ہے تو میں اپنے بھتیجے کو تمہارے حوالے کر دوں گا، چنانچہ جب صحیفہ دیکھا تو رسول اللہ ﷺ کی بات صحیح نکلی۔
اللہ کے نام کے سوا تمام تحریر کو دیمک نے کھا لیا تھا۔
یہ منظر دیکھ کر کفار قریش بہت نادم ہوئے اور بائیکاٹ ختم کرنے پر مجبور ہو گئے، چنانچہ نبوت کے دسویں سال بنو ہاشم وغیرہ شعب ابی طالب سے باہر آئے۔
(السنن الکبرٰی للبیھقي: 365/6) (3)
امام بخاری ؒ نے بنو عبدالمطلب کے بجائے بنو المطلب کو حقیقت سے زیادہ قریب بتایا ہے کیونکہ عبدالمطلب ہاشم کے بیٹے ہیں اور مطلب ہاشم کے بھائی ہیں اور یہ دونوں عبد مناف کے بیٹے ہیں، الغرض کفار قریش نے بنو عبد مناف کے متعلق معاشی بائیکاٹ کرنے کی قسم اٹھائی تھی اور وہ بنو ہاشم اور بنو مطلب ہیں نہ کہ بنو عبدالمطلب۔
واللہ أعلم۔
(4)
واضح رہے کہ اس دستاویز کو لکھنے والا منصور بن عکرمہ عبدری تھا جس کا ہاتھ شل ہو گیا تھا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1590   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3882  
3882. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے جب جنگ حنین کا ارادہ کیا تو فرمایا: إن شاءاللہ کل ہمارا قیام بنو کنانہ کے ڈیرے پر ہو گا جہاں مشرکین نے کفر پر قائم رہنے کے لیے قسمیں اٹھائی تھیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3882]
حدیث حاشیہ:

اس مقام پر یہ روایت مختصر طور پر بیان ہوئی ہے۔
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ الفاظ مکہ مکرمہ آتے ہوئے کہے۔
(صحیح البخاري، الحج، حدیث: 1589)
اس لیے احتمال ہے کہ فتح مکہ کے سال آپ نے ارشاد فرمایا ہو۔
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے یوم النحر کے اگلے دن یہ الفاظ فرمائے کہ ہم کل خیف بنی کنانہ میں پڑاؤ کریں گے۔
(صحیح البخاري، الحج، حدیث: 1590)
اس سے معلوم ہوتا ہےکہ آپ نے حجۃ الوداع کے موقع پر یہ الفاظ فرمائے تھے جبکہ طواف وداع کے لیے مکہ جانے کا پرو گرام بنایا تھا۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے فتح مکہ اور حجۃ الوداع دونوں وقت ایسا کہا تھا۔
(فتح الباري: 242/7)

امام بخاری ؒ کے نزدیک بنو ہاشم سے ترک موالات کا واقعہ شرائط کے مطابق نہ تھا اس لیے آپ نے مذکورہ حدیث ذکر کرنے پر اکتفاء کیا ہے کیونکہ یہ حدیث واقعے کی بنیاد پر دلالت کرتی ہے گویا اہل مغازی نے جو واقعہ نقل کیا ہے وہ اس حدیث کی تشریح ہے کہ مشرکین نے اپنے کفر پرجمے رہنے کی قسمیں اٹھائیں تھیں۔
بہر حال اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ ﷺ کو ان کٹھن حالات سے نجات دی جو کفارقریش نے پیدا کر رکھے تھے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3882   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4285  
4285. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے جب حنین کا ارادہ کیا تو فرمایا: ان شاءاللہ کل ہماری قیام گاہ خیف بنو کنانہ ہو گی جہاں کفار مکہ نے کفر پر قائم رہنے کی قسمیں اٹھائی تھیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4285]
حدیث حاشیہ:

خیف کے معنی پہاڑ کی ڈھلوان ہیں، یعنی بڑے پہاڑ سے اترنے کی جگہ۔
اس سے مراد وادی محصب ہے جو خیف بنوکنانہ کے نام سے مشہور تھی۔
وہاں قریش اور کنانہ نے بنوہاشم سے بائیکاٹ کے لیے آپس میں عہدوپیمان کیا تھا کہ جب تک یہ لوگ رسول اللہ ﷺ کو ہمارے حوالے نہیں کرتے ہم ان سے خریدوفروخت اور رشتہ ناتانہیں کریں گے۔
رسول اللہ ﷺ نے وہاں، یعنی خیف بنوکنانہ میں اللہ کا شکر ادا کرنے کے لیے قیام فرمایا کہ مکہ فتح ہوا، اسلام کو اللہ تعالیٰ نے غلبہ عنایت فرمایا، وہ کفر جس کے لیے کفار نے اس قدر اہتمام کیا تھا وہ باطل ثابت ہوا۔
(فتح الباري: 20/8۔
)

رسول اللہ ﷺ نے یہ الفاظ کس سفر میں کہے تھے؟ اس کے متعلق مختلف روایات ہیں۔
مذکورہ روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ فتح مکہ کا واقعہ ہے جبکہ اس سے پہلے ایک روایت میں تھا کہ رسول اللہ ﷺ نے یوم النحر کے اگلے دن منی میں یہ الفاظ کہے تھے۔
(صحیح البخاري، الحج، حدیث: 1590۔
)

ممکن ہے کہ دونوں مرتبہ آپ نے ایسا کہا ہو۔
(فتح الباري: 20/8۔
)

واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4285   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7479  
7479. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ہم ان شاؑاللہ کل خیف بنو کنانہ میں قیام کریں گے جہاں (ایک زمانے میں) کفار مکہ نے کفر پر قائم رہنے کے لیے آپس میں قسمیں کھائی تھیں۔ خیف بنو کنانہ سے مراد وادی محصب ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7479]
حدیث حاشیہ:

وادی محصب مکہ مکرمہ اور منیٰ کے درمیان واقع ہے۔
وہاں قریش نے بنوہاشم اور بنو مطلب سے بائیکاٹ کرنے کے متعلق قسمیں اٹھائی تھیں۔
ان کا باہمی معاہدہ ہوا تھا کہ ہم ان سے خریدوفروخت، شادی بیاہ، رہن سہن اور لین دین نہیں کریں گے یہاں تک کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمارے حوالے کر دیں۔
انھوں نے اس بائیکاٹ کا معاہدہ لکھ کی بیت اللہ مین لٹکا دیا تھا۔
اس کی وضاحت کتاب الحج میں ہے۔
(صحیح البخاري، الحج، حدیث: 1590)

اس حدیث میں وضاحت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذوالحجہ کی بارہ تاریخ کو منیٰ میں قیام کے دوران میں فرمایا تھا۔
ایک روایت میں ہے:
فتح مکہ کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ عزم کا اظہار کیا تھا۔
(صحیح البخاري، مناقب الأنصار، حدیث: 3882)
ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع اور فتح مکہ دونوں موقعوں پر اس کا اظہار کیا تھا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عزم کو اللہ تعالیٰ کی مشیت پر موقوف رکھا، پھر اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے اسباب وذرائع مہیا فرمائے۔
اللہ تعالیٰ اگر چاہے تو ممکن اور آسان کام کو غیر ممکن اور مشکل کر دے کیونکہ کائنات کا نظام اس کی مشیت سے وابستہ ہے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7479