مسند اسحاق بن راهويه
كتاب الفضائل
فضائل کا بیان
انصار کی عظمت و فضیلت
حدیث نمبر: 552
أَخْبَرَنَا شَبَابَةُ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَهُ.
شبابہ نے اس اسناد سے اسی سابقہ حدیث کی طرح روایت کیا ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر الحديث السابق برقم: (84/551)»
مسند اسحاق بن راہویہ کی حدیث نمبر 552 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 552
فوائد:
مذکورہ بالا الفاظ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت فرمائے جب غزوہ حنین میں مال غنیمت ملا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے، تالیف قلب کے لیے نئے مسلمان ہونے والوں کو زیادہ حصہ دیا۔ تاکہ وہ اسلام کی طرف پوری طرح مائل ہو جائیں۔
صحیح مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سو سو اونٹ تقسیم فرمائے: سیدنا ابو سفیان بن حرب کو سو اونٹ، عیینہ بن حصن کو سو اونٹ، اقرع بن حابس کو سو اونٹ اور صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہم کو سو اونٹ۔ (مسلم، کتاب الزکاة، رقم: 1060)
تو ایسے موقع پر انصار کے کچھ لوگوں نے اپنے رنج کا اظہار کیا، اللہ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو معاف فرمائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم قریش کو عطا فرما رہے ہیں اور ہمیں محروم کر رہے ہیں۔ حالانکہ ابھی ہماری تلواروں سے دشمن کا خون ٹپک رہا ہے، اس کے بعد نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کو خطاب کیا۔ دیکھئے مفصل خطاب کے لیے: (بخاري، رقم: 4331۔ 4332)
مذکورہ بالا حدیث سے انصار کی فضیلت وعظمت کا بھی اثبات ہوتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مبارک کہ ہجرت نہ ہوتی تو میں انصار کا ایک فرد ہوتا۔ مطلب یہ کہ اگر ہجرت کی نسبت مجھ پر ضروری نہ ہوتی تو میں یقینا اپنی نسبت تمہارے شہر کی طرف کرتا۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ننھیالی رشتہ کی مناسبت سے یہ فرمایا ہو۔
علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ کے نزدیک یہ ہے کہ اس سے نسبت دینی مراد ہے، اگر ہجرت کی نسبت دینی نہ ہوتی تو میں اپنی نسبت تمہارے شہر کی طرف کرتا۔
امام قرطبی رحمہ اللہ کے نزدیک سبقت ہجرت مراد ہے اگر ہجرت کی نسبت سبقت نہ لے گئی ہوتی تو میں اپنی نسبت تمہاری طرف کرتا۔ (فتح الباري: 8؍51)
مسند اسحاق بن راھویہ، حدیث/صفحہ نمبر: 552