مسند اسحاق بن راهويه
كتاب الجهاد
جہاد کے فضائل و مسائل
امت کے سمندری جہاد کی بشارت
حدیث نمبر: 526
أَخْبَرَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، نا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ حَبَّانَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أُمِّ حَرَامٍ بِنْتِ مِلْحَانَ قَالَتْ: نَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ اسْتَيْقَظَ فَذَكَرَ نَحْوَهُ.
سیدہ ام حرام بنت ملحان رضی اللہ عنہا نے بیان کیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے، پھر بیدار ہوئے، راوی نے اسی مانند اسے ذکر کیا۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبله.»
مسند اسحاق بن راہویہ کی حدیث نمبر 526 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 526
فوائد:
مذکورہ حدیث میں جس عورت کا تذکرہ ہے اس سے مراد سیّدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی خالہ ام حرام بنت ملحان رضی اللہ عنہا ہیں۔ (صحیح بخاري، رقم: 2799)
”کرمانی شرح بخاری“ میں ہے: اس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محرم رشتہ تھا، یہ کیا رشتہ تھا؟ اس کے بارے میں حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے کہ وہ آپ کی رضاعی خالہ تھیں اور بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ آپ کے والد یا آپ کے دادا کی خالہ تھیں، اس لیے کہ آپ کے دادا عبدالمطلب کی والدہ قبیلہ بنو نجار سے تھیں جو انصار کا ایک قبیلہ تھا۔ مذکورہ بالا حدیث سے بحری جہاد میں شرکت کرنے والوں کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ مسلمانوں کی سب سے پہلی بحری فوج سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے حکم پر آپ کے زمانہ میں تیار کی تھی۔ (فتح الباری، کتاب الجهاد، باب غزوة المراة فی البحر: 6؍ 94)
سیّدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: جب مسلمانوں نے سیّدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما کی معیت میں پہلا سمندری سفر کیا تو ام حرام رضی اللہ عنہا بھی اپنے شوہر سیّدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کے ہمراہ جہاد کے لیے روانہ ہوئیں، جب وہ لوگ جنگ سے واپس آئے تو (سفر کے دوران) شام میں (ایک مقام پر) ٹھہرے (روانگی کے وقت) سوار ہونے کے لیے سواری کا جانور آپ کے قریب لایا گیا تو اس (جانور) نے انہیں گرا دیا اور وہ فوت ہوگئیں۔ (بخاري، رقم: 2799۔ 2800)
مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا عورتیں بھی جہاد میں شریک ہوسکتی ہیں بشرطیکہ ان کے ساتھ محرم ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: عورتوں کا جہاد حج کرنا ہے۔ (بخاري، کتاب الجهاد، باب جهاد النساء)
جو جہاد میں شریک ہو اگر وہ حادثاتی موت بھی مرجائے تو وہ شہید ہے۔ جیسا کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس آیت مبارکہ سے استدلال کیا ہے: ﴿وَ مَنْ یَّخْرُجْ مِنْم بَیْتِہٖ مُہَا جِرًا اِلَی اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ ثُمَّ یُدْرِکْهُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَقَعَ اَجْرُهٗ عَلَی اللّهہِ﴾ (النساء:100).... ”جو شخص اپنے گھر سے اللہ اور رسول کی طرف ہجرت کی نیت کرکے نکلے اور پھر راستے ہی میں اس کی وفات ہوجائے تو اللہ پر اس کا اجر واجب ہوگیا۔“ آیت میں وَقَعَ کے معنی وَجَبَ کے ہیں۔ (بخاري، کتاب الجهاد، باب فضل من یصرع فی سبیل الله فمات فهو منهم)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو پیش گوئی فرمائی وہ اسی طرح پوری ہوئی۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی دلیل ہے۔
مسند اسحاق بن راھویہ، حدیث/صفحہ نمبر: 526