حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:" سَافَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ، فَصَامَ حَتَّى بَلَغَ عُسْفَانَ، ثُمَّ دَعَا بِإِنَاءٍ مِنْ مَاءٍ، فَشَرِبَ نَهَارًا لِيُرِيَهُ النَّاسَ، فَأَفْطَرَ حَتَّى قَدِمَ مَكَّةَ، قَالَ: وَكَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ، يَقُولُ: صَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي السَّفَرِ وَأَفْطَرَ، فَمَنْ شَاءَ صَامَ، وَمَنْ شَاءَ أَفْطَرَ".
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4279
حدیث حاشیہ:
قریش کی بد عہدی پر مجبوراً مسلمانوں کو سنہ 8ھ میں بماہ رمضان مکہ شریف پر لشکر کشی کرنی پڑی۔
قریش نے سنہ6ھ کے معاہدہ کو توڑ کر بنو خزاعہ پر حملہ کردیا جو آنحضرت ﷺ کے حلیف تھے اور جن پر حملہ نہ کرنے کا عہد وپیمان تھا مگر قریش نے اس عہد کو اس بری طرح توڑا کہ سارے بنی خزاعہ کا صفایا کر دیا۔
ان بچاروں نے بھاگ کر کعبہ شریف میں پناہ مانگی اور الہک الہک کہہ کر پناہ مانگتے تھے کہ اپنے اللہ کے واسطے ہم کو قتل نہ کرو۔
مشرکین ان کو جواب دیتے ”لا اله الیوم“ آج اللہ کوئی چیز نہیں۔
ان مظلو موں کے بچے ہوئے چالیس آدمیوں نے دربار رسالت میں جاکر اپنی بربادی کی ساری داستان سنائی۔
آنحضرت ﷺ معاہدے کی پابندی فریق مظلوم کی داد رسی دوستدار قبائل کی آئندہ حفاظت کی غرض سے دس ہزار کی جمعیت کے ساتھ بجانب مکہ عازم سفر ہوئے۔
دو منزلہ سفر ہوا تھا کہ راستے میں ابو سفیان بن حارث بن عبد المطلب اور عبد اللہ بن امیہ سے ملاقات ہوئی اور اسلام قبول کیا۔
اس موقع پر ابو سفیان ؓ نے عجب جوش ونشاط کے ساتھ مندرجہ ذیل اشعار پڑے۔
لعمرك أني حین أحمل رأیه لتغلب خیل الات خیل محمد لکا المدلج الحیران أظلم لیلة فھذا أواني حین ھدي فاھتدی ھداني ھاد غیر نفسي و دلني إلی اللہ من طرد ته کل مطرد ترجمہ ”قسم ہے کہ میں جن دنوں لڑائی کا جھنڈا اس ناپاک خیال سے اٹھایا کرتا تھا کہ لات بت کے پوجنے والوں کی فوج حضرت محمد ﷺ کی فوج پر غالب آجائے۔
ان دنوں میں اس خار پشت جیسا تھا جو اندھیری رات میں ٹکریں کھاتا ہو۔
اب وقت آگیا ہے کہ میں ہدایت پاؤں اور سیدھے راستے (اسلام پر)
گامزن ہو جاؤں۔
مجھے سچے ہادی بر حق نے ہدا یت فرمادی ہے (نہ کہ میرے نفس نے)
اور اللہ کا راستہ مجھے اس ہادی بر حق نے دکھلا دیا ہے جسے میں نے (اپنی غلطی سے)
ہمیشہ دھتکار رکھا تھا۔
“ آخر20 رمضان سنہ8ھ کو آپ مکہ میں فاتحانہ داخل ہوئے اور جملہ دشمنان اسلام کو عام معافی کا اعلان کرادیا گیا۔
اس موقع پر آپ نے یہ خطبہ پیش فرمایا۔
يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ، إِنَّ اللَّهَ قَدْ أَذْهَبَ عَنْكُمْ نَخْوَةَ الْجَاهِلِيَّةِ وَتَعَظُّمَهَا بِالآبَاءِ النَّاسُ مِنْ آدَمَ، وَآدَمُ خُلِقَ مِنْ تراب ثم تلا رسول الله:
«يا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْناكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثى وَجَعَلْناكُمْ شُعُوباً وَقَبائِلَ لِتَعارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقاكُمْ» الآيَةَ.يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ، وَيَا أَهْلَ مَكَّةَ، مَا تَرَوْنَ أَنِّي فَاعِلٌ بِكُمْ؟ قَالُوا:
خَيْرًا، أَخٌ كَرِيمٌ وَابْنُ أَخٍ كَرِيمٍ ثُمَّ قَالَ:
اذهبوا فأنتم الطلقاء. (طبری)
اے خاندا ن قریش والو! خدا نے تمہاری جاہلانہ نخوت اور باپ دادوں پر اترانے کا غرور آج ختم کر دیا سن لو! سب لوگ آدم کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے پیدا ہوئے پھر آپ نے اس آیت کو پڑھا اے لوگو! ہم نے تم کو ایک ہی مرد عورت سے پیدا کیا ہے اور گوت اور قبیلے سب تمہاری آپس کی پہچان کے لیے بنا دیئے ہیں اور خدا کے ہاں تو صرف تقوی والے کی عزت ہے۔
پھر فرمایا (اے قریشیو!)
جاؤ آج تم سب آزاد ہو تم پر آج کوئی مواخذہ نہیں ہے۔
اس جنگ کے جستہ جستہ حالات حضرت امام بخاری ؒ نے مندرجہ ذیل ابواب میں بیان فرمائے ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4279
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4279
حدیث حاشیہ:
1۔
رسول اللہ ﷺ کا مذکورہ سفر فتح مکہ کے موقع پر ہواتھا جیسا کہ سابقہ روایات میں وضاحت ہے۔
امام بخاری ؒ نے اسی لیے اس روایت کو غزوہ فتح مکہ میں بیان کیاہے۔
رسول اللہ ﷺ کوقریش کی بدعہدی کی وجہ سے مجبوراً مکہ مکرمہ پر لشکر کشی کرنا پڑی، آخر 20 رمضان المبارک کو آپ مکہ مکرمہ میں فاتحانہ طور پر داخل ہوئے اور تمام دشمنان ِاسلام کے لیے عام معافی کا اعلان کردیاگیا۔
اس کے بعد حنین کی لڑائی ہوئی، پھراوطاس پر حملہ کیا گیا، اس کے بعدچوبیس دن تک طائف کامحاصرہ کیا یہاں تک کہ ذوالقعدہ کا چاند نظر آیا، پھر آپ مقام جعرانہ پہنچے، رات کے وقت عمرے کا احرام باندھا،عمرہ کرکے واپس مدینہ طیبہ تشریف لائے۔
2۔
امام بخاری ؒ نے فتح مکہ کے چیدہ چیدہ حالات بیان کیے ہیں جن کے لیے آپ نے مختلف انداز میں عنوان بندی کرکے احادیث جمع کی ہیں۔
واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4279
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 248
´سفر میں روزہ رکھنا اور افطار کرنا دونوں طرح جائز ہے`
«. . . عن ابن عباس: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم خرج إلى مكة عام الفتح فى رمضان فصام حتى بلغ الكديد ثم افطر فافطر الناس معه، وكانوا ياخذون بالاحدث فالاحدث من امر رسول الله صلى الله عليه وسلم . . .»
”. . . سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ فتح مکہ والے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کی طرف رمضان میں روانہ ہوئے تو آپ نے کدید (ایک مقام) تک روزے رکھے پھر آپ نے افطار کیا (روزے نہ رکھے) تو لوگوں نے بھی آپ کے ساتھ افطار کیا اور لوگ (صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم اجمعین) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تازہ بہ تازہ حکم پر عمل کرتے تھے . . .“ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 248]
تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 1944، من حديث مالك به مختصراً ورواه الدارمي 1715، من حديث مالك به، ومسلم 1112، من حديث الزهري به]
تفقه:
➊ سفر میں روزہ رکھنا اور افطار کرنا دونوں طرح جائز ہے اگر سفر میں سخت مشقت ہے تو افطار افضل ہے اور نہ آسانی کی حالت میں روز ہ بہتر ہے۔ اس مسئلے میں علماء کے درمیان اختلاف ہے لیکن یہی قول راجح ہے۔ والله اعلم
➋ ایک روایت میں آیا ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، آپ قصر کرتے رہے اور میں (نماز) پوری پڑھتی رہی، آپ افطار کر تے رہے اور میں روزے رکھتی رہی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عائشہ! ”تم نے اچھا کیا ہے۔“ [سنن النسائي: 121/3 ح 1457، وسنده صحيح]
● اس روایت پر حافظ ابن تیمیہ کی جرح مردود ہے۔
➌ سيدنا عبدالله بن عمر رضی اللہ عنہما سفر میں روزہ نہیں رکھتے تھے۔ [الموطأ رواية يحييٰ 295/1 ح 663 و سنده صحيح]
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سفر میں روزے رکھتی تھیں۔ [ابن ابي شيبه 16/3 ح 8980 سنده صحيح]
➍ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «إن شئت فصم وإن شئت فأفطر» ”اگر تم چاہو تو روزہ رکھو اور اگر چاہو تو افطار کرو۔“ [صحيح بخاري:1943، صحيح مسلم:1121، الاتحاف الباسم:465]
تنبیہ: التحاف الباسم سے یہی کتاب مراد ہے الموطأ امام مالک روایۃ ابن القاسم جس کے متن میں امام عبدالرحمٰن بن القاسم رحمہ اللہ کے بیان کردہ الموطأ کا نسخہ درج ہے۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 50
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2291
´سفر میں روزہ رکھنے کا بیان اور اس باب میں عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کی حدیث کے اختلاف کا ذکر۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر میں روزہ رکھا یہاں تک کہ آپ قدید آئے، پھر آپ نے دودھ کا ایک پیالہ منگایا اور (اسے) پیا، اور آپ نے اور آپ کے اصحاب نے روزہ توڑ دیا۔ [سنن نسائي/كتاب الصيام/حدیث: 2291]
اردو حاشہ:
یہ روایت تفصیل سے پیچھے گزر چکی ہے۔ (دیکھئے، روایت: 2265) جس میں روزے کے افطار کی وجہ مشقت بیان کی گئی ہے۔ اس باب میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ اس کے بعد مکہ مکرمہ تشریف لانے تک روزہ نہیں رکھا۔ اس کی وجہ مشقت کے علاوہ یہ بھی تھی کہ مکہ مکرمہ میں جنگ کا امکان تھا، لہٰذا آپ نے مناسب سمجھا کہ لوگ کچھ جسمانی قوت حاصل کر لیں، اس لیے حکماً روزے رکھنے سے روک دیا۔ گویا مخصوص حالت میں سفر کے دوران میں روزہ رکھنے سے روکا جا سکتا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2291
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2292
´اس حدیث میں منصور پر رواۃ کے اختلاف کا ذکر۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کے لیے نکلے، آپ روزہ رکھے ہوئے تھے۔ یہاں تک کہ آپ عسفان ۱؎ پہنچے، تو ایک پیالہ منگایا اور پیا۔ شعبہ کہتے ہیں: یہ واقعہ رمضان کے مہینے کا ہے، چنانچہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے تھے: سفر میں جو چاہے روزہ رکھے اور جو چاہے نہ رکھے۔ [سنن نسائي/كتاب الصيام/حدیث: 2292]
اردو حاشہ:
سابقہ روایات میں قدید کا ذکر ہے اور یہاں عسفان کا، اس میں کوئی تضاد نہیں۔ یہ دونوں مقام قریب قریب ہیں۔ ممکن ہے کہ افطار کی تعمیم (لوگوں کی اطلاع) کے لیے دونوں جگہ نبیﷺ نے پیا ہو۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2292
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2293
´اس حدیث میں منصور پر رواۃ کے اختلاف کا ذکر۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان میں سفر کیا، اور آپ روزہ رکھے ہوئے تھے، یہاں تک کہ عسفان پہنچے تو آپ نے ایک برتن منگایا، تو دن ہی میں پی لیا، لوگ اسے دیکھ رہے تھے، پھر آپ بغیر روزہ کے رہے۔ [سنن نسائي/كتاب الصيام/حدیث: 2293]
اردو حاشہ:
معلوم ہوا دورانِ سفر میں شدید مشقت ہو تو روزہ کھولا جاسکتا ہے۔ اس میں کوئی کفارہ نہیں، ہاں قضا ادا کرنی ہوگی۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2293
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2315
´مسافر کو اجازت ہے کہ کسی دن روزے سے رہے اور کسی دن کھائے پیئے۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں فتح مکہ کے سال روزہ کی حالت میں نکلے۔ یہاں تک کہ جب کدید ۱؎ میں پہنچے تو آپ نے روزہ توڑ دیا۔ [سنن نسائي/كتاب الصيام/حدیث: 2315]
اردو حاشہ:
(1) یہ روایت مع فائدہ پیچھے گزر چکی ہے۔ دیکھئے حدیث 2291۔
(2) اس روایت میں افطار کی جگہ کدید بتلائی گئی ہے جو کہ عسفان اور قدید کے درمیان ہے، لہٰذا یہ روایت دوسری روایات سے مختلف نہیں۔ (دیکھئے، حدیث: 2292)۔
(3) باب کا مقصد یہ ہے کہ اگر مسافر سفر میں روزہ رکھنے کو ترجیح دے تو ضروری نہیں کہ وہ سب روزے رکھے بلکہ کچھ رکھ لے کچھ نہ رکھے۔ بعد میں بھی رکھ لے تو کوئی حرج نہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2315
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2316
´جو رمضان کے مہینے میں روزہ رکھ کر سفر کرے اس کے لیے روزہ توڑنے کی رخصت کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر کیا تو روزہ رکھا یہاں تک کہ عسفان پہنچے، پھر آپ نے (پانی سے بھرا) ایک برتن منگایا، اور دن ہی میں پیا، تاکہ لوگ آپ کو دیکھ لیں، پھر آپ بغیر روزہ کے رہے، یہاں تک کہ مکہ پہنچ گئے۔ تو آپ نے مکہ کو رمضان میں فتح کیا۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر میں روزہ رکھا، اور روزہ توڑ بھی دیا [سنن نسائي/كتاب الصيام/حدیث: 2316]
اردو حاشہ:
امام نسائی رحمہ اللہ کا مقصد اس شخص کی تردید کرنا ہے جو اس مسافر کے لیے افطار کی رخصت کا قائل ہے جسے رمضان المبارک سفر کی حالت میں طلوع ہو، جس شخص کو رمضان المبارک کا آغاز گھر میں ہو جائے، وہ سفر میں روزہ چھوڑنے کا مجاز نہیں، نیز سفر شروع ہونے سے پہلے رکھا جانے والا روزہ سفر کے دوران میں افطار کرنا جائز نہیں۔ مذکورہ حدیث میں دونوں باتوں کا رد ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2316
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2404
´تاجر روزہ چھوڑ سکتا ہے۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ سے مکہ کے لیے نکلے یہاں تک کہ مقام عسفان پر پہنچے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (پانی وغیرہ کا) برتن منگایا اور اسے اپنے منہ سے لگایا تاکہ آپ اسے لوگوں کو دکھا دیں (کہ میں روزے سے نہیں ہوں) اور یہ رمضان میں ہوا، اسی لیے ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے تھے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ بھی رکھا ہے اور افطار بھی کیا ہے، تو جو چاہے روزہ رکھے اور جو چاہے نہ رکھے۔ [سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2404]
فوائد ومسائل:
(1) یہ واقعہ فتح مکہ کے سفر کا ہے۔
(2) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس شخص نے سفر میں صبح کو روزے کی نیت کی ہو تو شرعی عذر سے کسی وقت اگر وہ افطار کرنا چاہے تو کر سکتا ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2404
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1661
´سفر میں روزہ رکھنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر میں روزہ رکھا بھی ہے، اور نہیں بھی رکھا ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيام/حدیث: 1661]
اردو حاشہ:
فائده:
جس سفر میں نماز قصر کرنا جائز ہے۔
اس میں مسافر کےلئے روزہ چھوڑنا بھی جائز ہے۔
خواہ سفر پیدل ہو یا سواری پر اور سواری خواہ گاڑی ہو یا ہوائی جہاز وغیرہ اور خواہ تھکاوٹ لاحق ہوتی ہو جس میں روزہ مشکل ہو یا تھکاوٹ لاحق نہ ہوتی۔
خواہ سفر میں بھوک پیاس لگتی ہے۔
یا نہ لگتی ہو۔
کیونکہ شریعت نے سفر میں نمازقصر کرنے اور روزہ چھوڑنے کی مطلق اجازت دی ہے۔
اور اس میں سواری کی نوعیت یا تھکاوٹ اور بھوک پیاس وغیرہ کی کوئی قید نہیں لگائی۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
﴿ فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضًا أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ ۚ﴾ (البقرة: 184/2)
”تم میں سے جو شخص بیمار ہو یا سفر میں ہوتو وہ (رمضان کے علاوہ)
دوسرے دنوں سے گنتی پوری کرلے۔“
علاوہ ازیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔
اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے کہ اس کی عطا کردہ رخصتوں کو قبول کیا جائے جس طرح و ہ اس بات کو ناپسند کرتا ہے کہ اس کی معصیت ونافرمانی کا ارتکاب کیاجائے۔ (مسند أحمد: 108/2)
البتہ اگر روزہ رکھنے میں کوئی تکلیف نہ ہو اور کوئی روزہ رکھ لے تو ا س میں کوئی حرج نہیں اور اگر تکلیف ہوتو پھر روزہ رکھنے سے احتراز کرنا چاہیے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1661
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:524
524- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: فتح مکہ کے موقع پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے مہینے میں مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ رکھا ہوا تھا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کدید کے مقام پر پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ توڑ دیا۔ راوی بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری طرز عمل کو اختیار کیا جاتا تھا۔ سفیان کہتے ہیں: مجھے نہیں معلوم کہ زہری نے یہ الفاظ عبید اللہ کے حوالے سے نقل کیے ہیں، یا سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کے حوالے سے نقل کئے ہیں۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:524]
فائدہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ سفر میں روزہ افطار کرنا درست ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 524
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2604
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے سال رمضان میں نکلے اور روزہ رکھا اور جب کدید نامی جگہ پر پہنچے تو روزہ رکھنا چھوڑ دیا اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری عمل کی پیروی کرتے تھے یہ سب سے زیادہ نیا پھر اس سے زیادہ نیا۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:2604]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
فتح مکہ کا واقعہ 8ء میں پیش آیا اور کدید مکہ سے بیالیس میل کے فاصلہ پر ایک چشمہ ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2604
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2608
ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں سفر پر نکلے روزہ رکھتے رہے جب عسفان نامی مقام پر پہنچے تو پانی کا برتن منگوایا اور اسے دن کے وقت ہی پی لیا تاکہ لوگ اس عمل کو دیکھ لیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ نہیں رکھا حتی کہ مکہ پہنچ گئے، ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر میں روزے رکھے بھی ہیں اور روزے چھوڑے بھی ہیں لہٰذا جس کا جی چاہے روزے رکھے اور جس... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:2608]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث میں فتح مکہ والے سفر کا ذکر ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ سے روزے رکھتے ہوئے چلتے رہے جب مقام عسفان پر پہنچے جو مکہ معظمہ سے 25 یا 36 میل کے فاصلہ پر ایک چشمہ ہے تو جب مکہ قریب آ گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطرہ محسوس کیا کہ قریبی وقت میں کوئی مقابلہ یا معرکہ نہ پیش آ جائے اس لیے مسلمانوں کی قوت و طاقت کی بحالی کے لیے آپﷺ نے مناسب سمجھا کہ روزے نہ رکھے جائیں اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کو دکھانے کے لیے سب کے سامنے دن کے وقت پانی نوش فرمایا تاکہ کسی کے لیے روزہ چھوڑنا گراں نہ گزرے،
اس سے معلوم ہوا روزہ قضاء کرنے میں کوئی مصلحت اور حکمت ہو تو روزہ نہ رکھنا افضل ہے اور اگر روزہ چھوڑنے میں کوئی مصلحت اور حکمت نہ ہو تو روزہ رکھنا افضل ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2608
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2609
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ روزے رکھنے والے کو برا نہ کہو اور نہ روزہ نہ رکھنے والے کو برا کہو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر میں روزہ رکھا بھی ہے اور نہیں بھی رکھا۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:2609]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
سفر میں روزہ رکھنے نہ رکھنے کے بارے میں علماء میں اختلاف ہے۔
1۔
سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما،
ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ،
زہری رحمۃ اللہ علیہ،
نخعی رحمۃ اللہ علیہ،
اور ابن ظاہر رحمۃ اللہ علیہ،
کے نزدیک سفر میں فرض روزہ رکھنا جائز نہیں ہے اگر رکھے گا تو کفایت نہیں کرے گا اور اقامت (حضر)
میں اس کی قضاء لازم ہو گی۔
2۔
سعید ابن المسیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ،
اسحاق رحمۃ اللہ علیہ،
اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ،
اور احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ،
کے نزدیک افطار افضل ہے۔
3۔
اگر رمضان اقامت میں شروع ہو گیا بعد میں سفر پر نکلا تو افطار جائز نہیں۔
4۔
اگر انسان روزہ رکھ سکتا ہے اور روزہ رکھنے سے تکلیف اور مشقت یا نقصان کا اندیشہ نہیں ہے تو امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ امام مالکِ رحمۃ اللہ علیہ،
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ،
اور جمہور علماء کے نزدیک روزہ رکھنا افضل ہے اگر روزہ رکھنے سے تکلیف یا مشقت یا نقصان کا ڈر ہو تو روزہ نہ رکھنا افضل ہے۔
5۔
اختیار ہے کہ روزہ رکھے یا نہ رکھے۔
6۔
جس عمل میں سہولت اور آسانی ہو وہی افضل ہے یعنی اگر بعد میں قضاء مشکل ہو تو روزہ رکھنا افضل ہے اگر قضاء میں سہولت اور آسانی ہو تو یہ افضل ہے عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ اور ابن المنذر رحمۃ اللہ علیہ کا یہی موقف ہے صحیح بات یہی ہے کہ موقع اور محل کا لحاظ رکھا جائے گا اگر دشمن سے ٹکراؤ کا خطرہ ہے یا روزہ رکھنے میں حضرکے مقابلہ میں زائد تکلیف اور مشقت ہے یا عجب وریاء کا اندیشہ ہے یا دوسروں کے لیے بوجھ اور کلفت کا باعث بنے گا یا شرعی رخصت کو اہمیت نہیں دیتا یا اس کا عمل دوسروں کے لیے نمونہ بنتا ہے تو پھر روزہ نہ رکھنا افضل ہے اور اگر روزہ رکھنے میں تکلیف ومشقت یا ضرر کا اندیشہ نہیں یا بعد میں نہ رکھ سکنے کا خطرہ ہے یا سب ساتھیوں کے ساتھ روزہ رکھنے کی سہولت اور آسانی میسر ہے تو روزہ رکھنا افضل ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2609
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1944
1944. حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ رمضان المبارک میں مکہ مکرمہ کی طرف روانہ ہوئے۔ اس وقت آپ روزے سے تھے۔ جب مقام کدید پہنچے تو آپ نے وہاں روزہ چھوڑ دیا۔ تب لوگوں نے بھی روزہ افطار کردیا۔ ابو عبداللہ(امام بخاری) نے فرمایا: کدید، عسفان اور قدید کے درمیان ایک چشمے کانام ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1944]
حدیث حاشیہ:
امام بخاری نے یہ باب لاکر اس روایت کا ضعف بیان کیا جو حضرت علی ؓ سے مروی ہے کہ جب کسی شخص پر رمضان کا چاند حالت اقامت میں آجائے تو پھر وہ سفر میں افطار نہیں کرسکتا، جمہور علماء اس کے خلا ف ہیں وہ کہتے ہیں اللہ تعالیٰ کا قول مطلق ہے ﴿فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ﴾ (البقرة: 184)
اور ابن عباس ؓ کی حدیث سے ثابت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے کدید میں پہنچ کر پھر روزہ نہیں رکھا حالانکہ آپ دسویں رمضان کو مدینہ سے روانہ ہوئے تھے اب اگرکوئی شخص اقامت میں روزہ کی نیت کرلے پھر دن کو کسی وقت سفر میں نکلے تو اس کو روزہ کھول ڈالنا درست ہے یا پورا کرنا چاہئے اس میں اختلاف ہے مگر ہمارے امام احمد بن حنبل اور اسحق بن راہویہ یہ روزہ افطار کرنے کو درست جانتے ہیں، اور مزنی نے اس کے لیے اس حدیث سے حجت لی حالانکہ اس حدیث میں اس کی کوئی حجت نہیں کیوں کہ کدید مدینہ سے کئی منزل پر ہے۔
(وحیدی)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1944
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1948
1948. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے انھوں نےفرمایا کہ رسول اللہ ﷺ مدینہ طیبہ سے مکہ مکرمہ روانہ ہوئے آپ نے روزہ رکھا حتیٰ کہ جب مقام عسفان پہنچے تو پانی منگوایا اسے ا پنے ہاتھوں کی طرف اٹھایا تاکہ لوگوں کو دکھائیں۔ پھر آپ نے روزہ افطار کردیا تاآنکہ آپ مکہ مکرمہ تشریف لائے۔ یہ سفر دوران رمضان کا تھا۔ حضرت ابن عباس ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے سفر میں روزہ رکھا اور افطار بھی کیا اب جو چاہے (دوران سفر میں) روزہ رکھے اور جو چاہے افطار کرے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1948]
حدیث حاشیہ:
یہ اصحاب فتویٰ و قیاد ت کے لیے ہے ان کا عمل دیکھ کر لوگوں کو مسئلہ معلوم ہو جائے اور پھر وہ بھی اس کے مطابق عمل کریں جیسا کہ آنحضرت ﷺ نے اپنے عمل سے دکھلایا۔
سفر میں روزہ رکھنا نہ رکھنا یہ خود مسافر کے اپنے حالات پر موقوف ہے۔
شارع ؑ نے ہر دو عمل کے لیے اسے مختار بنایا ہے، طاؤس بن کیسان فارسی الاصل خولانی ہمدانی یمانی ہیں۔
ایک جماعت سے روایت کرتے ہیں۔
ان سے زہری جیسے اجلہ روایت کرتے ہیں۔
علم و عمل میں بہت اونچے تھے، مکہ شریف میں 105ھ میں وفات پائی۔
رحمة اللہ تعالیٰ علیه۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1948
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2953
2953. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ نے رمضان المبارک میں سفر کیا اور روزہ رکھا حتی کہ جب آپ مقام کدید پہنچے تو افطار کر دیا۔ سفیان نے کہا کہ زہری نے فرمایا: مجھے عبید اللہ نے بتایا: انھوں نے حضرت ابن عباس ؓسے پوری حدیث بیان کی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2953]
حدیث حاشیہ:
اس آخری سند کے بیان کرنے سے حضرت امام بخاری ؒ کی غرض یہ ہے کہ عبید اللہ سے سماع کی اس میں زہری نے تصریح کی ہے اور پہلی روایت میں اس کی صراحت نہیں ہے‘ بعض نسخوں میں یہاں اتنی عبارت زائد ہے۔
امام بخاری نے کہا‘ زہری اور ان کے ہم خیالوں کا یہی قول ہے کہ اثنائے رمضان میں سفر در پیش ہونے سے افطار درست نہیں اور چاہئے کہ آنحضرتﷺ کے آخری فعل کو لیا جائے۔
یعنی آخر فعل آپﷺ کا یہ ہے کہ آپﷺ نے کدید میں پہنچ کر افطار کرلیا۔
تو معلوم ہوا کہ اگر رمضان میں سفر پیش آئے تو افطار کرنا درست ہے اور یہ مسئلہ آیت قرآنی ﴿وَمَنْ کَانَ مَرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃً مِّنْ آیْامٍ اُخَرَ﴾ (البقرة: 175)
سے ثابت ہے۔
یہاں اس حدیث کو لانے سے حضرت مجتہد مطلق امام بخاریؒ کی غرض یہ ہے کہ جس شخص نے رمضان میں سفر مکروہ بتایا‘ اس کا قول صحیح نہیں۔
آج ۲۶ محرم ۹۱ھ کو دانا پور پٹنہ میں مخلصی و محبی حضرت حاجی عبدالغفار صاحب ٹیلر کے دولت کدہ پر نظر ثانی شروع کر رہا ہوں۔
اللہ پاک تمام کی توفیق بخشے۔
اور میرے محترم بھائی کو برکات دارین سے مزید در مزید نوازے۔
اور ان کے حسنات جاریہ کو قبول فرمائے آمین۔
۱۸ مارچ ۱۹۷۱ء
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2953
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4276
4276. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ ماہ رمضان میں دس ہزار صحابہ ؓ کے ہمراہ مدینہ طیبہ سے مکہ مکرمہ کی جانب روانہ ہوئے۔ اس وقت آپ کو مدینہ طیبہ میں تشریف لائے ساڑھے آٹھ سال پورے ہونے والے تھے۔ اس سفر میں آپ اور آپ کے ساتھ آنے والے مسلمان روزے سے تھے۔ پھر جب آپ مقام کدید پر پہنچے جو عسفان اور قدید کے درمیان ایک چشمہ ہے تو وہاں آپ نے روزہ توڑ دیا اور آپ کے ساتھ مسلمانوں نے بھی روزہ توڑ دیا۔ امام زہری فرماتے ہیں کہ شرعی احکام میں رسول اللہ ﷺ کے سب سے آخری عمل کو ہی لیا جائے گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4276]
حدیث حاشیہ:
قرآن مجید میں بھی مسافر کے لیے خاص اجازت ہے کہ مسافر چا ہے تو سفرمیں روزہ نہ رکھے اور سفر پورا کر کے چھوٹے ہوئے روزوں کو پورا کر لے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4276
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1944
1944. حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ رمضان المبارک میں مکہ مکرمہ کی طرف روانہ ہوئے۔ اس وقت آپ روزے سے تھے۔ جب مقام کدید پہنچے تو آپ نے وہاں روزہ چھوڑ دیا۔ تب لوگوں نے بھی روزہ افطار کردیا۔ ابو عبداللہ(امام بخاری) نے فرمایا: کدید، عسفان اور قدید کے درمیان ایک چشمے کانام ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1944]
حدیث حاشیہ:
(1)
عنوان میں دو ٹوک الفاظ میں کوئی حکم نہیں بیان کیا گیا کیونکہ پیش کردہ حدیث میں اس کی وضاحت تھی۔
(2)
بعض حضرات کا موقف ہے کہ جس شخص کو دوران اقامت میں رمضان کا چاند نظر آ جائے اسے دوران سفر میں روزہ افطار کرنے کی اجازت نہیں۔
دلیل کے طور پر حضرت علی ؓ سے مروی ایک حدیث پیش کی جاتی ہے کہ جس شخص کو حضر میں رمضان آ جائے، پھر وہ سفر کرے تو اس کے لیے روزہ چھوڑنا جائز نہیں کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ﴾ (البقرة: 195: 2)
”جو تم میں سے اس مہینے میں موجود ہو، اسے چاہیے کہ روزہ رکھے۔
“ امام بخاری ؒ نے اس عنوان سے حدیث مذکور کے ضعف کی طرف اشارہ کیا ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ دس رمضان کو فتح مکہ کے لیے روانہ ہوئے تھے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو رمضان کا چاند مدینہ طیبہ میں نظر آیا تھا اور آپ نے چند روزے رکھنے کے بعد سفر کا آغاز کیا۔
اسی طرح بعض حضرات کا کہنا ہے کہ اگر دوران حضر میں فجر طلوع ہو تو اس دن سفر کرنے کے بعد بھی روزہ ترک کرنا جائز نہیں جبکہ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے روزہ رکھنے کے بعد دوران سفر میں اسے افطار کیا تھا۔
اس سے معلوم ہوا کہ روزہ رکھنے کے بعد اگر سفر کا آغاز کیا جائے تو دوران سفر میں اسے پورا کرنا ضروری نہیں بلکہ اسے چھوڑا جا سکتا ہے۔
(فتح الباري: 231/4)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1944
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1948
1948. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے انھوں نےفرمایا کہ رسول اللہ ﷺ مدینہ طیبہ سے مکہ مکرمہ روانہ ہوئے آپ نے روزہ رکھا حتیٰ کہ جب مقام عسفان پہنچے تو پانی منگوایا اسے ا پنے ہاتھوں کی طرف اٹھایا تاکہ لوگوں کو دکھائیں۔ پھر آپ نے روزہ افطار کردیا تاآنکہ آپ مکہ مکرمہ تشریف لائے۔ یہ سفر دوران رمضان کا تھا۔ حضرت ابن عباس ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے سفر میں روزہ رکھا اور افطار بھی کیا اب جو چاہے (دوران سفر میں) روزہ رکھے اور جو چاہے افطار کرے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1948]
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ ﷺ ماہ رمضان میں فتح مکہ کے لیے روانہ ہوئے، لوگ بھی آپ کے ہمراہ روزہ رکھے ہوئے تھے۔
آپ سے عرض کی گئی:
لوگوں کو روزے کے باعث سخت تکلیف ہے اور وہ آپ کو دیکھ رہے ہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے پانی کا پیالہ منگوایا اور اسے لوگوں کو دکھانے کے لیے اپنے منہ کی طرف بلند کیا تاکہ لوگ افطار کرنے میں آپ کا اتباع کریں۔
پھر آپ نے لوگوں کى آسانی کے لیے روزہ افطار کر دیا کیونکہ روزے کے سبب کمزوری ہونے کے باعث دشمن کے مقابلے میں حرج واقع ہونے کا امکان تھا۔
(2)
دوران سفر میں روزہ افطار کرنے کے کئی ایک اسباب ہیں، مثلا:
٭ جو انسان روزے کی وجہ سے مشقت میں پڑ جائے۔
٭ جسے روزے کی وجہ سے تکبر اور خودپسندی کا اندیشہ ہو۔
٭ اسے رخصت سے بے زاری اور روگردانی کا خطرہ ہو۔
ایسے حالات میں روزہ ترک کر دینا افضل ہے۔
امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ روزہ ترک کرنا صرف مذکورہ تین اسباب ہی پر منحصر نہیں بلکہ اتباع اور اقتدا کے لیے چھوڑا جائے تاکہ اس کی پیروی کر کے مذکورہ تینوں اسباب سے بچ جائے تو ایسا کرنا بھی افضل اور بہتر ہے لیکن حضرت ابن عباس ؓ نے اسے صرف بیان جواز پر محمول کیا ہے، افضل اور بہتر قرار نہیں دیا۔
ہم اس سلسلے میں پہلے وضاحت کر چکے ہیں۔
(فتح الباري: 238/4)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1948
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2953
2953. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ نے رمضان المبارک میں سفر کیا اور روزہ رکھا حتی کہ جب آپ مقام کدید پہنچے تو افطار کر دیا۔ سفیان نے کہا کہ زہری نے فرمایا: مجھے عبید اللہ نے بتایا: انھوں نے حضرت ابن عباس ؓسے پوری حدیث بیان کی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2953]
حدیث حاشیہ:
1۔
بعض لوگ ماہ رمضان میں سفرکرنا مکروہ خیال کرتے ہیں۔
ان کا کہناہے کہ اس مہینے میں سفرکرنے سے اس کا تقدس مجروح ہوتا ہے۔
امام بخاری ؒنے اس کی تردیدفرمائی ہے کہ یہ موقف بلا دلیل ہے بلکہ رسول اللہ ﷺ سے ماہ رمضان میں سفرکرنا ثابت ہے،لہذا اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
2۔
چونکہ پہلی سند میں امام زہری ؒنے اپنے شیخ عبیداللہ سے سماع کی تصریح نہیں کی تھی،اس لیے امام بخاری ؒنے حدیث کے آخرمیں دوسری سند ذکر کی ہے۔
اس میں تصریح سماع ہے۔
3۔
کدید یہ مقام مکہ مکرمہ سے 90 کلومیٹر کے فاصلے پر عسفان اور خلیص کے درمیان واقع ہے۔
آج کل اس کا نام خَمص ہے۔
(معجم المعالم الجغرافیة في السیرة النبویة، ص: 263)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2953
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4276
4276. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ ماہ رمضان میں دس ہزار صحابہ ؓ کے ہمراہ مدینہ طیبہ سے مکہ مکرمہ کی جانب روانہ ہوئے۔ اس وقت آپ کو مدینہ طیبہ میں تشریف لائے ساڑھے آٹھ سال پورے ہونے والے تھے۔ اس سفر میں آپ اور آپ کے ساتھ آنے والے مسلمان روزے سے تھے۔ پھر جب آپ مقام کدید پر پہنچے جو عسفان اور قدید کے درمیان ایک چشمہ ہے تو وہاں آپ نے روزہ توڑ دیا اور آپ کے ساتھ مسلمانوں نے بھی روزہ توڑ دیا۔ امام زہری فرماتے ہیں کہ شرعی احکام میں رسول اللہ ﷺ کے سب سے آخری عمل کو ہی لیا جائے گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4276]
حدیث حاشیہ:
1۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اثنائے سفر میں روزہ افطار کیاجاسکتا ہے جیسا کہ قرآنِ مجید میں ہے:
"جو شخص مریض ہو یاسفر پر ہو وہ بعد میں فوت شدہ روزے رکھ لے۔
" (البقرۃ 2: 185۔
)
اس حدیث میں ان لوگوں کا درد ہے جو کہتے ہیں کہ جس نے اول رمضان میں روزہ رکھ لیا، اب اس افطار نہیں کرنا چاہیے لیکن اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ کا آخری عمل دوران سفر رمضان المبارک میں روزہ افطار کرنا ہے اور جوسارا رمضان مقیم ہوا سے رمضان کے روزے رکھنا ضروری ہیں۔
2۔
اس حدیث میں امام بخاری ؒ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ فتح مکہ کے لیے دس ہزار کی نفری لے کر روانہ ہوئے اور روانگی کے وقت مکہ مکرمہ سے ہجرت کیے ہوئے آٹھ سال پورے ہونے والے تھے۔
3۔
واضح رہے کہ اس حدیث میں لشکر کی تعداد دس ہزار مذکور ہے جبکہ صاحب مغازی نے بارہ ہزار ذکر کی ہے جن میں مہاجرین، بانصار، اسلم،غفار، مزینہ، اور جہینہ کے قبائل بھی شامل ہیں، ان دونوں روایات میں تطبیق کی یہ صورت ممکن ہے کہ دس ہزار صرف مدینہ طیبہ کا لشکر تھا، پھر اس کے بعد دوہزار مذید قبائلی افراد شامل ہوگئے۔
واللہ اعلم۔
(فتح الباري: 7/8۔
)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4276