Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

مسند اسحاق بن راهويه
كتاب الفضائل
فضائل کا بیان
دو رخ والے شخص کا بیان
حدیث نمبر: 556
أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ، عَنْ عُمَارَةَ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ بْنِ عَمْرِو بْنِ جَرِيرٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:تَجِدُوْنَ النَّاسَ مَعَادِنَ فَخِيَارُهُمْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ خِيَارُهُمْ فِي الْإِسْلَامِ إِذَا فَقُهُوا وَتَجِدُوْنَ خَيْرَ النَّاسِ فِي هَذَا الشَّأْنِ أَشَدَّهُمْ لَهُ كَرَاهِيَةً وَتَجِدُوْنَ شَرَّ النَّاسِ ذّا الْوَجْهَيْنِ الَّذِي يَأْتِي هَؤُلَاءِ بِوَجْهٍ وَهَؤُلَاءِ بِوَجْهٍ.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لوگوں کو کان کی طرح پاؤ گے، پس جو لوگ دور جاہلیت میں بہتر تھے وہ اسلام لانے کے بعد بھی اچھے ہیں، بشرطیکہ وہ دین کا علم حاصل کریں، تم اس (حکومت) کے لائق سب سے بہتر اسے پاؤ گے جو ان میں سے اسے سخت ناپسند کرتا ہو اور تم دو رخ والے شخص کو سب سے برا پاؤ گے جو کہ ان کے پاس ایک چہرہ لے کر آتا ہے اور ان کے پاس ایک دوسرا چہرہ لے کر آتا ہے۔

تخریج الحدیث: «بخاري، كتاب المناقب، رقم: 3493، 3494. مسلم، كتاب فضائل الصحابة رضي الله عنهم، باب خيار الناس، رقم: 2526. مسند الشهاب، رقم: 606.»

مسند اسحاق بن راہویہ کی حدیث نمبر 556 کے فوائد و مسائل
   الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 556  
فوائد:
(1).... اللہ نے جو انسانوں میں اچھی صفات رکھی ہیں وہ اسلام میں بھی صفاتِ خیر باقی رہتی ہیں۔
(2).... مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ جو لوگ عہدہ ومنصب کی خواہش نہیں رکھتے اگر ایسے لوگوں کو عہدہ دے دیا جائے تو وہ لوگ عوام کے لیے بہتر ثابت ہوں گے کیونکہ ان میں خاص استعداد وصلاحیتیں ہوں گی اور ان کے ساتھ اللہ ذوالجلال کی مدد بھی ہوگی۔
جیسا کہ سیدنا ابوسعید عبدالرحمن بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عبدالرحمن بن سمرہ! تو خود حکومت کے کسی منصب کا سوال نہ کرنا، اس لیے کہ یہ منصب اگر تجھے بغیر سوال کیے مل گیا تو اس پر (اللہ کی طرف سے) تیری مدد ہوگی اور اگر یہ تجھے سوال کرنے سے ملے گا تو یہ تیرے سپرد کردیا جائے گا۔ (یعنی اللہ کی مدد شامل حال نہیں ہوگی) (بخاري، کتاب الایمان والنذور، رقم: 6722۔ مسلم، رقم: 1652)
(3).... دو چہرے سے مراد ہر جماعت کو خوش کرتا ہے، ایک کے پاس آیا تو یہ باور کروایا کہ میں تیرا خیر خواہ ہوں اور دوسرے کے پاس گیا تو ان کے ساتھ اس طرح گفتگو کرتا ہے گویا کہ اسی کا ہمدرد ہے، گویا کہ فریق اول سے جو بات کی وہ اس منہ سے کی اور دوسرے فریق کے ساتھ دوسرا منہ لے کر بات کی اور بات میں دوغلا پن اختیار کیا۔ ایسے شخص کے ایک ہی چہرے کو دو چہرے قرار دیا گیا، کیونکہ غیرت مند آدمی اپنی زبان سے جب ایک بات کہہ دیتا ہے تو اس کے خلاف دوسری بات اسی زبان سے کہتے ہوئے شرم محسوس کرتا ہے، جبکہ بے ضمیر اور بے غیرت آدمی ایک زبان سے دو چہروں کا کردار ادا کرتا ہے۔ اس لیے قیامت کے دن اس حرکت بد کی سزا یہ ہوگی کہ ایسے لوگوں کی دوزبانیں ہوں گی جیسا کہ سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جس کے دنیا میں دو چہرے ہوں گے (جو آدمی دورخا ہوا) قیامت کے دن اس کی دو زبانیں آگ کی ہوں گی۔ (سنن ابي داود، رقم: 4873۔ سلسلةصحیحة، رقم: 892)
   مسند اسحاق بن راھویہ، حدیث/صفحہ نمبر: 556